• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند سال قبل موسم سرما میں ہم میاں بیوی امریکہ کے شہر نیویارک میں ساڑھے تین بجے دوپہر جے ایف کے ائیرپورٹ اُترے تو اچانک ہم نے دیکھا کہ برف باری شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ائیر پورٹ اور باہر کی سڑکیں برف سے ڈھک گئیں ۔امیگریشن کائونٹر سے باہر آتے آتے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ہماری دوسری فلائٹ شام 6بجے تھی ہمیں دوسرے ٹرمینل پر جانا تھا ۔جس پر جانے کے لئے مونو ریل تھی جس کے ذریعے تمام مسافر ائیرپورٹ کے تمام ٹرمینلز پر آجاسکتے ہیں۔ ہم دوسری ائیر لائن کے ٹرمینل پر پہنچے ،چونکہ تمام ٹرمینلز آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں تو وقت کا پتہ نہیں لگتا، دوسری تمام فلائٹس کینسل ہوچکی تھیں ۔ہمیںکہا گیا ہماری اگلی فلائٹ جو 6بجے جانا تھی موسم کی خرابی کی وجہ سے اب کل صبح 11بجے جائے گی۔لہذا کل آپ صبح ائیر پورٹ 2گھنٹے پہلے آجائیں ۔ہم باہر آئے تو تمام سڑکیں برف سے اٹی پڑی تھیں ۔ ہم نے ائیرپورٹ پر لگے ہوٹلوں کے ٹیلی فون گھمانا شروع کردیئے ۔ایک رات رُکنے کیلئے کمرہ درکار تھا ۔اندرونی ٹیلی فون تما م ائیر پورٹس کے ہوٹلوں نے مسافروں کی آسانی کیلئے لگائے ہوئے ہیں اور بیشتر مسافر باہر جانے سے پہلے انہی کے ذریعے اپنی رہائش بُک کرواکر ٹیکسی کے لئے باہر نکلتے ہیں ۔عام طورپر ائیر پورٹس پر سستے ہوٹل ہوتے ہیں ۔ہمیں بمشکل 3اسٹار ہوٹل جووہاں سے آدھے کلومیٹر پر واقع تھا ،میںدُگنے کرایہ پر کمرہ ملا،ہم نے اس کو غنیمت جانا اور باہر آگئے ۔اب مسئلہ ہوٹل تک پہنچنا تھا مگر باہر تمام ٹیکسیاں غائب تھیں ۔اللہ اللہ کرکے ایک ٹیکسی آئی ہم نے وہ سامنے واقع ہوٹل کا نام لے کر کرایہ پوچھا تو اس نے کہا 50ڈالر، ہم نے کہا 50ڈالر تو شہر جانے کے ہوتے ہیں تو اس نے کہا کہ شہر جانے کے تمام راستے بند ہیں ہم نے اس کوغنیمت جانا اور ٹیکسی میں بیٹھ گئے ۔ 2منٹ بعد اس نے مطلوبہ ہوٹل پر اتاردیا ۔ہوٹل میں پہنچ کر دیکھا کہ ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔مگر چونکہ ہم نے ائیرپورٹ سےہی کمرہ بُک کروالیا تھا تو ہمیں استقبالیہ والوں نے کمرے کی چابی دیتے ہوئے بتایا چونکہ ہماری فلائٹ صبح ہے لہذا آپ وقت مقررہ پر ناشتہ کرکے 9بجے باہر آجائیں تاکہ آپ کو سامنے ائیر پورٹ پر پہنچایا جاسکے ۔ہم سوچ رہے تھے کہ پورا شہر نیویارک برف سے بھر چکاہے بھلا کل کیسے فلائٹ جائے گی ۔ہم نے تسلی کیلئے کائونٹر والوں سے پوچھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ کل صبح 11بجے فلائٹ چلی جائے تو انہوں نے بتایا کہ کل صبح 8:30سورج طلوع ہوگا ،بلدیہ برف صاف کریگی، برف پر نمک چھڑکے گی، ٹریکٹر برف کو سائیڈ لائن کریںگے اور ٹریفک رواں ہوجائے گا ۔ ائیرپورٹ کے رن وے صاف کیے جائینگے اور جہاز اترنا شروع ہوجائیں گے ۔ ہمارا محکمہ موسمیات لمحہ لمحہ کی خبریں دیتا ہے اور وہ کم وبیش بالکل صحیح ہوتی ہیں ۔