• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس ترقی کی دوڑ میں پاکستان بھی کسی سے کم نہیں۔ ہمارے نیتا ترقی کے معاملہ پر بہت ہی بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ترقی اور توانائی کا مقابلہ جمہوریت کے ساتھ ہے۔ اگر جمہوریت پر اعتبار کرنا اور اسے لاگو کرنا ہے تو ترقی کے معاملات کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ پاکستان ایک عرصہ سے بجلی کے بحران سے دوچار ہے۔ ہماری سابقہ حکومتوں نے بجلی کے بحران پر بظاہر توجہ تو بہت دی مگر عملی طور پر نتیجہ صفر ہی رہا۔ ایک طرف آبادی کا اضافہ بھی ملک کے لیے خطرناک ہے۔ پھر جمہوریت کا پودا جس زمین میں لگایا گیا ہے، وہ زرخیر کم اور بنجر زیادہ ہے۔ مگر دنیا بھر میں جمہوریت کے نظریہ کا ڈھول خوب بج رہا ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں بھی جمہوریت یقینی نہیں مگر اب لازمی ضرور ہے۔ بظاہر تو جمہوریت کے نظام میں کوئی خرابی اور خامی نظر نہیں آتی مگر جمہوری نظام کا جو معیار ہے وہ اصل میں ہمارے ہاں نہیں ہے۔ بھارت دنیا بھر میں ایک بہت ہی بڑا جمہوری ملک ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی جمہوری روایات کا علمبردار رہا ہے۔ اس کے ہمسایہ میں ایک اور عظیم ملک چین بھی ہے۔ چین میں اب تک جمہوریت رائج نہیں بلکہ ہمارے مہربان دوست ملک امریکہ کے مطابق وہاں پر عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے مگر ترقی میں وہ دنیا کی ایک اہم قوم کے طور پر اپنی پہچان بھی کروا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت میں جمہوری نظام نے وہاں کے عوام کی زندگی میں کوئی خوشگوار رنگ نہیں بھرا۔ جمہوری دعووں کے برعکس مذہبی آمریت کو سرکاری طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے مگر اس کے پاس جمہوریت کا ٹیگ ہے اس لیے سب کچھ نظر انداز ہو رہا ہے۔ پھر بھارت میں غربت کی بڑی وجہ بھی جمہوریت کی اقدار کی پالیسی ہے جس میں عدم برداشت سب سے اہم ہے۔ عدم برداشت کی وجہ سے بھارت کے اپنے کسی بھی ہمسایہ سے تعلقات برابری کی سطح پر نہیں ہیں۔
ہمارے ہاں ترقی کے معاملات جمہوری نظام حکومت کی وجہ سے نظر انداز ہوتے رہے ہیں۔ بجلی ہی کے معاملہ پر ملک میں یکسوئی نہیں ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ملکی ترقی کے لیے ایک عرصہ تک اہم رہا۔ اس کو ناکام بنانے میں سب سے اہم کردار جمہوریت کا ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے ملکی مفاد اور قربانی ہی کے جذبے کو ہمیشہ نظر انداز کرتے آئے ہیں اور کالاباغ ڈیم کے معاملہ پر بھی سابق ملٹری صدر جنرل مشرف کو سرنگوں ہونا پڑا۔ ایک طرف ملکی مفاد اور ترقی تھی اور دوسری طرف ملک میں رائج جمہوری نظام تھا جس کے حصے دار سیاسی طور پر کالاباغ ڈیم کے خلاف تھے۔ سو سیاست کامیاب رہی۔ جمہوری نظام میں لوگوں سے ووٹ لے کر من مانی کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جمہوری نظام پر اعتبار نہیں بلکہ جمہوری نظام کے لیے جو مفروضے ہیں وہ بھی قابل اعتبار نہیں۔ کسی مفروضے کی بنیاد پر نہ علاج ہو سکتا ہے اور نہ ہی اعتبار اور پھر جمہوریت ابھی تک سائنس بھی نہیں ہے کہ مطلوبہ نتائج کا مکمل اندازہ ہو سکے۔ ایک بات ضرور ہے کہ جمہوریت کے لیے عوام کا بالغ اور تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اور اس بنیادی نکتہ کے بعد فیصلہ کرنا آسان ہوگا کہ ہمارے عوام کتنے بالغ اور صاحب نظر ہیں اور ان کا تعلیمی معیار کیسا ہے۔
جمہوریت پر بحث کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ جمہوریت کے خلاف بات کی جا رہی ہے۔ جمہوریت اس صورت میں قابل عمل ہے جب آپ دوسروں کے لیے بھی اچھا سوچتے ہوں۔ ہمارا سیاسی نظام بہت بری طرح شکست و ریخت کا شکار ہے، ملک میں کوئی جمہوری روایت نظر نہیں آتی۔ اس وقت جو بھی ملکی نظام ہے، وہ عوام اور ملک کے لیے کوئی اچھا تاثر نہیں دے رہا۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کا ملکی اداروں پر اعتبار اور اعتماد نظر نہیں آتا۔ ان کے تمام فیصلے یکطرفہ اور اپنے مفاد کے تناظر میں چلے آرہے ہیں۔ اگر یہ جمہوری نظام ایسے معاملات میں عوام کو نظرانداز کرتا نظر آتا ہے تو پھر ترقی اور خوشحالی کا خواب فقط بند آنکھوں کا خیال ہی ہے۔ اس کی تعبیر تو اس جمہوری نظام میں ممکن نہیں۔
