• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل پاکستان کی پارلیمنٹ کے اندر پانامہ لیکس اسکینڈل، جے آئی ٹی کی تشکیل، جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے دوران کھینچی گئی تصویر، لٹیروں سے پاکستان کا کھایا پیسہ واپس لینے کا عزم، سوئس بینکوں میں سیاستدانوں کے اکائونٹس،محکموں کی کرپشن، پاکستان کے بڑے عہدوںپر ناجائز تعیناتیاں، اورنج ٹرین، میٹرو بس پروجیکٹ میں گھپلے، پہلا دو رحکومت ٹھیک تھا، موجودہ دو رحکومت میں یہ نہیں وہ نہیں، لوڈ شیڈنگ کب ختم ہو گی،پرویز مشرف کو ملک سے باہرکس نے جانے دیا،سی پیک منصوبہ، نہال ہاشمی کی دھمکیاں، فلاں تقریر ملک اور قانون کے خلاف ہے،گو نواز گو اور رو عمران رو کے نعرے، پارلیمنٹ کے اند ر ہی ایم این ایز کا دست و گریباں ہونا، ایک دوسرے پر الزامات، ذاتیات پر کیچڑ اور اِس طرح کے دوسرے موضوعات کا شور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ قومی ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات میں سننے، دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہاہے۔یہ بھی نہیں کہ موجودہ دور حکومت میں ہی ایسا ہورہا ہے بلکہ سابقہ ادوار میں بھی پارلیمنٹ کی رونقیں ایسے ہی شور شرابے سے مزین نظر آتی ہیں۔یہ پارلیمنٹ کے ’’ اندر ‘‘ کی کہانی ہے لیکن ایک واقعہ پارلیمنٹ کے باہر ہوا جہاں ایک اوورسیز پاکستانی ملک نور نے ایم این اے شیخ رشید کو روک کر اپنے 22لاکھ روپوں کی واپسی کا تقاضا کیا، تقاضا کرنے والا کلمہ پڑھ کر کہہ رہا تھا کہ میں نے 1998میں جاپان کے دورہ کے دوران جو گاڑی آپ کو اِس وعدے کے ساتھ خرید کر دی تھی کہ پاکستان جا کر آپ مجھے یہ رقم لوٹا دیں گے برائے مہربانی میرے وہ پیسے واپس کردیں، شیخ رشید اس تقاضے کا سامنا نہ کرتے نظر آ رہے تھے،فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ملک نور سے جان چھڑوا کر موقع سے راہِ فرار کی تلاش میںہیں۔ملک نور کیخلاف ایک ایم این اے سے ہاتھا پائی کرنے اور اسے ڈرانے دھمکانے کی رپٹ درج ہوئی اور پولیس اُسے گرفتار کرکے لے گئی، ضمانت پر رہائی کے بعد ملک نور اور شیخ رشید کو پاکستانی میڈیا نے آن گھیرا،شیخ رشید نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پیسوں کا تقاضا کرنے والا مسلم لیگی کارکن ہے اور تحریک انصاف کے ساتھ میرے تعاون کی وجہ سے جان بوجھ کر پیسوں کی ادائیگی کا جھوٹاتقاضا کر رہا ہے،دوسری طرف ملک نور نے میڈیا کو کچھ ایسی تصاویر اور ثبوت دکھائے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ رشید کو گاڑی کی رقم ابھی ادا کرنا ہے۔اِس واقعہ کے چشم دید گواہ کے طور پر مسلم لیگ ن اوورسیز کے جنرل سیکرٹری شیخ قیصر محمود نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیاجس میں کہا گیا کہ ملک نور سچ کہہ رہا ہے،پھر جاپان سے ہی ایک ویڈیو پیغام حافظ شمس نے جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جاپان کے دورہ کے وقت شیخ رشید چونکہ وزیر تھے اِس لئے گاڑی اُن کو تحفے میں دی گئی تھی اور اِس تحفے کے عوض پاکستان میں ملک نور اور شیخ قیصر نے اپنے رُکے ہوئے کام مبینہ طور پر ’’ کلیئر ‘‘ کرائے تھے۔ پارلیمنٹ کے باہر رُونما ہونے والے اِس واقعہ کی بازگشت پارلیمنٹ کے اندر پہنچ گئی اور پاکستانی عوام کے لئے ہونے والا بجٹ اجلاس ملک نور کو قصور وار ٹھہرانے کی بھینٹ چڑھ گیا،قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ملک نور اور موجودہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ واقعہ کیوں رُونما ہوا ؟ انہیں چاہئے تھا کہ وہ ملک نور اور شیخ رشید کے مابین ایک ثالث کا کردا ر ادا کرتے لیکن وہ حکومت پر گرجتے اور برستے رہے۔شیخ رشید نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچا تو اُس کے ذمہ دار میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ہوں گے۔آپ سوچیں کہ ’’ برائے مہربانی‘‘ کہہ کر اپنے پیسوں کا تقاضا کرنے والا شیخ رشید کو کیا نقصان دے سکتا ہے ؟اور اگر رقم کا تقاضا کرنے والا مسلم لیگی ہے یا میاں برادران کا قریبی ساتھی ہے تو پولیس نے اُسے گرفتار کیوں کیا ؟اُس پر ایف آئی آر کیوں درج کی گئی ؟اگر وہ گاڑی تحفے میں دی گئی تھی اور اُس تحفے کے عوض پاکستان میں کوئی’’ رُکا ‘‘ ہوا کام کرایا گیاتھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیخ رشید نے وہ رُکا ہوا کام کیوں کیا ؟کیونکہ ایسا کرنا بھی تو قانوناً جرم ہے، کیا کوئی مسلم لیگی دوسری سیاسی جماعت کے نمائندے سے اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا نہیں کر سکتا، وہ سوچ کر چپ سادھ لے کہ اُس کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے ؟پاکستان سے جب بھی کوئی سیاستدان یا بیوروکریٹ تارکین وطن پاکستانیوں کو مہمان نوازی کا شرف بخشنے کے لئے دیارِ غیرآتا ہے تو اوورسیز پاکستانی اُس آنے والے کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھا دیتے ہیں، تارکین وطن پاکستانیوںکا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو وہ آنے والے مہمان کے میزبان بننے کے لئے میدان میں نکل آتے ہیں،یہ پردیس کی ایک خوبصورت روایت ہے، تب نہ تو دیکھا جاتا ہے کہ وہ مہمان کس سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے یا پاکستان کے کس شہر کا رہنے والا ہے بس اُس کی خدمت میںدوسرے ممالک کی سوغاتوں کے تحائف اور معروف و تاریخی اہمیت کی حامل جگہوں کا سیر سپاٹا کرانا فرض اؤلین سمجھ لیاجاتا ہے، تارکین وطن پاکستانی میزبانوں کو اِ ن معاملات پر اُٹھنے والے اخراجات کی قطعاً فکر نہیں ہوتی،لیکن پاکستانی پارلیمنٹ کے باہر رُونما ہونے والے واقعہ نے اوورسیز پاکستانیوں کو فکرمیں مبتلا کردیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ جو تارکین وطن ہر سال زرمبادلہ کی مد میں اپنے ملک 16بلین ڈالرزبھیجتے ہیںوہ بیچارے تو پہلے ہی پاکستان کے ایئر پورٹس، سفارت خانوں اور قونصل خانوں میںاپنے ساتھ ہونے والے بھیڑ بکریوں جیسے سلوک کی زد میںہیں،ستم ظریفی یہ کہ اب ایک اوورسیز پاکستانی ملک نورکی طرف سے موجودہ ایم این اے سے رقم کے تقاضے پر اُس کے خلاف پاکستان میں مقدمہ درج ہوگیاہے،اب ایسا نہ ہو کہ موجودہ حالات کے پیش نظر تارکین وطن پاکستانی وطن عزیز سے آنے والے مہمانوں کی میزبانی کی روایات کو بھولنے میںہی غنیمت جانیں، پارلیمنٹ کے اجلاس کا سارا وقت ضائع کرنے کی بجائے ملک نور اور شیخ رشید کو ایک میز پر بٹھا کر دونوں اطراف کے ثبوت دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تارکین وطن پاکستانیوں کا اعتماد وطن سے آنے والے مہمانوں پر قائم رہ سکے۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

تازہ ترین