• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ملک میں تین ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے لگتا ہے ملک کی قومی سلامتی تو اپنی جگہ سو ہے سو ہے لیکن ریاست کے اندر ریاست بنے ہوئے غیر ریاستی ایکٹر یا بقول شخصے سیاسی اداکار تو اداکار ملک کا ملک ’وڈیرے کا بیٹا‘ لگا ہوا ہے۔ ان تین واقعات میں سائیں تو سائیں اور سائیں کے بیٹے تو اپنی جگہ سائیں کے محافظ بھی سائیں بنے ہونے ہیں۔تینوں واقعات میں طاقتوروں کے محافظین ملوث ہیں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ’ہم سے داد لی جوانی کی‘۔ لیکن ان تین واقعات میں تشویشناک بات یہ ہے کہ عام لوگوں کی، مسکین اور غریب لوگوں کی یا شریف شہریوں کی عزت نفس محفوظ نہیں تو یہ بےلگام مشینی محافظ اپنے مالکان کی حفاظت کیا خاک کریں گے! کہ جسطرح سندھی میں کہتے ہیں کہ اندھا ہاتھی لشکر کا زیان۔ زیان خوروں سے لڑتے لڑتے خود بھی زیان خور بن گئے۔ مذکورہ واقعات میں سے دو واقعات صوبہ سندھ میں رونما ہوئے جن میں ایک سکھر شہر میں ڈاکٹر ادیب رضوی کی طرف سے شمالی سندھ اور ملک کے بالائی حصوں سے گردوں کی بیماری کےمریضوں کے بلاتفریق علاج کیلئے قائم کئے گئے اسپتال اور ایک اور قریبی اسپتال کے گارڈوں کے درمیان پانی بھرنے پر ہونے والی تو تو میں میں اسوقت اور بھی بدتر شکل اختیار کر گئی جب شکارپور کے ایک مقامی لیکن بااثر وڈٖیرے نے مداخلت کی جس وڈیرے کا تعلق سندہ میں حکمراں جماعت سے تھا اور صوبائی اسمبلی کا رکن بھی بتایا گیا ہے۔ یہ سندھ بھی ایک چاہ بابل ہے جہاں ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے فرشتہ خصلت لوگوں کو بھی مجرم ذہن وڈیرے اور ان کے حواری نہیں بخشتے۔ لیکن جب میں نے ڈاکٹر ادیب رضوی کی ٹیم کے ایک سینئر رکن سے ایسے واقعے سے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے واقعہ کے پیچھے کسی بھی سیاسی مداخلت ہونے سے انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کے کامریڈ ڈاکٹروں کو اپنی سفید ٹوپیوں سے زیادہ پروا ان مریضوں کی ہے جن کا علاج کرنے وہ ہر ہفتے سخت موسم اور حالات میں کراچی سے سفر کر کے پہنچتے ہیں۔ ان مسیحائوں کو مریضوں پر اجل کے گھوڑے سواروں سے بہت بہت پہلے پہنچنا ہوتا ہے۔ کتنے ہی نا مساعد حالات کیوں نہ ہوں جس میں وڈیروں نے تو اپنی پگڑ پہلے ہی بغل میں کی ہوئی ہے۔ بس سندھ کے عوام کو چاہئے کہ اپنے جوتے اتار کر اپنی پسلیوں سے باندہ لیں۔ بھیڑیوں کے راج میں لوگ پہلے زمانوں میں جوتے اپنی کوکھ سے باندہ لیا کرتے تھے کہ جیسے بھیڑئیے انکے کلیجے چیر پھاڑ نہ ڈالیں۔ یہی حال آجکل سندھ کے شریف انسانوں کا ہے۔ شکارپور کی جاگن جاگیر کے وڈیرے ہوں کہ سندھ میں کسی بھی جگہ بس لوگ خوفناک بھیڑیوں کے راج میں زندہ لاشیں ہیں۔ جہاں شہر ہو کہ گائوں گندگی کے ٹیلے بن چکے ہیں۔ پینے کے پانی کاآپ نے سنا جہاں ہر تیسرا چوتھا شخص ہیپاٹائیٹس سی کا شکار بتایا جاتا ہے۔ اس سے بچ گیا تو وڈیروں، امیروں انکے گارڈوں سے کیسے بچ پائے گا۔