• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھوڑی بینائی رکھنے والے کو بھی نظرآرہا ہے کہ پاکستان کی غالب اکثریت غربت کے اژدھے کے خوفناک جبڑوں میں بے بس پڑی کراہ رہی ہے۔ لیکن مختلف مناصب پر فائز اختیار مند دیگر مشغلوں میں ایسے منہمک ہیں کہ انہیں یہ نظرہی نہیں آرہا ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں لاچار ہوچکا ہے ۔صد حیف! 18کروڑ کی آبادی میں سے 5کروڑ ستاسی لاکھ افراد غربت کی سطح کے نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن اختیار مندوں کو اپنے دھندوں سے فرصت ہی نہیں ہے کہ اختیار کا کچھ حصہ ان مسکینوں پر ایسے صدقہ کردیں کہ یہ کم از کم دو وقت کی روٹی کے لئےاپنے جگر گوشوں سےتو غافل نہ ہوجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سڑکوں، میدانوںو بیابانوں میں آپ اپنی روزی کی تلاش کیلئے لاکھوں بچے سرگرداں ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان چائلڈ لیبر کی عالمی درجہ بندی میں 7ویں نمبر ہے۔ پوری دنیا میں اس حوالے سے ہم صرف ایریٹریا، صومالیہ، کانگو، میانمار، سوڈان اور افغانستان سے بہتر ہیں ۔ وہ یوں کہ یہ ممالک اول سے چھٹی پوزیشن پر فائز ہیں اور ہمارا درجہ ماشااللہ ساتواں ہے!
ستم بالا ستم یہ کہ جہاں ہر تیسرا پاکستانی غربت کے خونخوار پنجوں میں آچکا ہے، وہاں ہر تیسرا پاکستانی بچہ چائلڈ لیبر کا شکار بنا مملکت خداداد پاکستان کے اختیار مندوں کے اختیار کا تماشا بنا ہوا ہے۔
بھوک چہروں پر لئے چاند سےپیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
مال و دولت پر سانپ بنے بیٹھے غاصبوں کے ضمیر کی آنکھ میںروشنی کی رمق بھی ہوتی ، تو  پیٹ کھولے اُن کی زبان یوں دراز نہ ہوتی کہ لائو اور لائو اور لائو....سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو ٹوک اعلان ہے کہ ایسے ہوس پرستوں کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی ہی سے بھرے گا.....نہ جانے اس اسلامی جمہوریہ میں مولوی ، سیاستدان، دانشور اور صحافیوں کا موضوع غربت کیوں نہیں بن پاتا؟ کیوں ان اصحاب الرائے نے دوسری اکثریت یعنی متوسط طبقے کو ایسے نان ایشوز میں الجھا رکھا ہے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ اژدھے انہیں بھی نگل لینے کیلئے تیار ہیں۔ یہی اس ملک کا سب سے بڑامخمصہ ہے کہ یہاں کوشش ہی بس یہی روا ہے کہ کسی طرح عام آدمی، جو تبدیلی کا اصل عامل ہے کو اپنے آپ سے بیگانہ کردیا جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی 60فیصد آبادی یومیہ صرف دو سو روپے ہی کما پاتی ہے۔ اب دو سو روپے کمانے والے اپنے بچوں پر کس طرح توجہ دے سکیں گے ،یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر تیسرا بچہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے وقت سے پہلے جوان بلکہ بوڑھا ہوچکا ہے، حالانکہ یہی تو وہ عمر ہے جو عمر کے ہر حصے میں یاد آتی ہے اور بار بارہنساتی اور رُلاتی ہے۔
اُڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
آہ! بچوں کو بچپن سے محروم کرنے والے پاکستان کے وسائل پر قابض ان چند ہزار غاصبوں کے احتساب کا نمبر نہ جانے کب آئے گا؟ایک احتساب تو مملکت خداداد میں کب کا شروع ہوچکا ہے لیکن کیا کسی ایک بھی ہوش مند پاکستانی کو یہ یقین ہے کہ اس احتساب کے ذریعے غاصبو ں سے وہ سب کچھ واپس لیا جائے گاجو ملک کے 18تا20کروڑ عوام کا حق ہے اور جسے یہ استحصالی عناصر ہڑپ کرچکے ہیں ۔کوئی ایک ذی شعور بھی نہیں کہہ سکتا کہ ایسے کسی احتساب سے قومی خزانے میں ایک آنہ بھی جمع ہوسکے گا۔ آپ ملاحظہ فرمائیںحکومت اورلے پالک اپوزیشن میں کیا تماشا بپا ہے۔جیسا کہ کہا گیا کہ یہی اس قوم کا اصل مسئلہ ہے کہ اِسے تماشوں میں لگاکر اصل ہدف سے مزید دور کردیا جاتا ہے۔