• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعتراف کہ ’’قطر۔ سعودی عرب تنازع اُن کے حالیہ دورہ سعودی عرب کا نتیجہ ہے‘‘ نے مغربی قوتوں کی اسلام دشمنی کو بے نقاب کردیا ہے۔ ٹرمپ کے بقول ’’انہوں نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے موقع پر سعودی قیادت کو متنبہ کیا تھا کہ قطر انتہا پسند نظریات کے حامل لوگوں کی حمایت کرکے اُنہیں مالی معاونت فراہم کررہا ہے، آج اُنہیں خوشی ہورہی ہے کہ عرب ممالک نے خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزام میں قطر کے خلاف انتہائی اقدام اٹھایا۔‘‘ واضح ہو کہ سعودی عرب اور مصر سمیت 6 عرب ممالک نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے گزشتہ دنوں قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ اِن ممالک نے قطر پر الزام عائد تھا کہ قطر، اخوان المسلمون، دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی حمایت اور اُنہیں فنڈز فراہم کررہا ہے جبکہ سعودی عرب کا یہ بھی کہنا تھا کہ قطر اپنے الجزیرہ چینل کے ذریعے سعودی عرب میں سرکشی کے جذبات ابھار رہا ہے تاہم قطر نے عرب ممالک کے اِن تمام الزامات کی سختی سے تردید کی۔ قطرعرب تنازع میں بات صرف سفارتی تعلقات منقطع کرنے تک محدود نہیں رہی بلکہ ان ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد اپنی سرحدیں اور پروازیں تک بند کرکے قطر پر اقتصادی ناکہ بندی عائد کردی۔ سعودی عرب، قطر کیلئے غذائی اجناس کا واحد راستہ تھا جس کی سرحدیں بند ہونے سے قطر کو ماہ رمضان میں اشیائے خورد و نوش کی قلت کا سامنا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایران، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قطر کو بحری جہازوں اور طیاروں کے ذریعے اشیائے خورد و نوش فراہم کررہا ہے تاکہ قطری عوام کو خوراک کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
قطر اور عرب ممالک کے مابین کشیدگی انتہائی شدت اختیار کرچکی ہے اور موجودہ صورتحال میں تعلقات میں بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ سفارتی تعلقات توڑنے کا یہ انتہائی قدم اس بات کا کھلم کھلا اظہار ہے کہ خلیجی ممالک آپس میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو سفارتی محاذ پر حل کرنے کے بجائے امریکی ایماپر غیر سفارتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قطر عرب تنازع نے اُس وقت جنم لیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران ایران کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا جس کے بعد قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پر قطرکے امیر تمیم بن حمد آل ثانی کا ایک مبینہ بیان نشر ہوا جس میں ایران کے خلاف جارحانہ امریکی رویئے کی مذمت کی گئی اور یہی مذمتی بیان قطرعرب تنازع کا اصل سبب بنا حالانکہ بعد میں قطر نے وضاحت کی کہ سرکاری خبر رساں ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان کے پیچھے ہیکرز کا ہاتھ تھا مگر قطری حکومت کی وضاحت کو قبول نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قطر عرب تنازع میں امریکہ، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی کھل کر حمایت کررہا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ قطر، امریکہ کا طویل عرصے سے فوجی اتحادی ہے اور قطر میں قائم امریکی بیس میں 10ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔
موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی میڈیا نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان قطر کے تحفظ کیلئے اپنی 20 ہزار افواج قطر بھجوارہا ہے تاہم دفتر خارجہ پاکستان نے اس خبر کی سختی سے تردید کی۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی میڈیا کی یہ خبریں بدنیتی کا حصہ ہیں جو مخصوص مہم اور ایجنڈے کے تحت اسلامی ممالک کے مابین دراڑیں ڈالنے کیلئے پھیلائی جارہی ہیں۔ قطر، عرب تنازع پاکستان کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ گزشتہ سال جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے یمن تنازع پر غیر جانبدار رہنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی تو متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان کو یمن کے معاملے پر غیر جانبدار رہنے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘ اگر آج خلیجی تعاون کونسل کے ایک ممبر ملک کو رکن ممالک کے فیصلے کی حمایت نہ کرنے پر اتنی بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے تو کل پاکستان کے کسی اقدام سے ناخوش ہوکر یہ خلیجی ممالک امریکی ایما پر پاکستان کے ساتھ بھی اس طرح کا رویہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو ابھی چند روز ہی روز گزرے ہیں جبکہ اسلامی ممالک کے اتحاد کو قائم ہوئے ابھی چند ہفتے ہی گزرے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ اسلامی ممالک کو لڑوانے کی دشمن کی کوئی سازش ہے۔ ایران پہلے ہی قطر اور سعودی عرب کے درمیان تنازع کی جڑ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو قرار دے چکا ہے۔ موجودہ صورتحال میں او آئی سی اور جی سی سی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ عرب ممالک کو چاہئے کہ وہ ٹھنڈے دماغ سے اپنے اصل دشمن کو پہچانیں کہ کون مسلمانوں کو تفریق کررہا ہے، اگر مسلمان ممالک آپس میں متحد ہیں تو وہ مل کر دہشت گردی اور اسلام دشمنوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ پاکستان قطر سمیت ان تمام ممالک سے اچھے تعلقات رکھتا ہے اور کسی جانبداری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ عرب ممالک کے درمیان مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور ان ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے ایک ثالثی کا کردار ادا کرے اور غیر جانبدار رہے بصورت دیگر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ خلیجی ممالک کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اختلافات مذاکرات سے دور کریں نہ کہ بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلیں جو مسلمانوں کو تقسیم کرکے انہیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔

تازہ ترین