• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نواز شریف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے اپنا موقف پیش کر چکے ہیں۔ وہ تین گھنٹے تک جے آئی ٹی کے سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے، جو جمہوریت کی سر بلندی اور آئین و قانون کی بالا دستی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ وزیراعظم نے پہلی بار بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے اور تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ مگر ان پر کرپشن ، بد عنوانی اور کمیشن کا کوئی الزام نہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ انکے خاندانی کاروبار کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں، جو قیام پاکستان سے گیارہ برس پہلے سے قائم ہے۔ وزیر اعظم نے تمام تر تحفظات کے باوجود ، جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اچھی اور قابل قدر نظیر قائم کی۔ اگرچہ اس سے قبل بھی حاضر سروس وزرائے اعظم عدالتوں میں حاضر ہوتے رہے۔ خود میاں نواز شریف بھی اپنے گزشتہ دور حکومت میں سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے ۔ یوسف رضا گیلانی نہ صرف عدالت عظمیٰ میں حاضر ہوئے بلکہ انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی وزیراعظم اپنے ماتحت اداروں کے نمائندوں کے سامنے پیش ہو ا ہے۔ وزیر اعظم کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے آئین و قانون کا احترام کیا اور اپنے آپ کو، خاندان سمیت احتساب کیلئے پیش کیا۔ ہمیں وہ ڈکٹیٹر بھی بخوبی یاد ہے جسے عدالت نے طلب کیا تو وہ گاڑی بھگا کرراولپنڈی کے ایک اسپتال میں لے گیا اور تین ہفتوں تک وی آئی پی کمرے میں چھپا رہا۔ عدالتیں سنگین غداری کے مرتکب اس ملزم کو بارہا سمن جاری کر تی رہیں، مگر اسکے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ آج بھی وہ عدالت کی طلبی کے باوجود مفرور ہے۔البتہ رقص و سرور کی محفلوں میں با قاعدہ حاضر رہتا ہے۔ یہ ہے جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کا فرق جسے فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔
جلد معلوم ہوجائے گا کہ جے آئی ٹی کیا کہتی ہے اور سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ لیکن اسے بہرحال قوم اور عوام کی بد نصیبی ہی کہیں گے کہ ہم ساری دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں۔ ملک مستقل طور پر غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے، بلندیوں کی طرف گامزن اسٹاک ایکسچینج نیچے آنا شروع ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار گریزاں ہیں۔ کاش سیاسی دشمنی، ملک دشمنی کی حدودں کو نہ چھوتی۔ آخر دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کا پانامہ پیپرز میں ذکر تھا۔ ان ممالک میں تو اس قدر افراتفری، انتشار، اور بے یقینی کی کیفیت نہیں۔ خود ساڑھے چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام پانامہ لیکس میں شامل تھے۔ لیکن سب کو چھوڑ کر صرف شریف خاندان کو احتساب کے لئے چن لیا گیا۔ یہ وہ خاندان ہے جو مشرف دور میں کڑا احتساب بھگت چکا۔ آج اپنے دور حکومت میں بھی اسے احتساب کا سامناہے۔
احتساب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مگر صرف ایک خاندان کا احتساب انصاف کے تقاضوں کے قطعی منافی ہے۔ سب سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سارے قصے میں سیاسی رنگ غالب دکھا ئی دیتا ہے۔شریف خاندان کو جے آئی ٹی اراکین کی غیر جانبداری سے متعلق بہت سے تحفظات تھے(اور ہیں)۔ اس ضمن میں خاص طور پر واٹس ایپ کالوں اور حسین نواز کی فوٹو لیک کا حوالہ دیا جاتا رہا۔ان معاملات کی تحقیقات کی نوبت تو خیر کیا آتی۔ جے آئی ٹی نے البتہ سپریم کورٹ میں الزامات کی ایک لمبی فہرست جمع کروا دی کہ حکومت ،ریاستی اداروں کے ذریعے جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ اس ضمن میںایوان وزیر اعظم ،وزارت قانون، انٹیلی جنس بیورو، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان،نیب،اور ایف بی آر کو مورد الزام ٹہرایا گیا ۔ روزنامہ دی نیوز کے سینئر صحافی احمد نورانی جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ کا بھرپور تجزیہ تحریر کر چکے ہیں۔ یہ بات سامنے آئی ہے کہ رپورٹ کے ساتھ عائد کردہ الزامات سے متعلق سپورٹنگ دستاویزات منسلک نہیں ہیں۔ 120 صفحات کی رپورٹ میں 110 صفحات صحافتی مواد(media contents) پر مشتمل ہیں، جن میں ٹی وی پروگراموں میں ہونے والے تبصرے، اخباری کالم اور اداریے شامل ہیں۔ اس مواد کی بنیاد پر موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی اراکین کو دھمکانے، ہراساں کرنے اور انکے کام میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ عا صمہ جہانگیر، جسٹس(ر) شائق عثمانی، عرفان قادر، علی احمد کرد، عابد حسن منٹو، اکرم شیخ، رشید اے رضوی، اور کامران مرتضی جیسے نامور قانون دانوں کے بیانات، تبصرے اور پیشہ ورانہ آرابھی جے آئی ٹی کے اراکین کو ناگوار خاطر گزری ہیں اور انہیں کمیٹی کے کام میں رکاوٹ کے ثبوت کے طور پر رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔مزید مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مریم نواز شریف کے ٹویٹس( جن میں قرانی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے)بھی سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی پر تنقید سے تعبیر کرتے ہوئے رپورٹ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔
اس مفصل میڈیا مانیٹرنگ کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اسقدر باریک بینی سے میڈیا مانیٹرنگ کا کام بہت بڑے انتظامی ڈھانچے اور افرادی قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سطح کا میڈیا مانیٹرنگ سیل تو پیمرا جیسے بڑے ادارے رکھتے ہیں۔ جے آئی ٹی کے چھ اراکین نے اس قدر مشکل کام کیسے کیا؟ پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جے آئی ٹی اراکین کا کام تحقیقات کرنا ہے یا پھر میڈیا مانیٹرنگ بھی اسکی ذمہ داریوں میں شامل ہے ؟جے آئی ٹی نے یہ الزام بھی عائد کیاہے کہ ایک گواہ طارق شفیع کو کال کر کے ایوان وزیر اعظم بلوایا گیا اور انہیں جے آئی ٹی میںبیان سے متعلق ہدایات جاری کی گئیں۔ غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی قابل گرفت بات نہیں۔کسی بھی گواہ کاحق ہے کہ وہ جس سے چاہے مشاورت کرے اور ہدایات لے۔ البتہ یہ نکتہ ضرور زیر بحث ہے کہ کیا جے آئی ٹی اراکین واقعتا مخصوص افراد کے فون ٹیپ کرنے اور گواہوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے، جیسا کہ حکومتی اراکین کا موقف ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ بذات خود قابل گرفت امر ہے۔ ان واقعات نے جے آئی ٹی کی ساکھ اور اعتبار کو بری طر ح متاثر کیا ہے۔اسکی غیر جانبداری بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس سلسلے میں مگرجسٹس عظمت سعید کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں۔جج صاحب کا ایسا کہنا بجا ہے۔ اس حوالے سے فوری تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اگر جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے تو اسے دور کرنا چاہیے۔ تاہم اس معاملے سے متعلق دیگر الزامات بھی انتہائی سنجیدہ او ر تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ اچھا ہو کہ واٹس ایپ کالز، جے آئی ٹی میں مخصوص افراد کی شمولیت،جے آئی ٹی کی طرف سے میڈیا مانیٹرنگ، فون ٹیپنگ اور گواہان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے سے متعلق الزامات کی بھی فوری تحقیقات کی جائیں۔ امید ہے کہ معزز جج صاحبان ان معاملات سے متعلق اصل حقائق بھی جلد قوم کے سامنے لائیں گے۔

 

.

تازہ ترین