• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی نظام کو کنٹرول کرنے کے لئے اشرافیہ میں جاری باہمی کشمکش عام افراد کے لئے بہت بڑی خبر اس صورت میں بن سکتی ہے جب وہ نظام ِ کہن کو تہہ و بالا کرنے اور نئی تبدیلیاں لانے کے لئے پرعزم ہوں۔ کیا پاناما سے ایسا ہوپائے گا؟ ایک حوالے سے اس کھیل میں چوائس بہت واضح ہے ۔ شریف برادران عوامی عہدہ رکھتے ہیں۔ اگر وہ یا اُن کے رشتہ دار اپنے معلوم ذرائع آمدنی سے بڑھ کر زندگی بسر کرتے ہیں یا اپنے اثاثوں کے ذرائع بتانے میں ناکام ہوجاتے ہیںتو پھر اُنہیں بغیر کسی ظن و تخمین کے قصوروار ٹھہرا دینا چاہیے ،ایسے افعال کاکوئی دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ کالا دھن جمع کرنا جرم ہے ، اس پاداش میں اُنہیں فارغ کردیں۔
وزیر ِاعظم کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا ’’فیصلہ ‘‘ بھی کوئی ستائشی پہلو نہیں رکھتا ۔ اس ضمن میں وہ فیصلہ کرنے کے مجاز نہ تھے ۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ایسا کرنا لازمی تھا (اورایسا کرتے ہوئے وہ فوری طور پر نااہل قرار دئیے جانے سے بچ گئے ) ۔ جے آئی ٹی کا نتیجہ ایک طرف، اس واقعہ کے کچھ اہم پہلو ضرور ہیں۔ پاکستان میں قانونی مساوات تاحال ایک معمول نہیں ۔ ہمارا آئین تمام شہریوں سے مساوی قانونی تحفظ کا وعدہ ضرور کرتا ہے لیکن قانون تمام شہریوں کے ساتھ برابری کی سطح پر سلوک نہیں کرتا ۔ کچھ شہری عام سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اُن کا شمار عوام الناس میں نہیں ہوتا۔ اشرافیہ کے درمیان ہونے والی موجود ہ کشمکش سے یہ معروضہ تبدیل نہیں ہونے جارہا۔ ذرا تصور کریںکہ افتخار چوہدری کیس کی سماعت کے لئے اگر سپرم کورٹ جے آئی ٹی تشکیل دیتی جس نے اُن حالات کی تحقیقات کرنی ہوتیں جن میں چیف جسٹس آف پاکستان کو منصب سے ہٹا کر گھرمیں نظر بند کردیا گیا تھا۔ ذرا تصور کریں اگر وہ جے آئی ٹی پرویز مشرف کو طلب کرتی ۔ ذرا سوچیں اگر بریگیڈیئرز یا ، خدانخواستہ، سویلینز پر مشتمل ایک جے آئی ٹی جنرل صاحب سے پوچھ گچھ کرتی۔
ہمارے ہاں ان چیزوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یاد کریں ، ایک ہائی کورٹ مشرف کی گرفتاری کے احکامات صادرکرتی ہے لیکن عمل درآمد کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی ، اور جنرل صاحب آرام سے چلے جاتے ہیں۔ اُن کے وسیع و عریض فارم ہائو س کو سب جیل قرار دے دیا جاتا ہے ۔ اُن کے گاڑیوں کے قافلے کا رخ ایک فوجی اسپتال کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تاکہ اُنہیں عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہ رہے ۔ یاد کریں اُس وقت ہمارے محافظ کس قدر پیچ وتاب کھارہے تھے کہ ایک جنرل کو عدالتوں کے سامنے گھسیٹا جارہا ہے ، اور یہ کہ ایسا احتساب ناقابل ِ قبول ہے ، نیز اس کا فوجی دستوں کے مورال پر برااثر پڑے گا۔
ایک جنرل کا احتساب قومی سلامتی کا مسئلہ، لیکن ایک سویلین وزیر ِاعظم کا احتساب قانون کی حکمرانی کی فتح؟ ایسا کیوں ہے؟ پاکستان میں قیامت آجاتی اگر ایک جنرل قانون کو سبوتاژ کرنے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں اور اُن کے اہل ِخانہ کو گھروں میں مقید کرنے کی پاداش میں عدالت کا سامنا کرلیتا !اب وہ جنرل صاحب بڑے آرام سے بیرونی ممالک میں بیٹھ کر خوشی سے رقص کرتے ہوئے( اور محض لفاظی نہیں)دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح فوج کی پشت پناہی سے عدلیہ کو’’ملک کے وسیع تر مفاد میں ‘‘ شریفوں کو اقتدار سے باہر کرنا چاہئے ۔ یہ بات غیر معمولی ہے کہ جب مشرف یا ’’گمشدہ افراد ‘‘ کی بات ہو تو بہت کم افراد کو قانون کی عظمت یاد آتی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ شریفوں کے ساتھ بھی کوئی غیر معمولی سلوک کیا جائے ۔ یہ معروضات صرف یاد دہانی کے لئے ہیں کہ اشرافیہ کے درمیان ہونے والی کشمکش ہمیشہ اصولوں کے فروغ اور عوامی فلاح کے لئے نہیں ہوتی ۔ اس سے اکثر قانونی نظام کی منافقت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ طاقتور اشرافیہ کے دھڑے قانون کو استعمال کرتے ہوئے اپنی طاقت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اشرافیہ کے ان دھڑوں میں بھی کچھ زیادہ ہی اشراف ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب عوامی نمائندگان اشرافیہ کے اس کلب میں شمولیت اختیار کرتے اور اس کے امتیازی وصف سے لطف ہوتے ہیںتو پھر جب اُن سے بھی طاقت ور اشرافیہ اُن کی ناک زمین پر رگڑتی ہے توعوام اُن سے کوئی ہمدردی محسوس نہیں کرتے۔شریف برادران کے خلاف دی جانے والی اخلاقی دلیل(جس کا پرچار عمران خان بجا طور پر کررہے ہیں کہ وزیر ِاعظم اپنے عہدے کے وقار کا لحاظ کریںاور مجرمانہ تحقیقات کا سامنا کرنے کے لئے اس سے الگ ہوجائیں) درست ہے ۔ لیکن ہماری سیاست میں اخلاقی احتساب کو منتخب ہونے کی صلاحیت کے ساتھ گڈمڈ کردیا جاتا ہے ۔ ارزاں کی جانے والی ناقص دلیل یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو لوگ منتخب کرلیتے ہیں تو حاصل ہونے والا عوامی مینڈیٹ ہر قسم کے جرائم کو دھو ڈالتا ہے ۔ اور جرم ثابت ہونے تک بے گناہی کے قانونی اصول کو من پسند اخلاقیات کو مبہم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جس کا اطلاق جرائم پرنہیں ہوتا۔
لیکن وزیر ِاعظم کو جس وجہ سے شرمندہ کیاجارہا ہے، وہ اپنااخلاقی احتساب کرنے میں ناکامی نہیں۔ شرمندگی کی وجہ اُ ن کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا قرار دیا جارہا ہے کیونکہ ایک غیر تحریری مقدس اصول کے تحت اشرافیہ کا عام شہریوں کی طرح قانون کا سامنا کرنا توہین کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ مشرف کے ساتھ برتائو کرتے وقت اسی تقدیس کو مقدم قرار دیا گیاتھا۔ یہی امتیازی استحقاق ہمیں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے لائن میں کھڑا ہونے کی ضرورت سے بے نیاز کردیتا ہے۔ ہمارا تھانہ کچہری کا روایتی کلچر اسی اصول سے پیوستہ ہے ۔ ہمارا سرپرستی کا نظام ہمیں تھانے اور کچہری میں ریلیف فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے، گویا اشراف قانونی نظام پر غالب مانے جاتے ہیں۔
اس پس ِ منظر میں حسین نواز کی تصویرکے سامنے آنے کی ضرورت کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ ریاست کی سرپرستی اور طاقت کے سامنے پنجاب کی وفاداری بہت کمزور ثابت ہوتی ہے ۔ کہاں ہے آج پی ایم ایل (ق)جو 2002 ء سے لے کر 2008ء تک انتہائی طاقتور تھی ؟ اُس دور میں’’نیب کا بے لاگ احتساب ‘‘ کا دعویٰ ایک لیور کی طرح استعمال کرتے ہوئے ق لیگ کی صفیں بھری گئیں۔ پنجاب ایسا کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ یہاں اسمارٹ چوائس کے دروازے میں سے گزرنا ہی سیاسی بصیر ت سمجھا جاتا ہے ۔ جے آئی ٹی کے سامنے وزیر ِاعظم کی پیشی سے پنجاب میں شاید یہ پیغام جائے گا کہ اشرافیہ کے درمیان ہونے والی جنگ میں زیادہ طاقتور گروپ نے تین مرتبہ وزارت ِعظمیٰ سنبھالنے والے لیڈر کو نیچا دکھانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگر اس طاقت ور گروپ کے بس میں ہوتو یہ نواز شریف کو کسی طور چوتھی مرتبہ وزیر ِاعظم بنتے ہوئے تاریخ رقم کرنے کا موقع نہ دے ۔ عدالتی فیصلوں کی بجائے نتخابات کے حوالے سے ایسے اشارے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ الیکٹ ایبل افراد ان اشاروں کو سمجھتے ہیں۔
