• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ وزیر ِاعظم نواز شریف نے آستانہ، قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کے ساتھ امن کی بات کی لیکن اپنے ملک میں اُن سے امن کے لمحات روٹھ چکے ہیں۔ داخلی طور پر وہ ایک الجھی، بل کھاتی اور تنگ گلی میں داخل ہوچکے ہیں۔ جب حالات حتمی فیصلے کے متقاضی ہیں تو اُن کے سیاسی مستقبل کے سامنے سنجیدہ سوالیہ نشانات سراٹھا چکے ہیں۔ کیا اُن کا سیاسی ارتحال واقع ہوگا، یا وہ اس صورت ِحال سے عہدہ برا ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے ؟ اس کا دارومدار کچھ ملے جُلے عوامل پر ہے، جس میں اُن کے سیاسی اور غیر سیاسی حریفوں کے دبائو کا لیول، اُن کے کیمپ میں موجود وفادار حامیوں کی سکت اور اُن کی ذاتی ترجیح شامل ہے۔
جے آئی ٹی نے اپنے تمام پتے میز پر رکھ دئیے ہیں۔ وہ، یا کم از کم اُن میں سے کچھ، تحقیقات کو آگے بڑھائیں گے۔ ان تحقیقات کے ہمراہ کچھ جچی تلی میڈیا لیکس کا دستر خوان بھی آباد رکھا جائے گا(صرف تصویر نہیںبلکہ افشا ہونے والی خبریں)۔ ان سے عوام میںتاثر جائے گا کہ جے آئی ٹی نے وزیر ِاعظم اور اُن کے خاندان پر بہت تگڑا ہاتھ ڈالا ہے۔ حسین نواز کی تصویر کے سامنے آنے والے معاملے کوسپریم کورٹ بنچ کی طرف سے سنجیدگی سے نہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس افشا کو انصاف کی تضحیک نہیں سمجھتے۔
اس سے وزیر ِاعظم کے گرد گھیرا تنگ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اس گھیرے کو تحقیقاتی عمل سے باہر آئے بغیر نہیں توڑ سکتے۔ اگرچہ اُن کے وزرا اور معاونین نے نہایت پراعتماد طریقے سے JITکو متنازع بنانے کا عمل شروع کررکھا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود کہ جب تک وزیر ِاعظم اس دائرے سے باہر نہیں آتے، اُنہیں اُن قواعد وضوابط کو تسلیم کرنا پڑے گا جوJIT کے کنٹرول میں ہیں اور جن کی توثیق سپریم کورٹ بنچ کرتا ہے۔
اس سے وہ متضاد کشتیوں میں سوار دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اعتماد کا اظہار، اور دوسری طرف اس عمل پر شکوک و شبہات اور عدم اعتماد۔ بیک وقت متضاد سمتوں میں سفر دیر تک نہیں کیا جاسکتا۔ اُنہیں بہت جلد ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جے آئی ٹی اُنہیں طلب کرچکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ وہاں جاتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ وہاں جاتے ہیں اور اُسی کمرے میں بیٹھتے ہیں جہاں اُن کا بیٹا بیٹھا تھا، اور یہ کمرہ تحقیقات کرنے والوں سے سرد مہری پر مبنی دوری پر واقع ہے، تو یہ اُن کی سیاسی زندگی کا کٹھن ترین مرحلہ ہوگا۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اُن کی ویڈیو جلد یا بدیر سامنے نہیں آئے گی۔ حسین نواز کی ویڈیو تصویر کے سامنے آنے پر عوامی بحث اس طرف مڑ گئی، اور یہ جزوی طور پر درست ہے، کہ اس کا مقصد میڈیا میں شریف خاندان کو استہزا کا نشانہ بنانا تھا۔ تاہم ایک اور اہم مقصد کی طرف زیادہ توجہ مرکوز نہیںہوئی۔ وہ افشا ایک احساس دلانے کے لئے کیا گیا اشارہ تھا کہ عوامی طور پر ہونے والا احتساب خود وزیر ِاعظم کے لئے کتنا کٹھن ثابت ہوگا۔ اس دبا ئو کے سامنے اُن کے اعصاب چٹخ جائیں گے۔ تحقیقات کے دوران کسی ایمبولینس کو طلب کرنے کی خبریا کوئی (من گھڑت) بریکنگ نیوز کہ جے آئی ٹی کے ارکان نے بات کرتے ہوئے وزیر ِاعظم کو لہجہ دھیما رکھنے کی ہدایت کی تو اس سے اُن کے اپنے کیمپ میں بھی یہ تاثر تقویت پاجائے گا کہ وہ گھیرے میں آچکے ہیں۔ اس سے حکومت کی عدم فعالیت مزید گہری ہوجائے گی۔ بیوروکریسی اور دیگر اداروں میں یہ سوچ پید اہونا شروع ہوجائے گی کہ کیا ایسے وزیر ِاعظم کے احکامات کی تعمیل دانشمندی ہوگی جو خود سیاسی منظر نامے سے غائب ہورہے ہیں۔
