• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل خوشبو و حب وطن سے معمور ہو تو مشیت ایزدی کیا کیا معجزے برپا کرتی یہ سطریں اسی جذبہ خودی کی نذر ہیں۔
یہ دلچسپ کہانی ایک پاکستانی نوجوان عمر سیف کے ارد گرد گھومتی ہے جو بڑی خاموشی سے پنجاب بھر کے سرکاری سسٹم کو ای ٹیکنالوجی کے ذریعے آپس میں جوڑنے کے مقصد عظیم میں جتا ہواہے ۔
ٹھہرئیے …ذرااسکے ماضی پر ایک نظر دوڑا لیں۔ برج قوس کے تحت پیدا ہونے والا یہ نوجوان دل میں کمپیوٹر وزرڈ بننے کی خواہش کا ٹھاٹھیں مار تا سمندر لئے برطانیہ پہنچتا ہے تو وہ خدا کی مدد سے محض 22 سال کی عمر میں ٹرینٹی کالج کیمبرج سے کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹریٹ مکمل کر لیتا ہے۔علم کی پیاس اس نوجوان ڈاکٹر کو یہاں بھی بیٹھنے نہیں دیتی اورجستجو کے جذبہ سے سرشار ہوکر وہ دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکہ میں داخلہ کا خواہشمند ہوتا ہے جہاں کسی پاکستانی اسٹوڈنٹ کیلئے داخل ہونا ایک خواب ہی ہے۔لیکن خدا نے راستے آساں بنا نے تھے سو بنا ڈالے ۔وہ بعدازاںامریکہ منتقل ہو جاتا ہے اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچر کے طور پرداخلہ کا حقدار قرار پاتا ہے ۔قدرت یہاں بھی اسےاس ٹیم کا حصہ بنا ڈالتی ہے جو مشینوں میں مصنوعی ذہانت پیدا کرنےسے متعلق ایک انوکھے پروجیکٹ آکسیجن پر کام کررہی تھی اوراس ٹیم نے کامیابی سے 50 ملین ڈالرمالیتی پروجیکٹ آکسیجن مکمل کرڈالا ۔اس شاندار منصوبے کی تکمیل کے بعد بہت سی کمپنیوں نے اس نوجوان ڈاکٹر کو امریکہ ،برطانیہ اورفرانس میں پرکشش مشاہرے پر کام کرنے کی پیشکش کی ۔ دل میں زیادہ کمانےکا لالچ بھی ابھرا لیکن اس چار سالہ منصوبہ کی عملی تربیت نے اس کے ذہن و قلب میں خدمت وطن کی قندیل روشن کردی تھی اوراس نے دھرتی ماںکاقرض لوٹانے کا فیصلہ کر لیا ۔اسی جذبہ کے تحت اس نےپاکستان آکرلمز یونیورسٹی میںکمپیوٹر سائنس کی تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ستاروں پر کمند ڈالنے کے جذبے،استقامت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئےیونیورسٹی انتظامیہ نے انھیں سیف سینٹر آف انوویشن بنانے کی اجازت دے دی جہاں غیر معمولی آئیڈیاز کو حقیقت بنانے کی بنیاد رکھی گئی ۔چھ سال تک اس نوجوان پروفیسر نے وطن کے نوجوان اذہان کی علمی پیاس کو بجھانے کیلئے مہمیز کا کام سر انجام دیا ۔2010 میںمیسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تبصرہ شائع ہو تا ہے اور ورلڈ اکنامک فورم میں اس کو 35ینگ گلوبل لیڈرز میں شامل کر لیا جاتا ہے جس کے بعد 2011 میں ڈاکٹر سیف گوگل فیکلٹی ریسرچ ایوارڈ کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔یہیں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔2011 میں اس وقت کے چیئرمین پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ایک سال کی چھٹی کیلئے درخواست دیتے ہیں جووزیر اعلیٰ کے پاس برائے منظوری پہنچتی ہے عین ا سی لمحے جیو ٹی وی پر اس پاکستانی کمپیوٹر وزرڈ نوجوان پروفیسر کو گوگل فیکلٹی ریسرچ ایوارڈ دئیے جانے کی خبر نشر ہوتی ہے تووزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس خبر پر چونک اٹھتے ہیںاور ملاقات کیلئے اسے ماڈل ٹائون دعوت دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب اسے پرینک کال سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں تاہم بعد ازاں وزیر اعلیٰ دفتر کا عملہ جب انھیں باقاعدہ دعوت دیتا ہے تو انھیں معاملہ پر بغور سوچنا پڑتا ہے۔بہر حال ون ٹو ون ملاقات میںمشن پاکستان کی تکمیل کیلئے طرفین کے مابین حب وطن کے جذباتی مکالوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب کا چہرہ بدلنے کا موضوع تفصیل سے زیر بحث آتا ہے۔ جلد ہی طرفین یہ جان لیتے ہیں کہ مشن پاکستان کی تکمیل کیلئے دونوں کے عزائم میں بدرجہ اتم موجود آشنائی ایک پائیدار شکل اختیار کر سکتی ہے ۔بالآخر ایک سال کیلئے ڈاکٹرصاحب کی خدمات لینے کا فیصلہ طے پاجاتا ہے۔پی آئی ٹی بی اور ریسرچ بیسڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا قیام دونوں اپنی جگہ پر عظیم کام تھے لیکن اس خواب کی تکمیل کے پس منظر میں وزیر اعلیٰ کا جذبہ اس سے بھی زیادہ بڑا تھا۔ اس وقت ارفع کریم ٹیکنالوجی پارک منصوبہ 2008 سے دہشت گردی اور بم دھماکوں کی وجہ سے معطل تھا۔