اور یہی اختیارمندوں کا اصل ہدف ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی جے آئی ٹی میں پیشی پرمقابل ہر دو رنگ رنگ لشکارے لائے ، لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ کل کو اگر بالفرض میاں صاحب اقتدار سے محروم بھی کردئیے جاتے ہیں تو اس کا عوام کی صحت پر کتنا اثر پڑیگا، نیز قومی خزانےمیں کتنا مال مسروقہ آجمع ہوپائیگا! اور غربت میں کتنی کمی آجائیگی؟ کیا یوسف رضاگیلانی کی سبکدوشی پر ایسا کچھ قوم کے ہاتھ آیا تھا؟دھمال پر رقصاں سب جانتے ہیں کہ ایسا کوئی معجزہ رونما ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر پھر بھی اگر مست ہیں تو اس خاطر کہ اس سےان کا کھیل جو آسان ہوجائیگا۔ کاش ! کوئی ایسے تمام خائنوں کا احتساب کرسکے جنھوں نے ملک کو دولخت کیا اور یا جو پاکستان میں غربت اور چائلڈ لیبر کے ذمہ دارہیں۔ لیکن ایسا احتساب آخر کرے گا کون؟پشتو کا ایک مقبول ٹپہ ہے کہ جب چھوٹا بھی چور ہو اور بڑا بھی چور ہو، یعنی جس دیس میں ہر صاحبِ اختیار چور ہو ،تو پھر چور کا احتساب کون کرے گا؟.... مقام عبرت ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر وجود میں آنے والےاس ملک سے بچوں کو جبری مشقت اور جنسی سرگرمیوں کیلئے اسمگل کیا جاتا ہے۔ورلڈ ٹریفکنگ رپورٹ 2016میں پاکستان کو بچوں کی جبری مشقت اور جنسی سرگرمیوں کیلئے اسمگل کرنے کے حوالے سے اہم ملک قرار دیا گیا ہے۔ جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل کے مطابق عالمی چائلڈ لیبر میں 31فیصد کمی واقع ہوئی ہے لیکن پاکستان میں چائلڈ لیبر میں اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں غربت اور نامناسب معاشی حالات کے باعث بچوں کو چائلڈ لیبر کا حصہ بننا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسکول جانے سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس کا اندازہ یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016ءکے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے کل 26کروڑ 30لاکھ اسکول جانے سے محروم بچوں کا 9فیصد یعنی 2کروڑ 40لاکھ کا تعلق پاکستان سے ہے اور ایسے اسکول جانے سے محروم بچوں کی اکثریت چائلڈ لیبر کا حصہ ہے۔ حب الوطنی کی دستار پہنے اصحاب کیا بتانا پسندفرمائیں گے کہ کیا یہ معصوم بچے پاکستانی نہیں ہیں؟ملک میں چائلڈ لیبر کا 76فیصد حصہ زراعت سے وابستہ ہے ۔ یہ بچے جاگیر داروںکیلئے بطور چارہ استعمال ہورہےہیں۔ مقام افسوس ہے کہ چند مراعات یافتہ خاندانوں نے پاکستان کو اپنی مٹھی میں ایسا بند کرلیا ہے کہ غریب کے ساتھ ان کے بچے بھی ان کی غلامی اختیار کئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔یہ درست ہے کہ یہ ملک بے شمار قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا ہے۔ اس کی بنیادوں میں فرنگی سامراج سے لڑنے والے ہزاروں شہدا کا خون شامل ہے۔ یہ ملک راتوں رات اقوام عالم کے نقشہ پر مشہود نہیں ہوا ، نہ ہی گھر لیٹے لیٹے فرنگی جیسی طاقت سے آزادی کا تصور بھی کیا جاسکتا تھا۔ حریت پسندوں نے جبرو زندانوں کی تکلیفوں کو برداشت کیا تب جاکر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ لیکن جیسا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں چنانچہ ایسے ہی کھوٹے سکوں نے وطن عزیز کی غالب اکثریت کی قسمت بھی کھوٹی کردی ہے۔ ہم لاکھ بناوٹی ناز و نخرے دکھائیں لیکن برسر زمین حقائق وہی ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ لاریب! مقام شکر ہے کہ ہم نے آزادی جیسی عظیم نعمت پالی ہے لیکن کیا یہ مقامِ افسوس نہیں کہ آزادی کے ثمرات سے صرف وہ مستفید ہورہے ہیں تحریک آزادی میں جن کے آبائو اجداد کا ناخن تک بھی کام نہ آیا تھا۔ خالص پر ملاوٹ کے غلبے کے اثر ہی کے باعث تو آج کہنا پڑتا ہے۔
نمود صبح سے شب کی وہ تیرگی تو گئی
یہ اور بات کہ سورج میں روشنی کم ہے

 

.

تازہ ترین