• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب نے خلیجی اور مسلمان ممالک بلکہ دُنیا بھرمیں بھونچال پیدا کردیا ہے۔ قطر اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی اِس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ سعودی عرب، بحرین، یو اے ای اور دیگر ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات توڑ لئے ہیں، اُس کی فضائی کمپنی جو دُنیا کی بہترین فضائی کمپنی مانی جاتی ہے کو چھ عرب ممالک آنے سے روک دیا گیا ہے، اُس کو سعودی عرب سے اجناس کی سپلائی روک دی گئی ہے جبکہ حملے کی دھمکی الگ دے دی ہے۔ جنگ تلی کھڑی ہے، قطر کا قصور کیا ہے ایک تو یہ کہ اس نے امریکی صدر کی تقریر پر اعتراض کیا تھا، دوسرے اس کی فی کس آمدنی امریکہ سے بہتر ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ اور یہ تقریر پہلے طے ہوگئی تھی۔ اس سے پہلے قطر نے امریکہ کے کہنے پر شامی لبریشن آرمی کی مدد کی تھی اور پھر اُن کو امریکہ کے کہنے پر ہی خاموش کرا دیا تھا۔ امریکہ نے قطر کی شام میں کارکردگی دیکھ کر لیبیا میں قذافی کا تختہ الٹنے کی ذمہ داری دیدی مگر اس کے ردعمل کا قطر کو کوئی اندازہ نہیں تھا، چنانچہ ردعمل کے طور پر لیبیا میں امریکی سفیر اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ مارے گئے۔ جس سے امریکہ ناخوش ہوا، اگرچہ اس وقت امریکہ نے اس کو قطر کی ناتجربہ کاری کا شاخسانہ قرار دیا تھا مگر پھر بھی امریکہ کے حلقوں میں اس پر ردعمل سخت تھا اور وہ بہت ملول تھے، پھر مصر میں اخوان المسلمین محمد مرسی کی حکومت کو امریکی ایما پر فوج کے سپہ سلار عبدالفتح سیسی نے معزول کرکے خود حکمراں بن گیا۔ قطریوں نے یہاں محمد مرسی کی حمایت کی، اس پر امریکہ ناراض ہوا، ایران کے معاملے میں بھی قطر کا رویہ مصالحانہ رہا، اس نے ایرانی صدر حسن روحانی کو مبارکباد دی، اس پر امریکہ اور اس کے اتحادی چراغ پا ہوگئے۔ اوریہ الزام لگایا کہ قطر کی سرحد کے قریب واقع ہفوف اور دیگر شہروں میں جو آبادی ہے ،کی امداد کررہا ہے اور ساتھ ساتھ یمن میں حوثی باغیوں کی مدد کا الزام بھی لگایا ۔ لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کا تختہ بھی امریکی ایما پر الٹا اور اب لیبیا عدم اعتماد کا شکار ہے اور دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک خلیفہ ہنقار کی حکومت ہے جن کی مصر اور متحدہ عرب امارات حمایت کررہے ہیں۔ خلیفہ ہنقار کی حکومت لیبیا کے مشرقی علاقے کے شہر تبروک میں قائم ہے اور اس کے پاس فوجی طاقت بھی موجود ہے جبکہ قطر طرابلس میں قائم حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قطر کے دیگر عرب ممالک سے تعلقات کافی خراب ہیں، وہ امریکی پالیسی کے مخالف سمت میں کھڑا نظر آتا ہے۔ پھر اس کے بعد الجزیرہ نامی ٹی وی چینل ہے جو سارے عرب ممالک کو ہی نہیں ساری دُنیا کو متاثر کرتا ہے۔ قطر پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس کا میڈیا اُن کے ملک میں سرکشوں کو اکسا رہا ہے جبکہ قطر نے ان الزامات کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ ہمارے خلاف جو الزام تراشی کی جارہی ہے اور جو فتوے دیئے جارہے ہیں وہ اس کا جواب دے رہا ہے اور کشیدگی کی وجوہات کو واضح کرنے کا حق رکھتا ہے۔ قطر ایک جدید ملک بن گیا ہے اور اس کا میڈیا اس کی بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے اس نے امریکہ کو اڈے دیئے اپنے آپ کو مضبوط کیا ، اس نے ترکی کو بحری مدد کے لئے بلا لیا ہے۔ اس طرح قطر کے مخالف ممالک کے لئے مشکل ہوگیا ہے وہ قطر کو یکسر دبا لیں ۔ حقیقت ہی ہے کہ کسی قسم کی جنگ عرب ممالک کے لئے سم قاتل ہوگی۔ قطر سے یہ مطالبہ بھی عجیب ہے کہ وہ اخوان المسلمین اور حماس کی حمایت بند کرے۔ حماس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور اخوان المسلمین پر بھی شدید ظلم ہورہا ہے۔ اس طرح کی سوچ سے اسرائیل اور عظیم تر اسرائیل کی مدد ہورہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی چالاکی سے پورے مشرق وسطیٰ میں جنگ کی فضا بنا دی ہے وہ اس پر بہت مطمئن ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کے دورے کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن کے دبائو سے عرب اقوام نے انسداد دہشت گردی کا مقابلہ شروع کرتے ہوئے خلیجی ریاست قطر کو تنہا کردیا ہے۔ اگرچہ امریکہ کا سینٹرل کمانڈ ایئربیس قطر میں ہے تو کیا قطر امریکی کنٹرول سے نکل رہا ہے۔ شنید ہے کہ وہ اپنا اڈہ قطر سے متحدہ عرب امارات میں لے جارہا ہے، اس سلسلے میں امریکی صدر نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد سے 7 جون 2017ء کو بات بھی کی ہے۔ اگر اسوقت کوئی جنگ ہوگئی تو اسکے یہ معنی ہونگے کہ عظیم تر اسرائیل کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائیگا جس سے مسلمان ممالک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، امریکہ نےبہر حال قطر کو بھی اپنی حدود میں رکھا کہ وہ ترکی کو بحری اڈہ نہ دے سکے۔ شاید اسی لئے امریکی صدر نے اپنے ٹویٹ میںکہا ہے کہ انتہاپسندی کی عملی حمایت کے تمام اشارے قطر کی جانب اٹھ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ الزام سی آئی اے پر کیوں نہیں کیونکہ وہ دہشت گردی کی اصل وجہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں پچاس ممالک کے سربراہان کے سامنے کہا تھا کہ وہ انتہاپسندی کی فنڈنگ کرنے والے ممالک کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ شاید یہ دہشت گردی کے خوف کے خاتمے کا آغاز ثابت ہو، اگرچہ اس وقت یہ اشارے قطر کی طرف تھے مگر ایران، دیگر ممالک اور خود سعودی عرب کو اس سے کیسے استثنیٰ مل سکتا ہے ۔ اس دورے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو قیمتی تحائف بھی دیئے گئے۔ قطر ایک چھوٹا ملک تو ہے مگر کھیل اچھا کھیل رہا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کو بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کا گریٹ گیم روبہ عمل ہے اور وہ سب کی سرحدیں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ وقت لڑنے کا نہیں ملنے کا ہے۔ امریکہ سعودی عرب کو کیسے درگزر کرسکتے ہیں جبکہ ایک زمانے میں رینڈل کارپوریشن سعودی عرب کے تیل کے کنوئوں کو بمباری کرکے تباہ کرنے کا مشورہ دے چکی ہے۔ممکن ہے کہ اوباما اور ٹرمپ کا فرق کام آئے اوباما ایران کی حمایت میں تھے تو ٹرمپ سعودی عرب کی، مگر جنگ بہر حال کسی کے حق میں نہیں، اس لئے کویت، پاکستان اور دیگر ممالک صلح کرانے کی جو کوشش کررہے ہیں اس سے فائدہ اٹھانا سب کے مفاد میں ہے۔

 

.

تازہ ترین