• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جو غیر معمولی رفتار سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور پورے خطے کی تقدیر بدلنے میں ایک مؤثر کردار ادا کرنے لگا ہے، وہ ان دنوں سخت آزمائشوں سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ اس تکلیف دہ صورتِ حال کے اسباب داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی۔ ہماری تاریخ شہادت دیتی ہے کہ جس سیاسی گروہ یا خاندان کے ہاتھ میں اقتدار آیا، اس نے عوام کی سماجی، اقتصادی اور اخلاقی حالت بہتر بنانے کے بجائے اختیارات اپنے مفادات میں بے دردی سے استعمال کئے۔ سالہا سال تک ایک دوسرے کے خون کی پیاسی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے آخرکار 2006ء میں اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے لندن میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے جس میں قوم سے وعدہ کیا گیا کہ وہ آئندہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے اور فوج کے ساتھ حریف جماعت کی حکومت گرانے کی کسی سازش میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس میثاقِ جمہوریت کے وجود میں آنے کے بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور مسلم لیگ نون کی قیادت نے معاہدے کے مطابق اس کے انتخابی مینڈیٹ کا احترام کیا، چنانچہ زرداری صاحب کی حکومت نے پانچ سال مکمل کئے اور پاکستان میں پہلی بار پُرامن انتقالِ اقتدار کی عظیم روایت قائم ہوئی۔
مسلم لیگ نون دو تہائی مینڈیٹ کے ساتھ 2013ء میں برسرِ اقتدار آئی، مگر اسے آغاز ہی سے پانچ بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلا یہ کہ عمران خاں نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے حکومت کے خلاف عوامی تحریک شروع کر دی۔ دوسرا چیلنج پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں قومی وسائل کی ایک ایسی بندر بانٹ کی کہ ڈیفالٹ کا خطرہ پیدا ہو چلا تھا۔ تیسرا چیلنج سندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کی طرف سے تھا جو مرکز کے ساتھ شدید محاذ آرائی اور سرکشی پر اُتر آئی تھیں۔ چوتھا چیلنج بھارت میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے سے پیدا ہوا جو آر ایس ایس کے فلسفے پر یقین رکھتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کو اچھوت بنانے کی پالیسی پر گامزن چلے آ رہے ہیں۔ ان چاروں گمبھیر مسائل کے علاوہ سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کی صورت میں اُمڈا چلا آرہا تھا۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں سینکڑوں بچے اور خواتین اساتذہ خون میں نہا گئے اور کراچی سالہا سال سے زخم زخم چلا آ رہا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف ان پانچوں چیلنجز کا قوتِ ارادی، بالغ نظری اور سیاسی فہم و فراست سے مقابلہ کرتے رہے اور ان پر قابو پانے میں خاصی حد تک کامیاب رہے۔ اگرچہ عمران خاں صاحب نے اسلام آباد کا چار ماہ تک گھیراؤ کئے رکھا جنہیں بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن وزیراعظم کو اصل طاقت پارلیمان اور عوام نے فراہم کی جو جمہوری عمل کے ساتھ پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔
دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنے کے لیے سول اور فوجی قیادت کی مشاورت سے آپریشن ضربِ عضب اور کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوئے۔ حکومت نے امن قائم کرنے والی فورسز کو وافر وسائل فراہم کئے اور فوج، رینجرز اور پولیس کی بے مثل شجاعت اور جاں نثاری کی بدولت دہشت گردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ اس کے پہلو بہ پہلو اقتصادی اصلاحات کے ذریعے ڈیفالٹ کے خطرے پر قابو پا لیا گیا اور نواز شریف اور ان کے رفقائے کار کی اَنتھک اور منظم کوششوں سے چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی راہداری کی تعمیر کا 46؍ارب ڈالر کا معاہدہ طے پایا اور اعلیٰ منصوبہ بندی کے ذریعے ملک میں دوررس ثمرات کی حامل معاشی سرگرمیاں ایک دنیا کو حیرت زدہ کرنے لگیں۔ خوش قسمتی سے ڈان لیکس کے بطن سے جو طوفان اُٹھا تھا، اس پر بھی سیاسی اور عسکری قیادتوں کی ذہنی پختگی اور عالی ظرفی نے قابو پا لیا، مگر پاناما لیکس کا مقدمہ شیطان کی آنت کی طرح پھیل کر نئے نئے فتنے اُٹھا رہا ہے۔ یہ اعصاب شکن ڈراما ایک ایسے نازک مرحلے میں کھیلا جا رہا ہے جب ہماری بربادیوں کے مشورے آسمانوں میں ہو رہے ہیں۔ یہ وقت سیاسی قائدین کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے، پاکستان کو منڈلاتی ہوئی بلاؤں سے محفوظ رکھنے اور انتخابی اصلاحات کے ذریعے شفاف انتخابات کو یقینی بنانے اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت کو مستحکم بنانے کا ہے۔ ہمیں یکسوئی کے ساتھ آگے کی طرف پیش قدمی کرنا اور پیدا شدہ امکانات کا پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کا مکمل رکن بن جانا خارجی منظر نامے میں ایک جوہری تبدیلی لا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے جے آئی ٹی کی بے ہنگم، پُراسرار اور اشتعال انگیز سرگرمیوں نے اتنی اہم بین الاقوامی پیش رفت کو پسِ منظر میں دھکیل دیا ہے اور قوم کی توانائیاں نان ایشوز میں جھونک ڈالی ہیں۔ ایک غیر جانب دار مبصر بلا خوف و تردد یہ اعلان کر سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے انتہائی سخت لہجے میں حکومتی اداروں پر سنگین الزامات کی بوچھاڑ اور جواب میں ان کی طرف سے شدید ردِعمل نے اس پورے عمل کو ناقابلِ اعتبار بنا دیا ہے اور سپریم کورٹ کے فاضل بنچ پر بھی شکوک وشبہات کی پرچھائیاں پڑنے لگی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے سیکورٹی اور پروٹوکول کے بغیر ایک غیرعدالتیجے آئی ٹی میں پیش ہو کر قانون کی حکمرانی پر پختہ یقین رکھنے کا ثبوت دیا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ فل کورٹ بنچ تک جائے گا جس سے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ممکن ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی ریاض سربراہ کانفرنس میں شرکت ایک بہت بڑا سانحہ ثابت ہوئی ہے۔ وہ اسلامی فوجی اتحاد جو دہشت گردی کے خلاف قائم کیا گیا تھا، وہ ایران مخالف اتحاد میں تبدیل ہو گیا اور چند روز بعد سعودی عرب اور مصر کے بشمول چھ عرب ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور اس کی اقتصادی ناکہ بندی بھی شروع کردی جس کے باعث رمضان کے مہینے میں قطر میں شدید غذائی قلت پیدا ہو گئی۔ پاکستان جو مسلم اُمہ کے اتحاد کا زبردست حامی ہے اور اس کے سبھی مسلم ملکوں سے دوستانہ روابط ہیں، وہ منظرنامے میں یکایک تبدیلی کے سبب انتہائی کٹھن حالات سے دوچار ہے۔ اس کے لیے خلیجی ممالک، ایران اور قطر کے درمیان توازن قائم رکھنا بہت محال ہوتا جا رہا ہے۔ خلیجی ممالک میں چالیس لاکھ پاکستانی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن کے مستقبل کے بارے میں سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔ اگرچہ روس اور چین کی کاوشوں سے مصالحتی فضا بڑھ رہی ہے مگر افغانستان کا لہجہ خوفناک حد تک درشت ہے اور بھارت نے کنٹرول لائن پر محاذگرم کر رکھا ہے۔ امریکہ جو افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اس کی طرف سے پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں میں تیزی آگئی ہے۔ ان بپھرے ہوئے حالات میں نوازشریف اور شہباز شریف جن کے چین، روس، وسطی ایشیائی ریاستوں، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور امریکی صدر بھی ان کے قائدانہ کردار کی تعریف کرتے رہتے ہیں، ان کا اپنے اپنے منصب پر قائم رہنا ملکی مفاد میں بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس نازک مرحلے میں کسی جماعت یا کسی ادارے کا کوئی جذباتی، غیرمنطقی یا انتقامی فیصلہ انتہائی مہلک ثابت ہو گا۔ جناب وزیراعظم نے اپنے آرمی چیف اور سیاسی ٹیم کے ساتھ سعودی عرب کا جو مصالحتی دورہ کیا ہے، اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے بہترین مفاد میں تنازع کا حل نکال لیا جائے گا۔ اس مصالحتی عمل کو مزید تقویت پہنچانے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔

 

.

تازہ ترین