تحقیقات کے عمل سے باہر آنے کا آپشن موجود ہے، لیکن اس کے لئے ادا کی جانے والی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ سپریم کورٹ اُنہیں توہین ِعدالت کی پاداش میں نااہل قرار دے سکتی ہے۔ نیز تحقیقات سے گریز کو اُن کے سیاسی مخالفین اُن کے جرم کا حتمی ثبوت قراردیں گے۔ ان حالات میں وزیر ِاعظم کے لئے بہتر یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ جے آئی ٹی پر اعتمادکا بیانیہ جاری رکھیں اور اس دوران ایسی پوزیشن لے لیں جہاں وہ اپنے شکوک وشبہات رفع ہونے تک مزید کارروائی کو معطل کرنے کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب دکھائی دیں۔ طلب کیے جانے کی صورت میں وہ وزارت ِعظمیٰ کے استحقاق (مثال کے طور پر سیکورٹی) کو استعمال کرتے ہوئے یا تو جے آئی ٹی کے مقام کو تبدیل کردیں یا اس بات کو یقینی بنائیں کہ جس کمرے میں پوچھ گچھ ہونی ہے، وہاں وہ صرف نواز شریف نہیں، وزیر ِاعظم نواز شریف کے طور پر پیش ہوں۔
اس تدبیر سے اُنہیں کچھ مہلت مل جائے، اور وقت تیزی سے گزررہا ہے۔ اب ایک ماہ سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اُ ن کے بیٹے سے کتنے اور کس قسم کے ثبوت اور بیانات لئے گئے، کیسی رپورٹ فائل کی گئی، یہ سب کچھ جے آئی ٹی کے ہاتھوں میں ہے۔ اور اگر شریف کیمپ کے ارزاں کردہ تاثر کو سنجیدگی سے لیا جائے تو اصل اتھارٹی جے آئی ٹی کو ہینڈل کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس فائل کی خراب رپورٹ کے نتیجے میں اُن کے خلاف مجرمانہ کیس کی کارروائی شروع ہوجائے گی اور اُنہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ اگر جارحانہ انداز میں تحقیقاتی عمل کو آگے بڑھانے والی جے آئی ٹی اُن پر منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور دروغ گوئی سے کام لینے کے الزامات عائد کردے تو وہ کیا کرلیں گے ؟اُن کے ہاتھ میںکھیلنے کے لئے کوئی پتے دکھائی نہیں دیتے۔
روایتی طور پر جب سیاست دان اقتدار میں ہوں اور اُنہیں کسی پریشان کن صورت ِحال کا سامنا ہو تو وہ مدد کے لئے جی ایچ کیو کا نمبر ڈائل کرتے ہیں۔ تاہم موجودہ وزیر ِاعظم کے کیس میں یہ ہاٹ لائن سرد پڑ چکی ہے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ اُنہیں گھر جاتے دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔ شریف کیمپ پہلے تو ایک ٹویٹ، اور اب تصویر کے سامنے آنے سے خود کو ستم کا شکار محسوس کر رہا ہے۔ اس کیمپ میں زیادہ تر اس سوچ کے حامل ہیں کہ حالات سے سمجھوتہ کرکے ہتھیار ڈال دیں۔ نواز شریف خود بھی شاید یہی چاہتے ہیں، اگرچہ وہ کھل کر اس سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے سیاسی بچائو کے لئے اطاعت گزاری کا اشارہ اُن کے وفاداروں پر بہت بھاری گزرے گا۔ جس وقت عدالتیں پہلے ہی ایک پوزیشن لے چکی ہیں ( مافیا کے الفاظ کا استعمال ) اور اپوزیشن بھی شریف برادران کے سیاسی خون بہنے کے تصور سے سرشار ہے تو کیا وزیر ِاعظم اپنے قریبی گروپ پر تکیہ کرسکتے ہیں؟ نہیں۔
