• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا موجودہ مرکزی حکومت ملک چلانے کی اہل بھی ہے؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے قبلہ ! وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑے بڑے اعلانات کیے تھے کہ فلاں ادارے کو یہ رقم دی جائے گی اور فلاں شعبے میں فلاں فلاں بڑی ترقیاتی اسکیمیں شروع کرنے پر اتنی بڑی رقم مختص کی گئی ہے‘ لوگ حیران ہیں کہ اسی وزیر خزانہ نے اخباری اطلاعات کے مطابق جمعرات کو سینیٹ میں بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے اس اعلان سے بالکل یو ٹرن لیتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’وفاق کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں‘‘ یہ سن کر سینیٹ کے ممبر تو کیا ملک کے اکثر لوگ ہکا بکا رہ گئے ہوں گے‘ نواز شریف صاحب کی حکومت مختلف ایشوز پر جس طرح الٹے سیدھے اقدامات کرتی رہی ہے اس کی وجہ سے اس ملک کے عوام پہلے ہی پریشان ہیں مگر ’’قحط وسائل‘‘ کے بارے میں اعتراف نے تو اس حکومت کی رہی سہی ساکھ کو بھی مذاق بناکر رکھ دیا ہے‘ اس تقریر میں وزیر خزانہ نے کچھ اور بھی مضحکہ خیز اعلانات کیے ہیں جن کا ذکر ہم آگے کرتے ہیں مگر اس ’’اعتراف‘‘ پر بھی دل چاہتا ہے کہ بہت کھل کر لکھا جائے۔ جناب ! اگر وفاق کے پاس وسائل نہیں ہیں تو ملک کیسے چلے گا‘ ملک کی اقتصادیات کا کیا ہوگا۔ ایسے وقت پڑوس میں سے‘ علاقائی طور پر اور عالمی سطح پر پاکستان کے دفاع کے لئے جو سنگین خطرات پیدا ہوگئے ہیں یا ہورہے ہیں‘ ملک ان کا سامنا کیسے کرے گا؟ کیا بیرونی امداد سے ملک چلایا جائے گا‘ اقتصادیات کو ہینڈل کیا جائے گا اور ملک کا دفاع کیا جائے گا‘ اس مرحلے پر یہ سوال خودبخود ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ چین کی مدد سے ملک میں جو ’’سی پیک‘‘ منصوبہ شروع کیا گیا ہے اس کے لئے وفاقی بجٹ میں کیا رقم رکھی گئی ہے؟ ایک دو ہفتے پہلے حیدرآباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو نے ایک انتہائی اہم انکشاف کرتے ہوئے یہ بات تسلیم کی تھی کہ اس پروجیکٹ کے تحت حکومت پاکستان نے گوادر پورٹ 40 سالہ پٹے پر چین کو دیدی ہے اور اس عرصے کے دوران گوادر پورٹ پر جو بھی خرچہ آئے گا وہ چین برداشت کریگا۔ میں نے ’’جنگ‘‘ کے کالم میں بزنجو صاحب کے حوالے سے اس انکشاف کے پس منظر میں کچھ اہم سوالات اٹھائے تھے کہ کیا اس بات کا تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس عرصے میں چین گوادر پر کتنی رقم خرچ کرے گا اور یہ بھی سوال اٹھایا تھا کہ یہ اتنی خطیر رقم ہے کہ پاکستان کی اس وقت کی اقتصادی صورتحال یہ رقم چین کو واپس کرنے کی اہل بھی ہوگی مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے نہ بزنجو صاحب کے انکشاف پر نہ اس کے پس منظر میں میری طرف سے اٹھائے گئے سوالات پر ردعمل میں کوئی وضاحت کی گئی ہے‘ میرا خیال ہے کہ بجٹ بھی اس سلسلے میں خاموش ہے۔ آخر ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا موجودہ حکومت پاکستانی عوام کو ایسے حساس ایشوز پر بھی اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھتی۔ چلئے چھوڑیئے عوام کو کون پوچھتا ہے‘ کم سے کم پارلیمنٹ کو تو اعتماد میں لیا جائے۔ کیا آج تک ’’سی پیک‘‘ کے ایشو کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ان سے توثیق کرائی گئی ہے؟ کیوں‘ کیا پارلیمنٹ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ اب ہم قبلہ وزیر خزانہ کے اس اعلان کی طرف آتے ہیں کہ ’’مالیاتی ایوارڈ میں اب صوبوں کا حصہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے علاوہ بجٹ پیش کرنا غیر آئینی نہیں ہے‘ پاکستان میں ایک مالیاتی ایوارڈ 13 سال بھی جاری رہا اور 16 سال تک بھی ایک ایوارڈ چلا‘‘۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ بجٹ اور ایوارڈ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے‘ میں اس ایشو پر اپنے ایک گزشتہ کالم میں تفصیل سے اپنی رائے ظاہر کرچکا ہوں۔ اس سلسلے میں‘ میں آئین میں شامل نیشنل فنانس کمیشن کی خاص‘ خاص باتیں بھی لکھیں مگر اب یہ کہتے ہیں کہ مالیاتی ایوارڈ اور بجٹ کا کوئی تعلق نہیں اگر واقعی ایسا ہے تو وزیر خزانہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کے دوران آئینی صفحات 84 اور 85 جن پر این ایف سی کے بارے میں آرٹیکل 160 ہے اسے پھاڑ کرایوان میں پھینک کیوں نہیں دیتے؟اس مرحلے پر میں تینوں چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر سندھ صوبے کے سامنے سوال رکھتا ہوں کہ جناب آئین میں یہ شق صوبوں کے مطالبہ پر رکھی گئی تھی مگر اب مرکزی حکومت اس کو مان نہیں رہی ہے‘ تو کیا آپ سارے چھوٹے صوبے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ سارا تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کے پی وزیر اعلیٰ وقت بہ وقت یہ ایشو اٹھاتے رہے ہیں‘ ساتھ ہی اس بات کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ بھی نہ فقط وقت بہ وقت یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ آئین کی اس شق پر عمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سندھ کے پیش کیے گئے بجٹ میں یہ ایشو زور دار انداز میں اٹھایا۔ ساتھ ہی وزیر اعلیٰ سندھ نے بجٹ کے بعد کی گئی پریس کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا۔ وقت آگیا ہے کہ چھوٹے صوبوں کو آپس میں مل کر کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔ یا تو مل کر پارلیمنٹ میں یہ ایشو اٹھایا جائے یا عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ اگر ضروری سمجھا جائے تو چھوٹے صوبے آپس میں مشورے کرکے اس سلسلے میں اپنے اپنے صوبے میں عوامی تحریک شروع کرسکتے ہیں‘ یہ سب تجاویز قابل غور ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب مرحوم سید عبداللہ شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے تو ایسے ایشوز پر دوسرے چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے مذاکرات کرکے مشترکہ طور پر انہیںاٹھاتے تھے۔ اسی روایت کو سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ زندہ کرسکتے ہیں‘ یہ بہت ضروری ہے ۔ موجودہ وزیر خزانہ کے ان اعلانات کا لہجہ اس بات کا مظہر ہے کہ موجودہ حکومت چھوٹے صوبوں کو شاید مرکز کا غلام سمجھتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ چھوٹے صوبوں کے عوام سنجیدگی سے اس ایشو کا نوٹس لیں اور پاکستان کوایک بار پھر حقیقی وفاق بنائیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ چھوٹے صوبے مشترکہ طور پر Move کریں کہ آئین میں ترمیم کرکے پاکستان کو حقیقی وفاق بنایا جائے جس میں پارلیمنٹ میں چاروں صوبوں کی ایک جیسی نشستیں ہوں اور سارے وفاقی اداروں میں ہر پوزیشن پر متعین افسران و دیگر ملازمین میں چاروں صوبوں کا مساوی حصہ ہو‘ اب پاکستان ایک وفاق کے طور پر فقط اس طرح چل سکتا ہے‘ اب میں وزیر خزانہ کی اس تقریر کے اس نکتہ کا ضرور ذکر کروں گا جس کے ذریعے انہوں نے کہا ہے کہ فاٹا‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر والوں نے قابل تقسیم فیڈرل پول میں سے 3 فیصد حصہ مانگا ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تینوں علاقے انتہائی پسماندہ علاقے ہیں‘ یہاں کے لوگ روزگار کیلئے نہ فقط پاکستان کے دور دراز علاقوں مگر ملک سے باہرپریشان رہتے ہیں یہ علاقے مرکز کی ذمہ داری ہیں‘ اب اس ذمہ داری سے جان چھڑاکر اسےصوبوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ کیا مرکز نے باقی تین چھوٹے صوبوں کے پسماندہ علاقوں کا سروے کیا ہے۔ بہرحال یہ بات اپنی جگہ مگر اس بات کی ہم پرزور حمایت کرتے ہیں کہ نہ فقط مرکز ان علاقوں کی ترقی پر رقوم مختص کرے مگر وہاں ان علاقوں کی مطابقت سے ترقیاتی اسکیمیں شروع کریں مگر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کافی عرصے سے سی پیک کا جوشور ہورہا ہے تو سب سے پہلے اس پروجیکٹ کے تحت ان علاقوں کو ترجیح کیوں نہیں دی جاتی جبکہ اطلاعات کے مطابق سارا زور اس پروجیکٹ کے تحت پنجاب میں روڈ‘ اور بجلی کی فیکٹریاں بنانے پر دیا جارہا ہے حالانکہ سندھ سے سینیٹ کے ممبر تاج حیدر بار بار اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ترجیح ان علاقوں کو دی جائے۔

 

.

تازہ ترین