• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا کرے وزیراعظم نوازشریف اور جنرل قمر باجوہ اپنے تازہ دورہ سعودی عرب سے اس مشکل اور پیچیدہ صورتحال کا کوئی واضح اور عوامی حل لیکر لوٹیں جو وہ اپنے متفکر پاکستانی عوام کو بھی بتاسکیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ کے بعد بعض سعودی فیصلوں اور اقدامات سے جو خطرناک صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کا جوابی حل اس لئے بھی پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورہ اور اس کےبعد خطے میں صورتحال کی تیز تبدیلی نے پورے خطے کے عوام بالخصوص پاکستانی عوام میں عالمی طاقتوں اور اپنے حکمرانوں کے بارے میں ’’خفیہ سودے بازیوں‘‘ سیکرٹ پلان اور عقائد کی بنیاد پر مسلمانوں کی تقسیم اور تصادم کے خطرات کی بناء پر عوامی اعتماد کو نقصان پہنچایا لہٰذا جو بھی کچھ طے پائے اسے پاکستانی عوام کے سامنے لانا بڑا ضروری ہے۔ ورنہ بھارت، سعودی عرب اور امریکہ کے مابین تعلقات اور تعاون کی موجودہ کیفیت ایسی ہے کہ پاک۔سعودی مذاکرات کے حقائق اسلام آباد کی بجائے نئی دلی اور واشنگٹن کے راستے ہی دنیا کے سامنے آجائیں گے اور پھر اس میں بھارت یا امریکی مفادات اور ٹوئسٹ بھی شامل رہے گا۔ خطے میں پہلے ہی اربوں ڈالرز کے غیرملکی اسلحہ جنگی طیاروں اور جنگی ٹیکنالوجی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ امریکی سینٹرل کمان کے تربیت یافتہ امریکی فوج بھی خطے میں موجود ہے بلکہ عراق، شام وغیرہ میں  آپریشن بھی جاری ہیں۔جس پیمانے پر امریکی اسلحہ کی فوری خریداری کا آرڈر دیا گیا، آخر یہ تمام ہتھیار اور فوجی تیاریاں کسی نمائش یا جشن کیلئے نہیں بلکہ اس کا استعمال ایک منطقی ضرورت ہے۔خطے کی صورتحال خطرات کی جانب بڑھ رہی ہے۔ خصوصاً ایران، افغانستان اور بھارت سے سرحدیں مشترک ہیں تو آجکل ان تینوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کی کنٹرول لائن کے آرپار تو چھوٹی موٹی غیراعلانیہ پاک۔بھارت جنگ بھی ایک عرصہ سے جاری ہے۔ 800 ارب ڈالرزکے اخراجات دو ہزار سے زائد امریکی فوجی اموات اور ہزاروں زخمی و معذور امریکی فوجی 10 سال افغانستان میں جنگ اور قیام کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکے۔ امریکہ کو اس قدر طویل جنگ کے بعد بھی اپنی ناکامی کا بڑا قلق ہے لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ جیسا منفرد امریکی صدر اور کمانڈر انچیف افغانستان میں مزید امریکی افواج بھی بھیج سکتا ہے۔کسی کو اب اس خوش فہمی میں نہیںرہنا چاہئے کہ افغانستان میں اگر امریکی افواج میں اضافہ کیا گیا تو یہ اقدام پاکستان کیلئے مفید ثابت ہوگا کیونکہ امریکی افواج افغانستان میں ہی دہشت گردی کیخلاف مصروف رہیں گی اور دہشت گردوں سے پاکستانی سرحدوں سے باہر ہی افغان سرزمین پر مصروف بھی رہیں گی اور پاکستان کے تعاون کی طلبگار ہوں گی۔ اس بار افغانستان میں آنے والی امریکی افواج نئی حکمت عملی، نئے ایجنڈا اور مختلف مقاصد کے ساتھ آئیں گی۔خطے میں اب ماضی کے مقابلے میں کئی نئے ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ بھی آچکے ہیں۔ نیز امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں کسی اقدام، حکمت عملی اور فیصلے کا وقت متعین نہیں کیا جاسکتا۔ وہ غیرمتوقع فیصلے اور اقدام کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی فوج کے حمایت یافتہ کردوں سے ’’وہائٹ فاسفورس‘‘ کے کیمیکل ہتھیاروں کو عراق اور شام کے سویلین آبادی والے علاقوں میںاستعمال کراچکے ہیں، اس بارے میں  ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ بھی رپورٹ کرچکا ہے۔ اسی طرح  اگر کسی کو یہ توقع ہے کہ امریکہ کی داخلی سیاست اور بحرانوں میں گھرے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اسی دبائو میں دھنس کر رہ جائیں گے اور بیرونی دنیا پر توجہ نہیں دے سکیں گےتو یہ بھی درست تجزیہ یوں نہیں کہ وہ داخلی سیاست اور بحران کا رخ موڑنے اور امریکی قوم کو بیرونی خطرات کے نام پر متحد کرنے کیلئے کسی بیرونی محاذ پر علاقائی جنگ بھی چھیڑ سکتے ہیں۔ اس وقت بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت روس سے رابطوں کے اسکینڈل کی تحقیقات کے علاوہ کئی اسکینڈلوں میں مزید الجھی ہوئی ہے۔غیرملکی شخصیات اور حکومتوں سے کاروبار، اپنے ہوٹلوں کیلئے بزنس کا حصول امریکی قانون کے تحت صدرمملکت کیلئے ممنوع ہے مگر ٹرمپ کے مخالفین ثبوتوں کے ساتھ مقدمہ دائرکررہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس قانون کی خلاف ورزی اور مفادات کے ٹکرائو کے قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اب تو ریاست میری لینڈ اور واشنگٹن ڈی سی کی حکومتوں نے بھی صدر ٹرمپ کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ عدالت میں داخل کردیا ہے اور یہ مقدمہ خاصا سنجیدہ معاملہ ہوتا نظر آتا ہے۔ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو بھی اچانک فائر کرچکے ہیں اور اس بارے میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر بھی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے بہت سے انکشافات کرکے صدر ٹرمپ کو مشتعل کرچکے ہیں۔تازہ شنید یہ بھی ہے کہ وہ روس سے رابطوں کے اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے خصوصی اختیارات کے حامل آزاد و خودمختار اسپیشل پراسیکیوٹر کی تقرری پر بھی ناراض ہیں اور اس اسپیشل پراسیکیوٹر کو بھی ’’فائر‘‘ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ٹرمپ کا یہ تاریخی اقدام ایک تاریخی ہنگامہ کھڑا کردے گا کیونکہ صدر نکسن کے واٹر گیٹ، بل کلنٹن کے مونیکا لیونسکی اور اس سے قبل چند مزید اہم امور پر محکمہ انصاف کی جانب سے مقرر کئے جانے والے اسپیشل پراسیکیوٹرز کو کسی بھی صدر نے ’’فائر‘‘ نہیں کیا۔ ٹرمپ یونیورسٹی کا اسکینڈل بھاری جرمانے اور رقم کی واپسی کے بعد ختم سمجھئے لیکن ٹرمپ فائونڈیشن اور اب بیٹے ایرک ٹرمپ کی نان پرافٹ تنظیم کے بارے میں نیویارک اسٹیٹ کے اٹارنی جنرل نے بعض بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا کام بھی شروع کررکھا ہے۔ ان کے اٹارنی جنرل جیف سیشن بھی الزامات کے نرغے میں ہیں اور صدر ٹرمپ سے بھی وہ ناراض اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مائل نظر آتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ’’جنگ‘‘ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔مگر صدر ٹرمپ ابھی تک اپنے منہ زور ٹوئیٹرز کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس تمام تر غیرمتوقع صورتحال اور غیرروایتی صدر ٹرمپ کی اپنی پیدا کردہ مشکلات کے باوجود امریکہ کا عدالتی، عسکری، عالمی جاسوسی (سی آئی اے) اور ایگزیکٹو نظام بدستور موثر انداز میں کام کررہے ہیں۔ امریکہ کی دو اپیل کورٹس نےایک بار پھر صدر ٹرمپ کے مسلمان ملکوں سے امریکہ کیلئے ٹریول پر بین کے قانون پر عمل کو روک دیا ہے جو ٹرمپ کے صدر ہونے کے باوجود عدالتی آرڈر کے تحت حکم امتناع یعنی ناقابل عمل ہے۔ صدر ٹرمپ کی داخلی محاذ پر مشکلات، بحران اور ناکامیاں بیان کرنے کا مقصدصرف یہ واضح کرنا ہے کہ عالمی طاقت امریکہ کی فوج اور سی آئی اے مشرق وسطیٰ، افغانستان سمیت دنیا بھر میں امریکی مفادات کی حفاظت کیلئے مصروف ہے اور داخلی حالات کی اونچ نیچ کی پروا کئے بغیر اپنے مشن میں مصروف رہتی ہے۔ سی آئی اے تو قانونی طور پر صرف بیرونی دنیا میں کام کرنے کی پابند ہے۔دنیا کے حکمرانوں اور ملکوں کی جاسوسی کرنا، انہیں اپنا ایجنٹ یا ہمدرد بنانا اور حکومتی اور معاشرتی اداروں میں اپنی رسائی پیدا کرنا سی آئی اےکا کام ہے تو امریکی فوج کی مختلف کمان اپنے ڈیوٹی کے علاقوں میں مصروف کار ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جغرافیہ، تاریخ اور بہت کچھ تبدیل کرنے کیلئے امریکی فوج نے اپنی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ سی آئی اے بھی خاموشی سے سرگرم ہے۔ جنگ کے خطرات ابھر آئےہیں۔ روس اور چین بھی آگاہ اور تیار ہیں۔ غیرعرب ملک ترکی اور پاکستان بھی ان خطرات کے اثرات کی لپیٹ میں ہیں۔ بھارت افغان کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر پاکستان سے ازلی دشمنی کا فائدہ اٹھاکر اپنے توسیعی عزائم پورے کرنا چاہتا ہے اور ایشیائی سپرطاقت کا درجہ چاہتا ہے۔ مسلم ممالک کا خطہ پہلے ہی سے دہشت گردی اور تصادم کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہے اور اسرائیل اب مسلمانوں کے بائیکاٹ اور فلسطینیوں سے تصادم کے مرحلے سے باہر نکل کر تباہ شدہ شام و عراق کو اپنے زیراثر لینے کیلئے تیار ہے۔ سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر عرب ممالک بھی مصر کی طرح اسرائیل کی حقیقت تسلیم کرچکے اور رسمی و سفارتی قبولیت کے قریب ہیں۔ او آئی سی کو تو عملاً تحلیل ہی سمجھئے۔ امت مسلمہ کی وحدت کا عملی نمونہ بھی آپ کے سامنے آچکا اپنے مفاد کے سوا کسی کو کسی سے غرض نہیں۔ان حالات میں وزیراعظم نوازشریف دورہ سعودی عرب پر گئے۔ رہی بات پاکستان کے مصالحانہ رول ادا کرنے کی تو عرض ہے کہ جس ملک پاکستان کے لیڈر اور اشرافیہ اپنی تمام دولت خلیجی ملکوں میں جمع رکھ کر رہائش خرید کر اقتدار سے محرومی کے دنوں ان ممالک میں پناہ گزین ہوکر زندگی گزاریں اور ان کی حکومتوں کے رحم و کرم پر ہوں تو پھر ان مالدارممالک اور ان کے حکمرانوں کے درمیان مصالحت کرانے کی ہمت و صلاحیت کہاں رہتی ہے۔

تازہ ترین