پنجاب کی دھڑے بندیوں کی شکار سیاست میں یہ بات واضح ہے کہ یہاں پی ٹی آئی ہی ن لیگ کے سامنے حقیقی چیلنج کے طور پر موجود ہے ۔ اس حقیقت کے ادراک کا پی پی پی کو بھی نقصان ہورہا ہے ۔ راجہ ریاض سے لے کر لے فردوس عاشق اعوان تک ، تمام الیکٹ ایبل ہوا کا رخ پہچان رہے ہیں۔ موسمی پرندوں ، جنہوں نے پی ایم ایل (ن) کی شاخوں پر نشیمن نہیں بنایا تھا، کا رخ پی ٹی آئی کی جانب ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جے آئی ٹی کا عمل شریفوں کو اتنا نقصان پہنچا دے گا کہ پی ایم ایل (ن) کی صفوں سے بھی الیکٹ ایبل نکل کر پرواز کرتے دکھائی دیں ؟
پاناما کیس نے شریف خاندان کے نہاں خانوں کو بے نقاب کرنا شروع کردیا ہے ۔ اس نے حدیبہ پیپرملز اور اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے تن ِ مردہ میں بھی جان ڈال دی ۔ اگر شریف اور اُن کی سیاست قصۂ پارینہ نہیں بن چکی تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اُن کے کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا اُنھوں نے ماضی میں ہمیشہ قانونی عمل کا دامن تھامے رکھا تھا؟اگر وہ اس مرحلے پر دہرے خطرے کی دہائی دیں اور اپنا دامن جھاڑ کر دکھانے کی بجائے تحقیقات سے استثنا کا دعویٰ کریں تو کیا اس سے لوگ ایک منفی نتیجہ نہیں نکالیں گے کہ اُن کے پاس چھپانے کے لئے بہت کچھ ہے ؟
اگر شریف خاندان سے اُن کے اثاثہ جات کے بارے میں پوچھ گچھ ہورہی ہے تو اُن سے ہمدردی جتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس حقیقت کو بھی فراموش کردیں کہ اشرافیہ کے درمیان زیادہ کنٹرول کے لئے ہونے والی رسہ کشی کے دوران اصول کس من پسند میزان پر پرکھے جاتے ہیں اور کس طرح مرضی کا میٹھا ڈال کر بیانیے کا پکوان تیار کیا جاتا ہے ، یا ہم اپنی آنکھیں بند کرلیں کہ اس کشمکش کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟ کون جانتا ہے کہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ میں کیا لکھے گی اور سپریم کورٹ اس کا کیا نتیجہ نکالے گی؟لیکن ایک بات طے ہے کہ تیسری مدت کا وزیر ِاعظم اپنے اقتدار کا باقی وقت بچائو کی جنگ کرتے ہی گزارے گا۔ فرض کرتے ہیں کہ نوا زشریف پاناما سے معجزانہ طور پر بچ نکلنے اور آئندہ عام انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیںتو وہ اس واقعہ سے کیا سبق سیکھیں گے ؟کیا وہ جب چوتھی مدت کے لئے اسلام آباد میں آئیں گے تو اُن کے دل میں فوجی آمروں کا احتساب کرنے یا بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے یا سویلین اتھارٹی کو بالادستی فراہم کرنے کا جذبہ موجزن ہوگا؟حاصل ہونے والی دانائی تو یہی کہتی ہے کہ اخلاقی اتھارٹی رکھنے والے ہی طاقتور حریفوں پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ مشکوک ماضی رکھنے والے سیاست دان سول ملٹری عدم توازن کے مسائل حل کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

 

.

تازہ ترین