فیوڈل یا جاگیرادارانہ غنڈہ گردی کا دوسرا واقعہ کراچی میں پیش آ ٓیا جب کراچی کے مقامی انگریزی روزنامے کے رپورٹرکو موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے سندھ کی ایک طاقتور شخصیت کے بیٹےکے محافطوں نے غلط اوورٹیک کیا اور جب اس رپورٹر نےگارڈوں کی ایسی لاقانونیت پر احتجاج کیا تو گارڈز الٹا اس پر تشدد کرنے لگے۔ اور یہ سب کچھ اسوقت ہوا جب یہ شخصیت جس کے یہ گارڈ تھےبنفس نفیس موجود تھی۔ صحافی کوتشدد کر کے اَدھ موا چھوڑ کر وہ اسی میل فی گھنٹہ یہ گئے وہ گئے۔ بندوق بردار کلچر کراچی سمیت سندھ یا ملک میں کب ختم ہوا ہے۔ بندوق برداری اور گارڈ کلچر ایک قسم کی دہشت گردی۔لیکن گارڈ گردی کے واقعے کا ہولناک اور شرمناک واقعہ ان تمام واقعوں کا باپ لاہور کے بلاول ہائوس میں پیش آیا جس میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی افطار پارٹی کی تقریب میں پارٹی کے سینئر رہنمائوں کی موجودگی میں بلاول بھٹو زرداری کے محافظین نے پنجاب پی پی پی کے ایک جیالے کارکن نعمان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کی جرثومے کی طرح پھیلی انتہائی دکھ دینے والی وڈیو کو تمام دنیا دیکھ چکی ہے کہ کس طرح ایک جیالے کارکن کو کپڑوں سے آزاد کر کے اسٹیج پرگارڈز نے تشدد کیا۔ کسی انسان کی سیاسی پارٹیوں کے اسٹیج سے ایسا شرمناک اور فسطائیت سے بھرپور منظر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔ کیا یہ گلو بٹ نہیں تھے تو اور کون تھے۔ پیپلزپارٹی کے کارکن یا جیالوں پر تشدد اس لاہور میں جو پارٹی کی جنم بھومی یا جائے پیدائش ہے۔ بقول لاہور کے ایک جیالےکے کہ آج ذولفقار علی بھٹو تک ساری قیادت کو رسواکردیا گیا۔ لیکن ان بے لگام گارڈوں کے ہاتھوں ایسی تذلیل کے واقعات پہلی بار نہیں ہوئے۔ لاڑکانہ سمیت رہنمائوں کے قافلوں اور جلوسوں کے دوران عوام اور کارکنوں کو دھکے دینایہ تو ان کے محافظوں کی خاص ادا ہے۔ بینظیر بھٹو کو تو سیکورٹی کے ذمہ دار نہ بچا سکے پر ان پر جان دینے والے جان نثاران اور اپنے سروں کے چراغ جلانے والے جیالوں کو پارٹی قیادت کی موجودگی میں تشدد کیا گیا۔ شاید مرتضیٰ بھٹو پاکستان کے واحد سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے اپنے کارکنوں پر اپنی جان دیدی (آپ میری طرح ان کی طرز سیاست سے کتنا ہی اختلاف کرتے ہوں)۔ دوسرا ذوالفقار علی بھٹو تھا جو سانگھڑ میں اپنے اوپر قاتلانہ حملے کے دوران گاڑی میں سے اتر کر برستی گولیوں میں کھڑے ہو کر حملہ آوروں کو للکارنے لگے تھے’میں ہوں ذوالفقار علی بھٹو مجھے مارو میرے کارکنوں کو مت مارو۔‘ لیکن اب تو بقول نامور سندھی مصنفہ نورالہدیٰ شاہ کہ لیڈر کارکنان کو سردیوں میں جلائی جانیوالی سوکھی لکڑیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
آپ نے آمر مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا ،پر آپ کے محافظین غریب جیالوں اور عوام پر گارڈز آف ڈس آنربنے ہوئے ہیں۔ فارغ کرو ان کو۔

 

.

تازہ ترین