یہ تمام موسمی خبریں نہ صرف ہوائی اڈوں پر بھیجی جاتی ہیں ۔بلکہ تمام ٹی وی چینلز پر عوام کو خبردار کرنے کیلئے 24گھنٹے نشرہوتی ہیں ۔تاکہ عوام اپنی آسانی کیلئے اس سے فائدہ اُٹھائیں اور صبح وشام موسم کے اعتبار سے اپنے پروگرام ترتیب دیں ۔ہمیںاتنا بھروسہ موسم پر تو نہ تھا مگر چونکہ دوسری فلائٹ اب صبح جانے کی پیشگی اطلاع تھی ہم اس کی مناسبت سے اُٹھے،ناشتہ کیا اور 2گھنٹے پہلے ائیرپورٹ پر پہنچے تو واقعی ہمارا جہاز تیار کھڑا تھا۔ٹھیک 11بجے ہماری فلائٹ منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئی۔
تفصیل اس لئے میں نے قارئین کے لئے لکھی کہ آج سائنس نے دنیا بھر میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ تمام مواصلات خواہ وہ موبائل ہوں،انٹرنیٹ ہو ں،موسم کے حالات ہوں،سیکنڈدر سیکنڈ پہلے حاصل کیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ آپ کے پاس وہ جدید آلات ہوں جس سے آپ معلوم کرسکیں ،کہ کب چاند طلوع ہوگا ،کب غروب ہوگا ،کب بارشوں کا امکان ہوگا،اور بارش کی تو غیر ممالک میں پیشن گوئیاں درست ہی ثابت ہوتی ہیں،مگر پاکستان میں معذرت کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہر سال عید اور بقر عید پر چاند دیکھنے کیلئے 30چالیس علمائے کرام کو چھت پر بٹھاکر دوربینوں سے یا شہادتوں سے چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کروایا جاتا ہے ۔اور مزے کی بات کہ صوبہ سرحد جو اب خیبر پختوخواہے وہ تقریباً ہر سال اپنے حساب سے ایک دن پہلے ہی عید اور بقر عید کرتاہے اور وہ ان علمائے کرام کے فیصلے بھی نہیں مانتا ،اس سال بھی خیبرپختوخوا میں ایک دن روزہ پہلے رکھا گیا ہے ۔50سال پہلے چاند دیکھنے کا طریقہ اورآج کے طریقے میں سائنس حائل ہوچکی ہے اب سائنسی آلات بتادیتے ہیں ۔اس محکمہ مذہبی امور کے تحت ہر ماہ اتنے علماء کی تعداد کو جمع کرنا ،پھر ہرسال کروڑوں روپے خرچ کرکے صرف چاند کی شہادتیں حاصل کرنا جبکہ تمام صوبوں کا ان پر مکمل اعتماد نہ ہونا ،آپس میں فرقوں کی مزید تقسیم کا باعث ہوتا ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹ چکے ہیں ۔جس میں جھوٹ ،سود ،قتل ایک دوسرے کا مال کھانا منع ہے اور انصاف ،مساوات،نماز،روزہ،زکوۃ سب سے زیادہ ضروری ہے ۔یہ خوبیاںآج مسلمان معاشرے سے دور ہوکر غیر مسلموں میں جاچکی ہیں وہ ہماری اچھائیاں اپنا چکے ہیں اور ہم ان اختلافی چیزوں پر الجھے ہوئے ہیں ۔ہماری خوشی کے تہوار بھی تقسیم ہوچکے ہیں ۔میری رائے میںاس تفریق کو ختم کرنے کیلئے چاند کی شہادتیں سائنس کے حوالے کرکے سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کا نظام بنا دیا جائے تو اس سے مسلم علماء بھی ایک ہوسکیں گے۔آخر ہم انٹر نیٹ ،موبائل فون ،سیٹلائٹ جیسی سائنسی ایجادات سے فائدہ اُٹھارہے ہیں تو پھر چاند کا مسئلہ کیوں اس نظام سے حل نہیں کرسکتے ؟

 

.

تازہ ترین