• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ہفتے کے اواخر میں اتوار 18, جون کو بمبئی جسے اب دیسی لبادہ اوڑھا کر ممبئی کہاجاتا ہے میں بھارت کی سودیشی گائیوں پر ایک کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے جسے ’جلیل القدر بھارتی گائے‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ تقریب ہندو شدت پسند حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان، اسلام اور پاکستان دشمن اور ہارورڈ یونیورسٹی کے سابقہ فیکلٹی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی زیر نگرانی چلنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ویراٹ ہندوستان سنگم کی جانب سے منعقد کروائی جارہی ہے جو بقول خود بھارتی نوجوانوں (مراد ہندو دہشت پسند ہیں) میں علم پھیلانے کے ساتھ ساتھ ان کو بااختیار بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ اس میں مشاورت کے لئے بھارت کے طول وعرض سے 750 سے زائد دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جارہا ہے تاکہ ہندوستانی گائے سے محبت کرنے والے اس کو بچانے کی تدابیر پر غور وفکر کرسکیں۔ تقریب کے پس منظر میں ہندوستان ویراٹ سنگم گائے کے بارے میں ایک اینیمیشن فلم کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جارہی ہے جس میں بھارتی گائے کے فوائد اور کرشموں کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں اور دودھ دینے والے اس چوپائے کو ’نادر آسمانی تحفہ‘ قرار دیا گیا ہے۔شدت پسند نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد گائے باضابطہ طور پر ایک اہم قومی موضوع کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایک طرف نہ صرف یہ کہ اس کے ذبیحہ پر مکمل طور پر پابندی لگادی گئی ہے بلکہ دوسری طرف درجنوں ہندو شدت پسند گروپ اور افراد گائے کے تحفظ کی آڑمیں ایک پرتشدد مہم چلارہے ہیں جس میں اب تک درجنوں مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
ممبئی میں ہونے والی ایک روزہ قومی کانفرنس میں سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کے علاوہ فلم ایکٹر بھی شرکت کررہے ہیں۔ ان میں نیپال کے نائب وزیراعظم کمل تھاپا، بھارتی وزیرمملکت برائے داخلہ ہنس راج اہیر، مشہور صنعتکار ہرشیکیش مَفتلال اور بالی ووڈ اسٹار وویک اوبرائے شامل ہیں۔ منتظمین کے مطابق اس موقعے پر ایک نئی موبائل ایپ اور کتاب ’کیپٹل ازم، کمیونزم اور کَو اِزم‘ بھی جاری کی جائے گی جو میرے خیال میں ایک نئے دھرم کا احیاء ہے جس میں گائے کو مرکزی حیثیت دی جائے گی اور ’جلیل القدر گائے‘ کے سائنسی اور روحانی کمالات کو جامع طریقے سے عوامی سطح پر اجاگر کیا جائے گا تاکہ بڑے پیمانے پر ایک نئی تعظیم کو تخلیق کیا جائے جس کو ایک باضابطہ سیاسی، سماجی اور مذہبی عقیدے کی صورت میں ترتیب دیا جائے۔ اس سال جنوری میں ہندو شدت پسند بی جے پی کے زیر اقتدار صوبہ راجستھان کے وزیر تعلیم واسدیو دیونانی نے ایک سرکاری تقریب میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ گائے وہ واحد جانور ہے جو سانس لیتے اور چھوڑتے وقت آکسیجن پیداکرتی ہے۔ انہوں نے مجمع میں شامل لوگوں کو اس امر کی ’سائنسی افادیت‘ پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ گائے کے قریب جانے سے کھانسی ٹھیک اور سردی کم لگتی ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ گائے کے فضلے میں وٹامن بی کی کثیر مقدار ہونے کے سبب یہ تابکاری کو بے اثر کردیتی ہے۔ ایٹمی تابکاری اور گائے کے فضلے سے تعلق کا انکشاف ستمبر 2015ءمیں ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس نے اپنی ایک اشاعت میں یوں کیا: ’گائے کا فضلہ ہائیڈروجن اور ایٹم بموں کو غیر مؤثر بناسکتا ہے‘۔ یہ نسخہ بظاہر سادہ مگر بہت طاقتور ہے’اگر آپ اپنے گھروں کو گوبر سے لیپ دیں تو تابکاری اس پر اثر نہیں کرسکے گی‘۔
