• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا دنیا میں ’’ اینگلو امریکن ‘‘ آرڈر ( ضابطہ ) ختم ہو رہا ہے ۔ بدلتی ہوئی دنیا میں یہ ایک بنیادی سوال ہے ۔ اینگلو امریکن آرڈر دراصل وہ عالمی ضابطہ اور نظام ہے ، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے دنیا پر نافذ یا رائج کیا تھا ۔ا نہوں نے جنگ عظیم کے بعد کی دنیا کی تشکیل کی تھی ۔ یہ دونوں قومیں انگریزی بولنے والی ہیں اور ’’ اینگلو سیکسن ‘‘ ( Anglo-Saxon ) نسل سے تعلق رکھتی ہیں ۔ 1945 کے بعد دنیا کا سیاسی ، سفارتی ، مرکنٹائل اور مالیاتی ڈھانچہ انگریزی بولنے والی ان قوموں کا تعمیر کردہ ہے لیکن اب انگریزوں اور اینگلو سیکسن امریکیوں کا یہ نظام وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہو رہا ہے کیونکہ خود امریکہ اور برطانیہ نے ایسا راستہ اختیار کر لیا ہے ، جس پر چل کر وہ اس نظام کو اس طرح برقرار نہیں رکھ سکتے ، جس طرح سات دہائیوں سے یہ نظام موجود تھا ۔ امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی اور برطانیہ میں حالیہ انتخابات کے نتائج سے یہ سوال زیادہ شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ جب یورپ پر نازی اور فسطائی آمروں کا راج تھا ، تب یورپ کے لوگوں کیلئے اینگلو امریکن اتحادی ہی آزادی ، جمہوریت اور بین الاقوامیت کیلئے واحد امید تھے ۔ اشتراکی ریاست سوویت یونین نے بھی ان اتحادیوں کا ساتھ دیا ۔ اس نئے عالمی ضابطہ کی بنیاد وہ ’’ اٹلانٹک چارٹر ‘ ( Atlantic Charter ) ہے ، جو 1941 ء میں امریکی صدر روز ویلٹ اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے تحریر کیا تھا ۔ اس میں جنگ سے تباہ حال یورپ کو تجارتی پابندیاں کم کرنے ، لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت ، سماجی بہبود اور عالمی تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں کے مابین امن قائم کرنے کا تصور دیا گیا ، جسے ’’ پیکس امریکانا ‘‘ ( Pax Americana) کا نام دیا گیا ۔ مغربی کرہ ارض میں قیام امن کے اس تصور میں امریکہ کو بالادستی حاصل تھی اور برطانیہ اس کے جونیئر پارٹنر کا کردار ادا کر رہا تھا ۔ اس تصور کے ساتھ شمالی بحراوقیانوس کا معاہدہ ’’ نیٹو ‘‘ ( Nato) ہوا ۔ عالمی مالیاتی ادارہ ( آئی ایم ایف ) اور عالمی بینک قائم ہوئے ۔ اس تصور میں اشتراکی نظام کے خلاف بیانیہ بھی موجود تھا کیونکہ اس میں مساوی مواقع اور نسل پرستی اور دیگر تعصبات سے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی ۔ یہ اینگلو امریکن آرڈر ایسے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد تھا ، جو لبرل ڈیموکریٹک تصورات سے پنپ سکتا تھا ۔
اینگلو امریکن آرڈر کا اصل ماخذ یہ سوچ تھی کہ امریکی اور برطانوی دنیا کی غیر معمولی قومیں ہیں اور ان کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔نہ تاریخ میں ان کا کوئی ثانی تھا اور نہ آئندہ کوئی ان کی برابری کرنیوالا ہو گا ۔ امریکیوں کو اسلئے فوقیت حاصل تھی کہ انکے مرد اور خواتین فوجیوں نے پوری اقوام کو آزادی دلائی اور انہوں نے اپنے ہاں ایک ایسا معاشرہ قائم کیا ، جہاں مساوات ، کثرتیت ، برداشت اور رواداری ہے ۔ برطانوی بھی اس لئے عظیم قوم تھے کہ انہوں نے جرمنی کے ہٹلر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ وہ عظیم روایات کی حامل اور بہادر لوگوں کی قوم تھی ۔ اینگلو امریکن آرڈر کو نافذ کرنے میں انگریزی نہ بولنے والی دیگر یورپی اقوام نے احسان مند ہونے اور ثقافتی احساس کمتری کی وجہ سے اہم کردار ادا کیا ۔ 1980 کے عشرے میں سوویت یونین کے ٹوٹنے اور اشتراکی بلاک کے غیر موثر ہونے کے بعد یہ اینگلو امریکن آرڈر اور زیادہ مضبوط ہو گیا ۔ اسے امریکہ نے ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ کا نام دیا ۔ سرد جنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا اور باقی غیر انگریزی یورپی اقوام کو بھی اشتراکی بلاک سے ’’ آزادی ‘‘ ملی ۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کو تاریخ انسانی کیلئے ہمیشہ کا نظام قرار دیا گیا ، جو بنیادی طور پر واحد سپر پاور امریکہ کا نظام تھا لیکن ’’ ہمیشہ کا نظام ‘‘ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں تیزی سے اپنی افادیت کھونے لگا اور شاید اسی وجہ سے امریکہ کو ’’ نائن الیون کی ضرورت پڑی ۔انگریزی نہ بولنے والی یورپی اقوام میں احساس تفاخر پیدا ہوا ۔ اینگلو امریکن سرمایہ دارانہ نظام مغربی معاشروں کے تضادات کو زیادہ دیر نہ دبا سکا ۔ ایشیا میں معاشی ترقی کا ایک نیا عہد شروع ہوا اور یورپی اقوام کو یہ محسوس ہوا کہ اب یہ صدی امریکہ کی نہیں بلکہ ایشیا کی ہے ۔ چین ، ایران ، بھارت ، مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ یورپی اقوام کے تجارتی اور معاشی تعلقات زیادہ مضبوط ہوئے اور انہوں نے کسی پر انحصار نہ کرنے کا نعرہ لگایا ۔ دوسری طرف امریکی معاشرے میں لبرل ازم کمزور پڑنے لگا ۔ غریب غریب تر ہو گیا ۔ غیر سفید فام برابری محسوس نہیں کرتے تھے ۔ بیروزگاری اور روزگار کے عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوا اور اس صورت حال کے پیش نظر سفید فام ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکیوں کا روزگار بچانے ، امریکی معاشرے کے تارکین وطن کو کھلا نہ رکھنے کا مقبول نعرہ لگایا اور کہا کہ سب سے پہلے امریکہ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ تنہا ہو گیا ۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی امریکیوں کی طرح اپنے معاشرے کو ’’ پیور ‘‘ ( خالص ) بنانے کیلئے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کی اور کہا کہ برطانیہ الگ رہ کر زیادہ خوش حال ہو سکتا ہے کیونکہ مشترکہ مارکیٹ اور لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت سے اسکا معاشرہ اور اس کی معیشت متاثر ہو رہی ہے ۔
اس طرح نہ صرف یورپی اقوام نے اینگلو امریکن آرڈر سے اپنا نظریاتی اور رومانوی تعلق ختم کیا بلکہ امریکہ اور برطانیہ خود اٹلانٹک چارٹر کے مقاصد سے لاتعلق ہو گئے ۔ دنیا میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے مقابلے میں کئی عالمی مالیاتی ادارے وجود میں آ گئے ہیں ۔ اینگلو امریکی سرمایہ دارانہ نظام پر انحصار ختم ہو رہا ہے ۔ انگریزی بولنے والی ’’ برتر اقوام ‘‘ کے نظام کو انگریزی نہ بولنے والی اقوام نے چیلنج کر دیا ہے ۔ اب نئی دنیا وجود میں آ رہی ہے۔

 

.

تازہ ترین