یہاں اُنہیں اندرونی چیلنج کا سامنا ہے۔ اُن کا قریبی کیمپ بھی منقسم ہے۔ وزیر ِ داخلہ، چوہدری نثار علی خان اور وزیر ِاعظم کے درمیان اعتماد کا فقدان کوئی راز نہیں۔ وزیر ِداخلہ کا اب تک سامنے آنے والا طرز ِعمل گہرے اسرار کے پردوں میں ملفوف ہے۔ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ فی الحال یہ بتانا مشکل ہے، لیکن شریف کیمپ میں ہر کوئی دوسرے سے یہی کہے گا کہ وہ اپنے صرف اپنے مقصد کے ساتھ ہی وفادار ہیں۔ وزیر ِاعظم کے چھوٹے بھائی، وزیر ِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف اُن کے ساتھ ہیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے عائد کردہ الزامات کے دوران سب سے حیرت انگیز منظر یہ دیکھنے کو ملا کہ شریف خاندان نواز شریف اور مریم نواز تک محدود ہوگیا۔ شہباز شریف اور اُن کے بیٹے بھی پاکستان کے قلب میں وسیع کاروبار کررہے ہیں لیکن اُن کی طرف بمشکل ہی کوئی چاندماری کی گئی۔ گزشتہ چار سال سے اسلام آباد میں جاری اعصاب شکن جنگ میں شہباز شریف صاف پہلو بچا گئے۔ اگر نواز شریف کا سیاسی طور پر کام تمام کردیا جاتا ہے تو اس جماعت کے دو دھڑے جو محفوظ رہیں گے، وہ ایک شہباز شریف ہیں اور دوسرے چوہدری نثار علی خان۔ وہ آنے والے برسوں میں قومی سیاست میں اپنے طور پر قدم رکھتے دکھائی دیں گے۔
اس صورت میں نواز شریف کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ اپنے اقتدار کے پانچویں برس، جبکہ سیاسی ا سٹیج پر ایک خونی ڈرامہ جاری ہے اور وہ اس ڈرامے میں گھیرے میں آئے ہوئے کردار ہیں، اُنکے پاس واحد اور قابل ِ اعتماد ایک ہی پارٹنر ہے جس کی طرف وہ دیکھ سکتے ہیں۔ اُنہیں صرف ایک ہاتھ ہی سیاسی سہارا دے سکتا ہے۔یہ وہ ہاتھ ہے جس سے اُنھوں نے ہمیشہ توہین آمیز سلوک کیا، لیکن اس نے اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا۔یہ ہاتھ اُن کی پارٹی اور وفادار ساتھی ہیں۔ اُن کے نزدیک نواز شریف کا نام ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے لے کر یونین کونسلز تک کے ارکان(جن کی طرف 2013ء کے بعد سے اُنھوںنے دیکھنا تک گوارا نہ کیا ) کے لئے صرف نواز شریف کا نام ہی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ن لیگ کے لئے وہی درجہ رکھتے ہیں جو پی ٹی آئی کے لئے عمران خان۔ کیا وہ تمام بے معانی لبادے اتارتے ہوئے اپنی جماعت کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے ؟ کیا وہ اس کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے درمیانی حد بندیوں کو توڑیں گے ؟
افسوس، اس ضمن میںنوا زشریف اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ جب بھی اُن پر مشکل وقت آیا تو اُن کے دل میں پارٹی کی محبت جاگ اُٹھی لیکن حالات بدلتے ہی سردمہری کے سامنے وہ لو ٹمٹما کے بجھ گئی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہی ہے کہ وہ عوام سے رابطہ رکھنے والے اور نچلی سطح پر پارٹی کے معاملات میں الجھنے والے سیاست دان کی بجائے خود کو ایک قومی قائد کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک ایسا قائد جسے ان ’’بکھیڑوں ‘‘ میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
پھربھی جب اُن کے گردراہیں مسدود ہوتی جارہی ہیں، وہ اپنے اور امڈتے چلے آنے والے خطرات کے درمیان جو دفاعی شیلڈ کھڑی کرسکتے ہیں، وہ اپنا قائدانہ اسٹیٹس نہیں بلکہ اپنی پارٹی ہے۔ عوامی سیاست نے اُنہیں عظمت کے آسمان پر پہنچایا تھا،عوامی سیاست ہی اُنہیں زمین بوس ہونے سے بچا سکتی ہے۔ کیا وہ پارٹی کارکنوں کو ایس او ایس سگنل دیں گے ؟کیا یہ کال دینے کے بعد قبل از انتخابات کا آپشن استعمال کرسکتے ہیں؟ہمیں بہت جلد ان باتوں کا علم ہوجائے گا۔ اس وقت ہماری نظروں کے سامنے نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ وہ خود کو درپیش چیلنجز کی شکایت تو کرتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ان سے نکلنے کے لئے کوئی ’’آئوٹ آف باکس ‘‘حل کی طرف ہاتھ بڑھانے کی جرات کرتے یا نہیں۔

تازہ ترین