• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کے حوالے سے انور مسعود صاحب نے کیا شاندار قطعہ لکھا ہے۔ کہتے ہیں؎
نہ چھیڑو ذکر پاناما نہ چھیڑو
مری تشویش بڑھتی جارہی ہے
نہیں ہے گر کوئی سنگین گھپلا
تو کیوں تفتیش بڑھتی جارہی ہے
اس بار ےمیں آ ج کل اتنا زیادہ لکھا جارہا ہے کہ شاید پڑھنے والے قارئین بھی اب تنگ آگئے ہوں گے۔ میں اسی وجہ سے اپنی تشویش یہاںسے اٹھا کر کراچی لے جارہا ہوں۔ کراچی اور امن و امان کی صورتحال میں جو لکھنے جارہا ہوں اس کا تعلق کچھ حقیقت سے ہے اور کچھ افسانے سے۔ لیکن افسانہ بھی ایسے واقعات اور حالات سے تشکیل پاتا ہے کہ جس میں بہت کچھ حقیقت ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں ایک لطیفہ سن لیجئے۔ ایک بنک میں ڈاکو لوٹ مار میں مصروف تھے کہ باہر سے ان کا ساتھی پریشانی کے عالم میں اندر آیااور بولا ’’بھائیو! جو کار ہم نے فرار کے لئے باہر کھڑی کی تھی اسے کچھ لوگ اسلحہ کے زور پر چھین کر لے گئے ہیں۔‘‘
اور اب میرا آدھا سچ۔
ایک اوسط درجے کے خاندان کے گھرمیں گھرانے کے افراد ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ رات کا کھانا کھایا جاچکاہے۔ ماںاور بیٹی برتن سمیٹنےمیںمصروف ہیں جبکہ والد صاحب اور دو بیٹے ٹی وی دیکھتےہوئے آپس میں گفت و شنید میں مصروف ہیں۔ ماںبرتن کچن میں رکھنےکے ساتھ ساتھ بیٹی کو آنے والے دن کی تیاری کے حوالے سے کچھ ہدایات بھی دے رہی ہے۔ وہ اسےبرتن دھونے کے بعد اوپر کی منزل پر جا کر باپ کی قمیص استری کرنے کا کہتی ہے۔ بیٹی اسےیقین دلاتی ہے کہ سب کام حسب ِ منشا ہوگا۔
ماںٹی وی والے کمرے میںآ جاتی ہےاورباپ بیٹوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں شریک ہو جاتی ہے۔ سب خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ تھوڑی دیر میںبیٹی برتن دھو کر اوپر کی منزل کی طرف چل پڑتی ہے کہ کپڑے استری کرلے۔ یہ سب سکون سے اپنےاپنے کام میں مصروف ہیں کہ باہر دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے۔ بڑا بیٹااٹھ کر دروازہ کھولنے چلتاہے۔ وہ باہر کی طرف جاتاہے لیکن اچانک دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی کچھ دھکم پیل کی آوازیںآتی ہیں۔ یہ سن کر باپ اور دوسرا بیٹابھی دروازے کی طرف بھاگتے ہیں۔ وہ ابھی ذرا ہی آگے پہنچتے ہیں کہ بڑے بیٹے کے سر پر پستول تانے تین ڈاکو کمرے میں آجاتے ہیں۔ وہ جلدی سے ان سب کے ہاتھ پیر باندھتے ہیںاور گھر کی تلاشی میںمصروف ہو جاتےہیں۔ دہشت اور خوف سے سب گھر والوں کی آنکھیںپھٹی ہیں۔ یہ سب چل رہا ہے کہ اتنے میںاوپر کی منزل سے بیٹی کی آواز آتی ہے کہ کیا قمیص کے ساتھ پینٹ بھی استری کردوں۔یہ آواز سن کر ایک ڈاکو اوپر کی طرف بھاگتا ہے اور پھر لڑکی کی چیخوں کی آوازیں آتی ہیں۔ ایک ایک کرکےتینوں ڈاکو اوپر کی منزل پرجاتے ہیں اور لڑکی کو بے آبرو کرتے ہیں۔صدمے سے ماں بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ڈاکو جلدی جلدی سامان لوٹ کر بھاگ جاتے ہیں۔
بیہوش ماں کو بڑا لڑکا اسپتال لے جاتا ہے جبکہ باپ فون پررشتہ داروں کو بلواتاہے ساتھ ہی پولیس کو اطلاع کردی جاتی ہے۔رشتہ دار آپس میںبات کرکے باپ کو کہتے ہیں کہ پولیس کے آنے پر سامان کی ڈکیتی کا تو ذکر کیاجائے لیکن بیٹی کی بے حرمتی کاخاندان کی بے عزتی کے حوالےسے ذکر نہ کیاجائے۔ پولیس انسپکٹر آتا ہے تو ایف آئی آر درج کروا دی جاتی ہے۔ رشتہ داروںکے جانے کے بعد بیٹی نیچے آتی ہے اور باپ سے جھگڑا کرتی ہےکہ یہ آپ نے کیا کیا۔ روتے روتے دونوںکی ہچکی بندھ جاتی ہے۔اگلے روزباپ کے منع کرنے کے باوجودبیٹی اپنے چھوٹے بھائی کو لےکر پولیس انسپکٹر کے پاس آتی ہے اور اپنی بے حرمتی کی ایف آئی آر درج کرنے کاکہتی ہے۔
انسپکٹر اسے سمجھاتا ہے کہ دیکھو تمہارے باپ اور رشتہ داروں نے ٹھیک کیا جو اس کا ذکر نہیں کیا۔ تم ابھی چھوٹی ہو سو گھر جائو اور اس واقعہ کو بھول جائو۔ لڑکی کی ضد پر وہ اس سے درخواست لے کر رکھ لیتاہے۔
اس رات ڈاکو پھر آتے ہیںاور دوبارہ لڑکی کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ لڑکی صدمے سے بے ہوش ہو جاتی ہے۔ اس کے ہوش میں آنے پر باپ اسے کہتا ہے کہ بیٹی میں نے کچھ سوچ کر ہی ایف آئی آر میں یہ ذکر نہیں کیا تھا۔ ہم ان لوگوں سے نہیں لڑ سکتے۔ دونوں رو رو کر بے حال ہو جاتے ہیں۔
اگلے روز لڑکی اپنے بھائی کو لئے ڈی آئی جی کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے نظر آتی ہے۔
کیااس طرح کےواقعات ہوتے ہیں؟ کیا لڑکی کا یہ ردِعمل درست ہے؟ ایسے بہت سے سوالات ہمارے ذہن میںپیدا ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہ ایسے واقعات میں کیا پولیس پر بھروسہ کیاجاسکتاہے؟ کیا پولیس ڈاکو، بڑے سب ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں؟ میں آپ کو ان سوالات کے ساتھ چھوڑتا ہوں کیونکہ ان سب کے جواب تو میرے پاس بھی نہیں۔

 

.

تازہ ترین