• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2016 بیرونی قرضے لینے کا ایک ریکارڈ سال تھا جب پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرضے 72.98 ارب ڈالر (7.4 کھرب روپے) تک پہنچ گئے۔ اس سال حکومت نے گزشتہ مالی سال سے 7.9ارب ڈالر اضافی قرضے لئے جبکہ مقامی بینکوں سے 3.1کھرب (30ارب ڈالر)کے قرضے بھی لئے گئے۔ پاکستان کے بیرونی اور مقامی قرضوں کا مجموعہ کیا جائے تو اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے گزشتہ 3 سالوں کے دوران 55 ارب ڈالر کے قرضے لئے جن میں چین سے لئے گئے قرضے شامل نہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق قرضوں میں تیزی سے اضافے کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ رواں سال 2017ء میں ہمارے بیرونی قرضے بڑھ کر 75.54 ارب ڈالر (7.9 کھرب روپے) تک پہنچ جائیں گے حالانکہ ہمیں آئندہ 18ماہ میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو 11.5ارب ڈالر کے قرضے واپس بھی کرنا ہیں۔ ماہرین کے بقول پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لینے کی حکومتی حکمت عملی کے پیش نظر آئندہ مالی سال تک پاکستان کے بیرونی قرضے 79.35 ارب ڈالر (8.3کھرب روپے) اور 2020ء تک 87.1ارب ڈالر (9.12کھرب روپے) کی خطرناک حد تک پہنچ سکتے ہیں۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1951ء سے 1955ء تک پاکستان کے بیرونی قرضے صرف 121ملین ڈالر تھے تاہم 1969ء میں یہ قرضے بڑھ کر 2.7ارب ڈالر اور 1971ء میں 3ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ 1977ء میں پاکستان پر واجب الادا قرضے بڑھ کر دگنا یعنی 6.3 ارب ڈالر ہوگئے جس کے بعد بیرونی قرضے لینے کی روایت بن گئی اور 1990ء میں یہ قرضے بڑھ کر 21.9 ارب ڈالر جبکہ 2000ء میں 35.6ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے بیرونی قرضے 2016ء تک 72.98 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی کے ایک سوال پر وزارت خزانہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ 30 ستمبر 2016ء تک پاکستان کے پبلک ڈیٹ 18.27 کھرب روپے تھے جبکہ مالی سال 2012-13ء میں یہ 13.48 کھرب روپے تھے، گزشتہ 3سالوں میں بینکوں سے لئے گئے مقامی قرضوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا جو 2013ء کے 8.68 کھرب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 2016-17ء میں 12.14کھرب روپے تک پہنچ گئے جبکہ اس دوران بیرونی قرضوں میں بھی 28فیصد اضافہ ہوا۔ وزارت خزانہ کے بقول یہ قرضے زرمبادلہ کے ذخائر، روپے کی قدر مستحکم رکھنے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے حاصل کئے گئے جبکہ اس دوران حکومت نے 12ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی کی۔
قارئین! زرمبادلہ کے ذخائر 4 ذرائع سے بنتے ہیں۔ پہلے نمبر پر ایکسپورٹ جو بدقسمتی سے ہماری گزشتہ کئی سالوں سے کم ہورہی ہے۔ ملکی مجموعی ایکسپورٹ 25ارب ڈالر سے کم ہوکر صرف 20 ارب ڈالر تک رہ گئی ہے جس میں ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ جو ملکی ایکسپورٹ کا 55 فیصد ہوتی تھی، 13 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 سے 11 ارب ڈالر رہ گئی ہے جبکہ امپورٹس میں اضافے سے 46ارب ڈالر پہنچ چکی ہیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ (امپورٹ ایکسپورٹ کا فرق) 26 ارب ڈالر سے زیادہ متوقع ہے۔ دوسرے نمبر پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ہوتی ہیںجو مشرق وسطیٰ میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور یورپ میں مندی کے باعث کم ہوئی ہیں اور 20 ارب ڈالر کے مقابلے میں 18ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں تیسرے نمبر پر بیرونی سرمایہ کاری ہوتی ہے لیکن ملک میں امن و امان کی صورتحال اور توانائی کے بحران کی وجہ سے اس سال بیرونی سرمایہ کاری صرف ایک ارب ڈالر رہی۔ چوتھے نمبر پر زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کیلئے دوست ممالک سے مدد یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے لئے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ حالات میں ہمیں ان چاروں ذرائع میں سے آخری ذریعے پر زیادہ انحصار کرنا پڑرہا ہے جس سے بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
قرضوں کی حد کے قانون (Debt Limitation Act)کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے 65 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ بیرونی قرضوں کے علاوہ حکومت نے 2 ارب ڈالر کے 5 اور 10 سالہ یورو بانