• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا جہان میں سیاست دان کئی بار بڑھکیں مارتے ہیں جن کا مقصد اس میدان میں اپنا نام پیدا کرنااور اپنے آپ کو بڑا دلیر ،نڈر ، ایماندار اور بے داغ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس یاوا گوئی کی انتہا ہے ۔ ہر کوئی اپنے آپ کو پارسا کہتا ہے اور دوسرے کو گنہگار اور کرپٹ۔ سیاستدانوں کی زبان سے ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ وہ احتساب کیلئے تیار ہیں مگر جب کبھی بھی ایسا موقع پیدا ہو جائے تو پھر وہ اس سے سالہا سال بھاگتے رہتے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کا دامن صاف نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں احتساب ایک سیاسی نعرہ ہے جس کا مقصد مخالفین کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ پہلے دن سے ہی سب کو معلوم ہے کہ پانامہ کیس کوئی قانونی یا آئینی مقدمہ نہیں ہے بلکہ سیاسی ہے۔ ایک سیاسی جماعت نے، اپنے مخالف کو احتجاج اور دوسرے حربوں کے ذریعے نیچا دکھانے میں ناکام رہنے کے بعد عدالتوں سے امید لگا رکھی ہے کہ وہ اس کے سیاسی مقاصد کے حصول میں مدد کریں۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پچھلے چار سال میں شور مچا رکھا ہے کہ وہ پاکستان کے ایماندار ترین سیاستدان ہیں اور نوازشریف کرپٹ ترین۔ مگر جب ان سے پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کا حساب مانگا جاتا ہے تو ڈھائی سال گزرنے کے باوجود بھی وہ اس کا کچھ کھاتہ الیکشن کمیشن کو دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ اسی طرح جب ان سے بنی گالہ میں 300 کنال اراضی کی خرید کا مالی حساب مانگا جاتا ہے تو اس کو دینے میں لیت ولعل سے کام لیتے ہیں اور بالآخر جمائمہ کے اکائونٹ کی تفصیلات لے آتے ہیں کہ پیسے اس نے بطور قرض انہیں دئیے تھے جو بعد میں انہوں نے واپس کر دئیے ۔ عمران خان نے ابھی سپریم کورٹ کے بہت سے سوالوں کے جواب دینے ہیں اور ان پر کافی مشکل مرحلہ آنے والا ہے کیونکہ عدالت اس مسئلے کی گہرائی تک جانا چاہتی ہے تاکہ معلوم کرسکے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ پچھلے دو سال سے زائد عرصے میں انہوں نے اپنی ایمانداری کے دعوے تو بہت کئے ہیں مگر جب اسے ثابت کرنے کا موقع آیا تو وہ سیاسی بیانات کا سہارا لیتے رہے اور عدالتوں سے اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپتے رہے ہیں۔ دوسری طرف قصہ ہے وزیراعظم نوازشریف کا جنہوں نے جس روز پانامہ اسکینڈل سامنے آیا اعلان کیا کہ وہ ہر قسم کے کمیشن اور کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں۔ یقیناً جمعرات تاریخی دن تھا جب وہ اس جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو ئے ۔ انہوں نے ایسا سپریم کورٹ کے حکم پر کیا ہے۔ یہ کوئی عام ایونٹ نہیں ہے بلکہ تاریخ میں یاد رکھا جانے والا واقعہ ہے جب منتخب وزیراعظم سرکاری افسران کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور اسکے سوالوں کے جواب دئیے۔ یہ صرف جمہوری لوگ ہی کرتے ہیں اور ایسا جمہوریت میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ آمریت میں اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی مثال لے لیں جو ایک سے دوسرے ملک میں بھاگ رہے ہیں مگر پاکستان آنے کا نام صرف اسلئے نہیں لے رہے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ عدالتی احکامات کے مطابق گرفتار کر لئے جائینگے۔ وہ علاج کرانے چھ آٹھ ہفتوں کیلئے بیرون ملک گئے تھے عدالت کو کمٹمنٹ دے کہ وہ واپس آ جائیں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ صرف وزیراعظم ہی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے بلکہ ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی بلاجھجک سمن ملنے کے بعد ایسا کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہفتے کے روز اس ٹیم کے سامنے ہوں گے اور وزیر اعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر 24 جون کو۔ اس سے قبل ان کے دونوں بیٹے کئی کئی پیشیاں بھگت چکے ہیں۔ یہ ہے احتساب اور وہ بھی کڑا ترین۔ موجودہ ’’احتساب‘‘ کا نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے وزیراعظم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اور ان کا خاندان ہر قسم کی جوابدہی کیلئے تیار ہے اور وہ قانون اور آئین کے پابند ہیں باوجود اس کے کہ انہیں جے آئی ٹی پر بالکل اعتماد نہیں ہے ۔