پیشاب ہندوستانی گائے کا مرکزی وصف ہے۔ گائے کے ہندو جانثاروں کے بموجب یہ دنیا کی مفید ترین شے ہے جسکے ذریعے انسانی نظام میں پیدا ہونے والی تمام تر پیچیدگیوں کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ہندتوا دہشت گرد تنظیم آرایس ایس کی متوازی دنیا میں نہ صرف یہ کہ یہ انسانی مدافعتی نظام کو ٹھیک کرتا ہے بلکہ کینسر جیسے مہلک ترین مرض کیلئے بھی تیر بہ ہدف علاج ہے۔ انہی دعووں کی وجہ سے دوائوں میں اس کا استعمال ازحد بڑھ گیا ہے۔ مشہور شدت پسند ہندو رہنما اور یوگ گرو بابا رام دیو کی اربوں ڈالر سالانہ کمائی کرنے والی پتانجلی آیوروید کی اکثر دوائوں میں اس کا ایک جزوِ کے طور شامل ہوتا ہے۔ ایک اور ہندو دہشت پسند گروپ ویشواہندو پریشد پانچ سال سے زائد عرصے سےاس سے بنا مشروب ’گائے کولا‘ تیار کرکے اچھی خاصی کمائی کررہا ہے۔
2014 ءسے ہندو دہشت گرد تنظیم آرایس ایس گائے کے فضلے سے بنی کاسمیٹکس تیار کررہی ہے۔ غیر معمولی پزیرائی کے سبب اب ان مصنوعات کو بڑے پیمانے پر آن لائن مارکیٹوں سے لانچ کیا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد استفادہ کرسکیں۔ ان سب ہی مصنوعات جن میں بیوٹی سوپ، منجن، اسکن کریم حتیٰ کہ قبض کشا دوا بھی شامل ہے جس میں یہ شامل ہے ۔ گزشتہ سال گجرات حکومت کی جانب سے گائیوں کی فلاح و بہبود کے سرکاری ادارے ’گجرات گو سیوا اور گوچار وکاس بورڈ‘ کی جانب سے عورتوں کو سرکاری طور پر یہ صلاح دی گئی کہ اگر وہ تاریخ کے صحیفوں میں مذکور مصر کی ملکۂ حسن قلوپطرہ کی سی خوبصورتی کی طلبگار ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ روزانہ اپنے چہروں پر اس کی مالش کیا کریں۔ ہندوتوا دہشت گرد تنظیم آرایس ایس کی جانب سے چلائی جانے والی دوا ساز فیکٹری دین دیال دھام میں کینسر سے لیکر ذیابطیس اور فیس پیکز سے لیکر صابن تک ہر ایک چیز میں یہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کو موچ اور گٹھیا کے مرض کیلئے بنائے جانے والے مالشی تیلوں ، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ حتیٰ کہ موتیا بند کیلئے بنائے جانے والے آئی ڈراپس میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ فیکٹری کے ایک انتظامی عہدیدار نے بھارت کے مؤقر انگریزی روزنامے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو بتایا : ’ہمارے پاس پچاس گائیں ہیں جن کاگوبر روزانہ جمع کیا جاتا ہے جس کو پھر حسب تجویز استعمال میں لایا جاتا ہے‘۔ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر گئواوشالوں یا گائے کی پناہ گاہوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جہاں قاعدے کے برعکس دودھ کے بجائے اس کی بنیادی پیداوار ہے جو کہ اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ بھارت میں اس کے سب سے بڑےصنعتی ادارے ’اسکان‘ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے:’ہمارے کشید کردہ ایک لیٹرکی پرچون قیمت دوسو روپے ہے جوکہ دودھ کی قیمت سے تین گنا زیادہ ہے‘۔ چونکہ بھارت میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا اس کے کرشماتی عناصر پر یقین بڑھتا جارہا ہے اس لئے لوگ من مانی قیمتیں ادا کرنے کیلئے بلاتامل تیار ہیں۔
پس نوشت:
بھارتی صوبہ راجستھان کے ہائی کورٹ جج جسٹس مہیش چندرا شرما نے اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری روز 31مئی کو گائے کی دیکھ بال کے حوالے سے ایک ضخیم فیصلہ سنادیا جسے انہوں نے اپنی ’روح کی آواز‘ قرار دیا۔ 139 صفحات پر مشتمل حکم میں انہوں نے گائے کے ذبیحہ کو دنیا کا سب سے بڑا گھناؤنا جرم قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت جاری کی کہ وہ گائے کو قومی جانور قرار دینے کیلئے اقدامات کرے۔
اپنے اس آخری فیصلے میں انہوں نے گائے کے پیشاب کے درجنوں فوائد بھی بیان کئے جن میں بھوک بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کو مقوی دل و دماغ بھی قرار دیا گیا۔ اس کے باطنی کمالات کچھ یوں بیان کئے:’’پچھلی زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘‘۔ مزید برآں آپ نے گائے کی توصیف میں فرمایا:’گائے کے جسم کے اندر تینتیس کروڑ دیوی دیوتا مسکن پذیر ہیں ۔اس لئے گائے دنیا کی ماں ہے‘۔
ضمیمہ:
پورے بھارت میں عدالت کے اس فیصلے کو بھرپور سراہا گیا۔ مگر ہندو دہشت گرد تنظیم آرایس ایس کے ایک سینئر لیڈر اندریش کمار جسٹس شرما کے فیصلے کی توصیف کرتے کرتے فرط جذبات میں گائے کی تعظیم میں کئی میل آگے بڑھ گئے۔
آپ نے مطالبہ کیا کہ گائے کو ’’عالمی انسانی جانور‘‘ قرار دیا جائے کیونکہ ہندوستان اور دنیا کی نوّے فیصد آبادی گائے پر انحصار کرتی ہے۔

تازہ ترین