ملک میں قانون اور انصاف کے لیے جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی پریشان کن ہے۔ ملک کی سیاسی اشرافیہ اور قومی اسمبلی میں لوگوں کے نمائندے عوامی اور قومی معاملات پر جتنے سنجیدہ ہیں اس سے تو اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کو صرف اور صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ حالیہ بجٹ کے تناظر میں ہمارے خوش گفتار وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار کا فرمان جاری ہوا ’’ٹیکس کے حوالہ سے جو لوگ نان فائلر ہیں ان کی زندگی عذاب کردی جائے گی۔‘‘ یہ بات انہوں نے اسمبلی کے فلور پر کہی۔ کیا جمہور کی زندگی عذاب کرنا ایک جمہوری رویہ ہے۔ کیونکہ اقدار کے لیے جمہوریت ضروری ہے اس لیے جمہوریت کی اہمیت کو نظرانداز بھی نہیں کر سکتے مگر بنیادی سوال ہے کہ 20کروڑ میں کچھ ہزار ٹیکس فائل کرتے ہیں اور آپ ببانگ دہل اعلان فرما رہے ہیں کہ ملک کی اکثریت کی زندگی عذاب کردی جائے گی۔ ایک تو مہنگائی، گرمی اور سیاست کا عذاب جاری ہے اور کونسا عذاب نازل ہوگا۔ اور کیسے ہوگا اور عذاب دینا تو اللہ کا وصف ہے۔ آپ کس حیثیت میں یہ کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا جا رہا ہے اور اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی اور کیا لوگوں کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ پاکستان جو اس وقت حالت جنگ میں ہے اور معاشی طور پر بھی جنگی کیفیت میں ہے، ایسے میں لڑنے مرنے اور مارنے کی تقریریں کتنی ضروری ہیں۔
اس وقت پاکستان قومی انحطاط کا شکار ہے۔ ملکی نظام میں اداروں کی حیثیت مشکوک ہوچکی ہے۔ ہماری عدالتیں روزانہ کتنے معاملات میں اپنے فیصلے صادر کرتی ہیں مگر کارِ سرکار کے ہرکارے کسی ایک فیصلہ کا اطلاق کرتے نظر نہیں آتے اور آئے روز توہین عدالت کے مقدمے ہوتے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں ملک کی بڑی عدالت نے کئی اہم فیصلے کیے ا ور معاملات کو درست کرنے کے لیے حکومت وقت کو حیثیت دی مگر ہوا کیا۔ حکومت وقت نے کوشش تو کیا اس معاملہ پر توجہ ہی نہ دی تو ایسے کئی معاملات ہنوز توجہ طلب ہیں۔ ایسے معاملات ہی جمہوریت کے نظام کو کمزور کر رہے ہیں اور ادارو ں کی بجائے سب کام ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کے تناظر میں کرتی نظر آتی رہی ہے۔
ہمارے ہاں تبدیلی اور ترقی کو ہمیشہ انتخابات سے جوڑ دیا جاتا ہے اور اکثر ہماری سیاسی پارٹیوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ انتخابات کے بعد ملک اور عوام کی تقدیر بدل جائے گی۔ اب تک ملک میں جتنے بھی انتخابات ہو چکے ہیں اس کے بعد کتنی ترقی نظر آتی ہے۔ انتخابات ہی جمہوری نظام میں اہم تصور کیے جاتے ہیں مگر اب تک جتنے بھی انتخابات ہو چکے ہیں وہ زیادہ قابل اعتبار نہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ ہی ان کو ناقابل اعتبار بناتی رہی ہے۔ ملک اس وقت بری طرح تقسیم ہو چکا ہے۔ فاٹا کے معاملہ کو دیکھیں کہ عوام اور ادارے چاہتے ہیں کہ فاٹا کے لوگ ملکی سیاسی دھارے میں شامل ہوں مگر ہمارے جمہوری لیڈر اس کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں اس لیے وہ معاملہ مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے۔ بس یہ ہے کہ ہماری جمہوریت اور ہمارا نابیدار نظام حکومت۔
مگر فیصلہ کی گھڑی ابھی دور نظر آتی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ جب تبدیلی کی گھڑی تھی تو اس وقت کالی بلی ہمارا راستہ کاٹ گئی تھی۔ اردو کے مشہور شاعر افتخار نسیم کی ایک نظم ہے جس کا نام انگریزی میں ہے "HALOWEEN"
کالی بلی میرا راستہ کاٹ گئی
گورے شہر کی کالی بلی
سوچ رہی ہے
میں نے بھی تو اس کا رستہ کاٹا ہے
تو بس دعا کریں گورے شہر میں کالی بلی نہ ہو!

 

.

تازہ ترین