جے آئی ٹی کے رویے سے سب کچھ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کس مشن پر ہے۔ اس نے اب وفاقی حکومت اور اس کے کچھ اداروں سے بڑے گلے شکوے کیے ہیں۔ان میں وہ محکمے بھی شامل ہیں جن کے افسران اس کے ممبرز ہیں۔ جے آئی ٹی کی رائے میں وزارت قانون و انصاف، ایس ای سی پی اور نیب نے کچھ معاملات میں قانون شکنی کی ہے ۔کچھ مواقع پر وزیراعظم ہائوس نے بھی اپنی توقیر کے خلاف کام کئے ہیں۔ اس نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ ان اداروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ یہ اس کی تفتیش میں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے وزیراعظم ہائوس، وفاقی حکومت اور کئی دوسرے اداروں کے خلاف سنگین الزامات لگائے ہیں اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے تاہم وزارت قانون، ایس ای سی پی اور نیب نے اس کے ایک ایک دعوے کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستان میں صرف وہی ایک 6 افسران کا گروپ ہے جو کام کر رہا ہے باقی بہت سے ادارے قانون شکن ہیں اور دوسروں کے اشارے پر ناچ رہے ہیں حالانکہ یہ تاثر بہت عام ہے کہ جے آئی ٹی بالکل ’’فری ایجنٹ‘‘ نہیں ہے اور پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی تفتیشی ادارہ اتنا زیادہ متنازع نہیں ہوا جتنی کہ یہ ٹیم ہوئی ہے۔ دوسروں پر انگلی اٹھانا بڑا آسان ہے مگر جے آئی ٹی خود کیا کارکردگی دکھا رہی ہے اور کس حد تک قانون کی پابندی کر رہی ہے اس کے ریکارڈ سے صاف عیاں ہے۔ اب جبکہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے دئیے گئے 60 دن جس میں اس نے اپنی رپورٹ مکمل کرنی ہے کو ختم ہونے میں تین ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے تو دور دور کہیں آثار نہیں ہیں کہ یہ اپنا کام مقررہ مدت میں مکمل کر لے گی لہٰذا مایوس ہوکر کہ کچھ نہ کچھ تو ہاتھ لگ ہی جائے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ابھی تک کی ’’تفتیش‘‘ صرف بیانات ریکارڈ کرنے اور پاکستان میں موجود مختلف اداروں سے ریکارڈ منگوانے تک محدود ہے حالانکہ دبئی اسٹیل، قطر انوسٹمنٹ ، لندن اپارٹمنٹ اور سعودی اسٹیل مل جیسے تمام معاملات اور مالی امور کا پاکستان سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔تفتیشی کمرے سے حسین نواز کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے تصویر کا لیک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ جے آئی ٹی کا ریکارڈ کس کے ہاتھ میں ہے اور کس حد تک محفوظ ہے۔ ہر بندہ جو اس ٹیم کے سامنے پیش ہوا ہے نے باہر آکر اس کے کچھ ممبران کے سخت غیر قانونی رویے کی شکایت کی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کے چچا زاد طارق شفیع نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں دھمکیاں دے کر کہا گیا کہ وہ سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہوا اپنا حلف نامہ واپس لے لیں ورنہ انہیں لمبی سزا ہوگی۔ جاوید کیانی پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو ’’بریک‘‘ کرنے کیلئے گھنٹوں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے ایک کمرے میں انتظار کرایا گیا۔ حسین نواز اور نون لیگ کے کئی رہنمائوں نے جے آئی ٹی کے دو ممبران پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ شریف فیملی کے خلاف متعصب ہیں مگر مجال ہے کہ ان حضرات نے کوئی ذرہ سا عندیہ بھی دیا ہو کہ وہ جے آئی ٹی میں نہیں بیٹھنا چاہتے کیونکہ ان پر ’’متاثرہ‘‘ پارٹی کا اعتماد نہیں ہے۔

 

.

تازہ ترین