• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر وہ لمحہ آ گیا جسکا انتظار ہماری ارتقا پذیر جمہوریت کو عرصے سے تھا۔ جمہوریت نے اپنی طاقت سب کے سامنے آشکار کر دی ہے۔ تیسری دفعہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم جنکی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت ہے، جنکی حلقہ جاتی طاقت ابھی بھی موثر اور انکی ذات کے گرد مرتکز ہے، جو طاقتور اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں، جنہوں نے پنجاب اور اسلام آباد میں وسیع پیمانے پر انفراسٹرکچر کے منصوبے ریکارڈ وقت میں مکمل کر کے اپنی عوامی پذیرائی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے، انہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم پر قائم ہونے والی مشترکہ تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کیلئے خط لکھا گیا ہے۔ اور بظاہر کوئی ایسی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی کہ وہ قانون کے سامنے سربسجود ہونے سے انکار کر سکیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ موجودہ حکومت نے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے اور اس سے انتقامی کارروائی کا تاثر جوڑنے کی پوری کوشش کی ہے اور قطع نظر اس بات کے کہ چند ایک ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں اداروں اور جے آئی ٹی کی جانب سے بھی سامنے آئی ہیں جنہیں بہر حال نظر انداز کیا جا سکتا ہے، شریف فیملی کے احتساب کی موجودہ قسط کو نہ صرف آئینی اور قانونی مینڈیٹ حاصل ہے بلکہ ابھی تک اسکی مجموعی ساکھ اور اس کے طریقہ کار سے منسوب شفافیت کو بھی زیادہ زک نہیں پہنچی ہے۔ جس طرح کسی مجرم کو عدالتی نظام کے ذریعے تختہ دار پر لٹکائے جانے سے قانون کی حکمرانی مضبوط ہوتی ہے اور اسکے ماورائے عدالت قتل سے قانون کی حکمرانی کو دھچکا لگتا ہے اسی طرح احتساب کا عمل اگر آئینی اور قانونی فورمز پر قانونی تقاضوں کے مطابق انجام کو پہنچے تو نہ صرف اسکے ذریعے سزا وجزا کا عمل شفاف اور قابلِ بھروسہ ہوتا ہے بلکہ وہ مستقبل میں حکمران طبقے کے طرز حکمرانی کو بہتر کرنے میں بھی ممدو معاون ہوتا ہے۔ شریف خاندان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی انکا احتساب ہوتا رہا لیکن وہ ایک تو انتقامی کارروائی کا نتیجہ تھا اور دوسرے وہ مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہیں کر سکا کیونکہ احتساب کے عمل کو سیاسی مخالفین اور فوجی آمروں نے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔ اس لئے کم از کم میں شریف خاندان کی اس توجیح کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ انکا ہر دور میں احتساب ہوتا رہا ہے اور وہ ہر دفعہ اس میں سرخرو ہوئے ہیں۔ در حقیقت انکا احتساب پہلی دفعہ ہو رہا ہے جو ہزاروں میل دور سامنے آنے والے ایک بین الاقوامی اسکینڈل کی وجہ سے شروع ہوا اور جسکو ملکی سیاسی حالات نے بڑی جدوجہد کے ساتھ عدالتی چوکھٹ تک پہنچایا اور پھر عدالتِ عظمی بڑی کوشش کے ساتھ اس بیل کو منڈھے چڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر اس احتساب سے وہ سرخرو ہو کر نکلے تو پھر انکے دعوے میں واقعی وزن ہو گا۔
حکمران طبقے کا احتساب دنیا بھر میں ایک نہایت مشکل عمل ہے۔ جن ممالک میں بادشاہتیں، آمریتیں یا مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں وہاں تو حکمران طبقے کے احتساب کا سوچنا بھی پاگل پن کے مترادف ہے۔ ایسے ممالک میں اگر کوئی دیوانہ خلوت میں بھی حکمرانوں کے احتساب کی بات کر دے اور خفیہ اداروں کو اسکی بھنک پڑ جائے تو پھر اسکے ساتھ کیا ہوگا یہ کسی کو معلوم بھی نہیں پڑے گا۔ یہ صرف جمہوریتوں کا حسن ہے کہ آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا، اداروں کے درمیان اختیارات کے توازن اور مخصوص مدتی حکومتوں کے باعث حکمران طبقے کے احتساب کی نہ صرف بات ہوتی ہے بلکہ گاہے بگاہے احتساب کا عمل وقوع پذیر بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اس سڑک پرکوئی اسپیڈ بریکر نہیں ہوتے۔ امریکہ جیسی جمہوریت جو مثالی تو ہر گز نہیں لیکن ہماری جمہوریت سے ضرور توانا ہے، میں بھی حال ہی میں ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے ان رکاوٹوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ صدر ٹرمپ کے انتخاب میں روسی مداخلت کے الزامات سامنے آئے جب ایف بی آئی نے تحقیقات کاآغاز کیا تو صدر ٹرمپ نے اسکے ڈائریکٹر جیمز کومی کو ہی برطرف کر دیا۔ جیمز کومی نے امریکی سینیٹ میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ان سے تحقیقات ختم کرنے کا کہا اور انکار پر انہیں انکے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
ہمارے ہاں جب جمہوریت کا آغاز ہوا تو حکمران طبقے کے مختلف حلقے بہت مضبوط تھے اور احتساب سے خود کو بری الذمہ سمجھتے تھے۔ لیکن عشروں کی جمہوری تحریک کے باعث بتدریج یہ احتساب کی زد میں آ رہے ہیں۔ ابتدا میں بیوروکریسی کا محاسبہ ناممکن عمل دکھائی دیتا تھا لیکن جمہوریت نے ایسا کر دکھایا۔ پھر سیاستدانوں کے محاسبے کے عمل کی داغ بیل پڑنا شروع ہوئی۔ اس دوران اسٹیبلشمنٹ کے احتساب کی آوازیں بھی زور پکڑتی رہی ہیں۔ اور پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی صورت میں اس سمت میں بھی کچھ پیش رفت ہوئی جو بعد میں جنرل راحیل شریف کی بے جا مداخلت سے ناکام ہوئی۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی بھی مکمل ختم نہیں ہوئی بلکہ ابھی بھی زیر التوا ہے۔
وزیر اعظم کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے عمل کو سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کریں گی لیکن قومی اور عوامی مفاد کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی مثبت پیش رفت ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثوں کے ذرائع کا حساب دینا ہو گا اور اگر وہ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو مطمئن کر لیتے ہیں تو وہ پہلے سے بھی مضبوط سیاسی شخصیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ دوسری صورت میں انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ دونوں صورتوں میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی مضبوط ہو گی۔ اور اسکا مزید فائدہ یہ ہو گا کہ پرویز مشرف کے ٹرائل کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے احتساب کا مطالبہ بھی زور پکڑے گا، بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ حکمران طبقے کا آخری گروہ ہے جو ابھی تک ہر قسم کے احتساب اور جوابدہی سے مبرا ہے۔

تازہ ترین