ڈاکٹر صاحب نے چینی کنٹریکٹر ز کو دوبارہ کام کرنے پر آمادہ کیا اور صرف ایک سال میں ہی تمام سول ورک مکمل کر والئے جس کے بعد 2012 میں افتتاح کے وقت وزیر اعلیٰ نے وہاںریسرچ بیسڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کاا علان کیا۔ پہلے بیچ میں دو ڈسپلنز کمپیوٹر سائنسز اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے 75،75طلبا و طالبات کو داخلہ دیا گیا جنھیں پڑھانے کیلئے بیرون ملک سے ڈاکٹریٹ مکمل کرنیوالے 13 پاکستانی اساتذہ فیکلٹی میں شامل کئے گئے۔ جیسے ہی ڈاکٹر صاحب نے پی آئی ٹی بی کے چیئرمین کی حیثیت سےعہدہ سنبھالاتو ڈینگی کے عفریت نے سر اٹھالیا۔ اس وقت وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اس عفریت کا سر کچلا جائےلیکن معلومات بکھری ہوئی اور نامکمل تھیں۔ انکی واضح ہدایات،اور دن رات نگرانی کے بعد پی آئی ٹی بی نے مانیٹرنگ سینٹر اور اپلی کیشن وضع کرڈالےجس سے ہر علاقے میں وائرس کی شدت اور علاج کی صورتحال فنگر ٹپس پر دستیاب ہونا ممکن ہوگئی اور خدا کے فضل سے ڈینگی کا خاتمہ ممکن ہوگیا۔
صوبائی تھانوں میںموثر چین آف کمانڈ کے فقدان کی عدم موجودگی پرویز الٰہی دور میں شروع کیا گیا پرامس نامی پولیس اصلاحی پروگرام ناکام ہوچکا تھا اسی وجہ سے2012ءمیں وزیر اعلیٰ پنجاب وژن کے تحت پولیس جامع اصلاحات متعارف کراتے ہوئے 100ماڈل تھانے بنائے گئے اور86 تھانوںکو کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا۔ آن لائن ایف آئی آر درج کرنے،فرنٹ ڈیسک بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔افسران و اہلکاروںکو لویکشن ٹریک کرنے والے فون دئیے گئے جس کے بعدجعلی رپورٹیں اورجعلی ٹی اے ڈی کلیم کرنے والوں کا خاتمہ ہوگیا۔ آج پنجاب پولیس حکام کو موبائیل ڈیوائسز دی جا چکی ہیں جنکے ذریعے مجرموں کی کریمنل ہسٹری معلوم کرنا شفاف اورآسان ترین ہو گیا ہے۔ 2013 ءمیں جب ناصر درانی خیبر پختونخوامیں آئی جی مقرر ہوئے تو انھوں نے کےپی میںآن لائن ایف آئی آر،فرنٹ ڈیسک آفس سمیت دیگر پولیس اصلاحات پنجاب ماڈل کے تحت کیں۔ انھیں سافٹ وئیر و دیگر سہولتیں پی آئی ٹی بی نے ہی بلامعاضہ مہیا کی تھیں۔وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف وژن کے تحت پی آئی ٹی بی500 اسٹارپ اپ پروگرام مکمل کر چکا ہے اور اسکی 300 کامیاب کہانیوں کی خوشبو ہر طرف پھیل رہی ہیں۔آج کا سب سے اہم اور عظیم منصوبہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت لاہور میں 13 سو کیمرے لگائے اور مانیٹرنگ سینٹرزبنائے جارہے ہیں مال روڈ دھماکہ کے مجرموں کی نشاندہی بھی اسی سسٹم کے تحت ہو ئی ۔ایک اور عظیم ای منصوبہ پائپ لائن میں ہے کہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ میںایسا سسٹم تشکیل دیا جائے جو یہ بتا سکے کہ پنجاب بھر میں کس منصوبے کیلئے کس رکن اسمبلی کوکتنے فنڈز دئیے گئےہیں۔ میگا پروجیکٹس کی تعداد کتنی ہے،کتنے مکمل ہوئے ، کتنے زیر تکمیل ہیں ،کون سے نظر انداز ہوئے،کتنےفنڈز خرچ ہوئے،کتنے بچ گئے، مکمل تفصیلات معہ ٹائم لائن فنگر ٹپس پر دستیاب ہوجائیں گی ۔پنجاب بھر میں زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈکرنا،جعلی اسٹمپ پیپر کا خاتمہ،بورڈ آف ریونیو ،ہوٹلوں سے ایکسائز ٹیکس کو جمع کرنے ،حج کو شفاف بنانے کیلئےحاجیوں کیلئے اپلی کیشن،اسکولوںمیں اساتذہ کی بائیو میٹرک حاضری میٹرو بس سافٹ وئیر ،اورنج ٹرین سافٹ وئیر،ای روزگار،سمیت کئی سو ای منصوبے زیر تکمیل ہیں جن پرایک سو زائد ڈویلپرز دن رات کام کررہے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں آج 8 مختلف ڈسپلنز میں تعلیم حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس کی تعداد 720تک جاپہنچی ہے اور انھیں48پی ایچ ڈی اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔اس طرح اسٹوڈنٹس کی تعداد میں 380فیصد اضافہ اور اساتذہ کی تعداد میں269فیصد اضافہ ہوا ہے۔یہاں سے 8 بیچ گریجویٹ ہوچکے ہیں اور1ہزار سے زائد گریجویٹ مارکیٹ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
یہ الف لیلوی کہانی ہرگزنہیں بلکہ وہ حقیقی ای انقلاب ہے جو ٹیم پی آئی ٹی بی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے وژن کے تحت برپا کرنے میںشبانہ روز مصروف ہے۔خدا کی رحمت وطن عزیز پر ہو۔آمین

 

.

تازہ ترین