• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بحالی ء جمہوریت کی تحریک کے فوراََ بعد جب پورا ملک انتخابی مہم میں مصروف تھا۔ 27دسمبر 2007کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گرد وں نے شہید کردیا۔ یہ جمہوریت کے لیے بہت بڑی قربانی تھی جس کے بارے میںنوجوان بلاول بھٹو نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ ’’جمہوریت‘‘ سب سے بڑا انتقام ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ڈکٹیٹر شپ ، تنگ نظری اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جمہوریت کا احیاء بذاتِ خود ایک بڑا انتقام ہے ۔ صرف یہی نہیں بعد میں وقت نے ثابت کر دیا کہ جمہوریت’’بُری کارکردگی‘‘ کے خلاف بھی ایک انتقام ہے اور پانامہ لیکس کے بعد جمہوریت کی افادیت میں مزید اضافہ ہوا ہے جو کہ یہ ثابت کررہی ہے کہ جمہوریت’’کرپشن ‘‘ کے خلاف بھی سب سے بڑا ’’انتقام‘‘ ہے۔ ورنہ عوامی نمائندے تو ایوب خان نے بھی ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیئے تھے۔ اسی طرح یحیٰی خان نے بھی مقبول سیاسی جماعت اور اس کے لیڈروں پر پابندی عائد کردی تھی۔ ضیاء الحق نے تو حد ہی کردی تھی جب اس نے پاکستان کے مقبول ترین وزیرِ اعظم کو تختہ ء دار پر لٹکا دیا تھا اور برسوں اس پارٹی کے لیڈران و کارکنوں کو ریاستی تشدّد کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح پرویز مشرف نے بھی میاں نواز شریف کے خلاف’’ طیارہ کیس‘‘ بنایا تھا لیکن یہ تمام احتسابی عمل عوامی مقبولیّت حاصل نہ کر سکا۔ کیونکہ ملک میں جمہوریت نہیں، آمریت تھی مارشل لاء کے بارے میں لارڈ ولنگٹن نے کہا تھا’’ مارشل لاء اس جنرل کی مرضی اور خواہش کا نام ہے جوا سے نافذ کرتا ہے یہ صرف طاقت کا قانون ہے اور طاقت کا قانون صرف جنگل میں ہوتا ہے‘‘ یہی وجہ ہے کہ جنگل کا قانون ہونے کی وجہ سے مارشل لاء ادوار میں ’’انصاف ‘‘ کی اُمید کسی کو نہیں ہوتی بلکہ حقیقی مجرموں کو دی جانے والی سزائیں بھی ’’انتقام‘‘ کے زمرے میں آجاتی ہیں۔ اور بعض اوقات تو وہ مجرم ہیروبن جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اپنی قومی سیاسی تاریخ میں دورِ آمریت میں ’’احتساب‘‘ کے حوالے سے جتنے مقدمات چلائے گئے۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے عوام الناس نے ’’انصاف ‘‘ سمجھ کر قبول کیا ہو۔ لیکن جس جماعت کو اپنے وقت کے بڑے بڑے سنگدل ڈکٹیٹروں نے ختم کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن ناکام رہے اسی جماعت کو ’’ جمہوریت کا انتقام‘‘ لے بیٹھا۔ اسی طرح گزشتہ 36برس سے میاں برادران پاکستان کی سیاست میں پوری طرح سرگرم ہیں۔ اُن کی سیاست کے ابتدائی بیس برس اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں گزرے اور اس دوران انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو ڈکٹیٹر اور اسٹیبلشمنٹ اُن سے چاہتی تھی۔ وہ جنرل ضیاء کو اپنا ’’ کِلّا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’ اُن کا ’’کِلّا ‘‘ بہت مضبوط ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب پاکستان کی سیاست میں مالی کرپشن داخل کی گئی۔ اور ارکانِ قومی اسمبلی میں ترقیاتی فنڈ کے نام پر خطیر رقم تقسیم کرنا شروع کی گئی۔ جب دھونس دھاندلی ، رشوت اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے لوگوں کے ضمیر کو خریدا جانے لگا۔ جنرل ضیاء کا ’’ریفرنڈم‘‘ بیسویں صدی کا وہ ’’ انتخابی معجزہ ‘‘ بن کر رہ گیا جس میں سوال کچھ تھا اور جواب کا ’’ خود ساختہ ‘‘ مطلب کچھ اور اخذ کیا گیا۔ وہ ریفرنڈم جسے حبیب جالب نے ’’جن ‘‘ قرار دیا تھا کیونکہ پولنگ اسٹیشنوں پر ’’ ہو کا عالم‘‘ تھا لیکن حکومتی میڈیا نے 80فیصد سے اوپر ووٹنگ کا اعلان کردیا۔ اسی دور میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے جس کو بعد میں زبردستی ’’ جماعتی‘‘ بنا دیا گیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں حکومتی سطح پر جی بھر کر مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی کی گئی۔ عدم برداشت ، منتقمانہ اقدامات اور آمرانہ رجحانات میاں صاحب کی سیاسی ٹریننگ کا حصّہ رہے ہیں وہ تو بھلا ہو جنرل پرویز مشرف کا جس نے میاں صاحب کو ’’ سیاسی شہید ‘‘ بننے کا موقع دیکر 20سال کے بعد’’ سیاسی لیڈر‘‘ بنا دیا۔آج ’’ پانامہ لیکس‘‘ کے دوران اُن لوگوں کے لیے بھی سبق ہے جو دن رات ’’ جمہوریت ‘‘ کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ اور اُن کے لیے بھی جو ’’انصاف‘‘ کو ’’انتقام‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کے مخالفین کے لیے اس وجہ سے کہ یہ محض جمہوریت کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے کہ ایک ’’ آزاد عدلیہ ‘‘ جو کسی ڈکٹیٹر یا نظریہ ء ضرورت کے تحت کام نہیں کر رہی۔ وہ انتہائی شفاف طریقے سے کیس کی سماعت کر رہی جسے اگرچہ متنازع بنانے کی پوری کوشش کی جار ہی ہے۔ لیکن جمہوری آزادیوں کے پیش ِ نظر عوام اسے ’’انتقام‘‘ نہیں سمجھ رہے اسکی دو وجوہات ہیں۔ اوّل ملک میں اقتدار ِ اعلیٰ سویلین کے پاس ہے کسی ڈکٹیٹر کے پاس نہیں جو عدالتوں کو اپنے اقتدار کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔ دوم ۔یہ ایک ’’منی ٹریل‘‘ کا سیدھا سادا مقدمہ ہے کہ فلاں جائیداد خریدنے کے لئے آپ کے پاس رقم کہاں سے آئی؟ اگر وزیرِ اعظم یا انکی فیملی یہ ثابت کر دیتی ہے تو کسی کی مجال ہے کہ کوئی انہیں مجرم ٹھہرائے۔۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا۔ تویہ جمہوریت کا کرپشن کے خلاف انتقام اور احتساب ہوگا۔۔۔اور حکومتی کوششوں کے باوجود ، عوام اسے ’’سیاسی انتقام‘‘ قرار نہیں دیں گے اگر ایسا ہوا تو یہ ’’کرپشن ‘‘ کے خلاف سب سے بڑا اقدام ہوگا۔ جس کے بعد سیاستدانوں کو زیادہ ایمانداری اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیا یہ سب کچھ بھی ’’ جمہوریت کی بدولت ہی ممکن نہیں ہو سکا۔ یہ اُن لوگوں کے لیے بھی سبق ہوگا۔ جو حکمرانوں کے ’’دیانتدارانہ احتساب‘‘ کو بھی ’’ سیاسی انتقام‘‘یا جمہوریت کو خطرہ قرار دے کر عوام کو گمراہ کر تے ہیں۔کہ اس سے جمہوریت کمزور ہوگی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاسی حکومت کا ’’ ٹرم ‘‘ پورا کرنا اور اس کے نتیجے میں عام انتخابات ہار جانا بھی جمہوریت کے استحکام کا مظہر ہے۔ اسی طرح کسی سیاسی لیڈر اور وہ بھی وقت کے وزیرِ اعظم کے خلاف ’’مالی کرپشن‘‘ کا مقدمہ چلنا بھی بذاتِ خود جمہوریت کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ اس سے سیاسی بحران پیدا نہیں ہوگا بلکہ مستقبل کے بہت سے بحران حل ہونے کےامکانات روشن ہو جائیں گے۔

تازہ ترین