• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر باہم اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات میں دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے کالائحہ عمل طے کرنے پرمثبت اورحوصلہ افزا بات چیت ہوئی ہے۔ اگر دونوں ملکوں نے اس پر خلوص دل سے عمل کیا تو اس کے نتیجے میں پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے گی اور خطے میں امن کے قیام میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں سربراہوں نے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے حل پر زور دیا اور وزیراعظم نوازشریف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کی بہتری کیلئے انہیں کابل بھی جانا پڑا تو وہ اس سے گریز نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستانی کاوشوں سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ماضی میں کئی مواقع پر کابل حکومت کی درخواست پر پاکستان نے افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ 35سالوں میں افغانستان میں بدامنی اور خانہ جنگی کے دوران لٹے پٹے آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستانی عوام نے گلے لگائے رکھا اور قربانی و ایثار کی ایسی شاندار مثال پیش کی کہ جس کی تاریخ انسانی میں نظیر نہیں ملتی۔ برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں جگہ دینا اور پھر ان کے ساتھ محبت کا سلوک کرنا کوئی معمولی اقدام نہیں ہے۔یہ پاکستان اور اُس کے عوام کی اپنے مظلوم مسلمان افغان بھائیوں کیلئے بہت بڑی قربانی ہے۔ اگرچہ یہ ہمارا ایک دینی فریضہ ہے جس کو ہم نے بہر صورت ادا کرنا ہی تھا لیکن افغان حکومت کو پاکستان کی لازوال قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ افغانستان پاکستان کا برادر ہمسایہ مسلم ملک ہے۔ اُس کے ساتھ ہمارے دیرینہ دینی،معاشرتی اور ثقافتی روابط ہیں۔ بدقسمتی سے جب سے امریکہ نے افغانستان کو اپنی چراگاہ بنایا تب سے وہاں پاکستان کیخلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے دسمبر2014 سے عملی طور پر بڑی حد تک لاتعلق ہوچکا ہے کیونکہ نیٹو فورسز اور امریکی افواج کا ایک بڑا حصہ گزشتہ دو سالوں میں وہاں سے واپس اپنے ملکوں کو روانہ ہوچکا ہے۔ اب نیٹو فورسز تو دوبارہ افغانستان آنے کی غلطی کرنے کو تیار نہیں ہیں لیکن امریکہ نے افغان سرزمین میں فساد برپا کرنے کیلئے اپنی تقریباً 10ہزار فوج کو وہیں رکھا ہوا ہے۔ امریکہ کا یہ کہنا ہے کہ اُس نے افغان فورسز کی تربیت کیلئے اپنی بچی کھچی مختصر فوج کو وہاں تعینات کیا ہے اور حالات معمول پر آنے کے بعد وہ بھی افغانستان سے واپس چلی جائے گی۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کو افغانستان اور عراق میں اپنی عبرت ناک شکست ابھی تک ہضم نہیں ہورہی۔ اب وہ صرف اپنی انا کی خاطر افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں قتل وغارت اور آگ وخون کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ امریکی معیشت دیوالیہ ہوچکی ہے۔ افغانستان اور عراق کی جنگیں امریکی حکام کو بہت مہنگی پڑی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کئی بار اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے افغانستان اور عراق میں جنگیں چھیڑ کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔ لگتا ہے کہ امریکہ اور یورپی ملکوں کا زوال شروع ہوچکا ہے۔ اب وہ یہی چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ میں انتشار اور بدامنی کی فضا کو برقرار رکھا جائے کیونکہ مسلمان ممالک میں اپنے مشترکہ مفادات کیلئے اتحاد و یکجہتی ہوگی تو اس سے مغرب کا ایجنڈا ناکام ہوگا۔ حالیہ خلیجی بحران بھی اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اسلامی ممالک کہیں باہم شیروشکر ہوکر امریکہ اور یورپی ملکوں کیلئے خطرہ نہ بن جائیں۔ قطر نے امریکہ کی طرف سے ایران کو دنیا میں تنہاکرنے کی مخالفت کی تھی جس کی اُسے اب یہ سزا بھگتنی پڑرہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ملکوں نے اُس سے تعلقات منقطع کردیئے ہیں۔ قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کے تصادم سے مستقبل میں سنگین تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے نازک اورکٹھن حالات کا ادراک کرتے ہوئے پاکستانی حکومت نے بھی خلیجی ملکوں میں کشیدگی کم کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند اور قابل تحسین امر ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ سعودی عرب اور سعودی فرمانرواشاہ سلمان سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر بغور جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں بدامنی اور خون خرابے کی اصل جڑ امریکہ ہے۔ موجودہ خلیجی بحران اور بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینا ہوگا۔ایک آزاد اور باوقار خارجہ پالیسی سے ہی دنیا میں ہم باعزت طور پر جی سکتے ہیں۔ متوازن خارجہ پالیسی بنانے کیلئے ہمیں اہم اورحساس ایشوزپراپنا متفقہ قومی بیانیہ ترتیب دینا ہوگا۔ گزشتہ 70سالوں سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ سامراجی طاقتوں نے ہمیں آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی بنانے نہیں دی۔ اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1971میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ آج بھی افغانستان، کشمیر و فلسطین اور عرب ملکوں میں ہمیں جو دردناک اور پریشان کن حالات دیکھنے پڑ رہے ہیں اُس کی وجہ پاکستان کی کنفیوژڈ خارجہ پالیسی ہے۔ آزاد اور متوازن اور قومی مفاد میں بنائی گئی خارجہ پالیسی کے خدوخال پارلیمنٹ کو طے کرنے چاہئیں۔ پارلیمنٹ کو فعال کرکے جمہوری نظام کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ خارجی امور پر پارلیمنٹ میں بھرپور انداز میں کھل کر بحث ہونی چاہئے۔ اسی طرح دوست ممالک چین، ترکی، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کے ساتھ ہم نے اپنے روابط کو کیسے مزید مستحکم کرنا ہے؟ اس پر بھی قومی بیانیہ کی تشکیل ہونی چاہئے۔ ہماری کشمیر پالیسی کیا ہے؟ نیوکلیئر پاور کے متعلق ہماراقومی موقف کیا ہے؟ پاکستان کے ریاستی اداروں اور ٹی وی چینلز کو ملکی مفاد میں ہر سطح پر ایک ہی سوچ اور موقف کو اجاگر کرنا چاہئے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ہونا چاہئے مگر ماضی میں ٹریک ٹو پالیسی کے ذریعے ہم اپنے اس اہم اور حساس معاملے پر قومی بیانیے کونقصان پہنچانے کاباعث بنے ہیں۔ اسی طرح نیوکلیئر پاور کے مسئلے پر بھی ہمارا واضح،ٹھوس اور جاندار موقف ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک پُرامن ایٹمی ریاست ہے اور ہمارا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز کبھی اپنے قومی مفاد کے خلاف بات نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے حساس ایشوز کو میڈیا سے دور رکھتے ہیں۔ ہمارے بعض ٹی وی چینلز اکثر اوقات تمام حدود ہی پار کرجاتے ہیں۔ کئی مرتبہ یوں گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا نہیں ہے بلکہ کسی دشمن ملک کے ٹی وی چینلز ہیں۔ حساس ملکی معاملات پر اتفاق رائے اور قومی بیانیہ ابھی تک تیار نہ ہونا دراصل حکومت پاکستان اور ہمارے حکمرانوں کی ناکامی ہے۔ ہمارا تو عجب معاملہ ہے کہ ارباب اقتدار قومی سلامتی پر بھی کمپرومائز کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی تاجر سجن جندال کی مری میں وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی وجہ سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا۔ بھارت ہماراہمسایہ ملک ہے اور پاکستان اُس سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن اُس کیلئے ہندوستان کو کشمیر کا معاملہ فوری حل کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر آخر کیسے اُس سے ہمارے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں؟ عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی ہماری واضح اور دوٹوک پالیسی ہونی چاہئے۔ اس وقت مغرب کو ایشیا کی ترقی سے شدید خطرہ ہے کیونکہ سی پیک کے بننے سے ایشیا ایک بڑی معاشی قوت بننے جارہا ہے۔ یورپ چونکہ پسماندگی اور تاریکی کے دور سے ماضی میں گزر چکا ہے۔ اب انہیں ایشیامیں چین، پاکستان اور دیگر ممالک کی مستقبل میں ترقی ایک آنکھ نہیں بھارہی۔ افغانستان سے قطر اور شام سے عراق تک دہشت گردی اور قتل وغارت کی اصل وجہ بھی امریکی مداخلت ہے۔ حکومت پاکستان کوخطے کے مسائل اور عالمی معاملات سے نمٹنے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام یقینی بنانا ہوگا۔

 

.

تازہ ترین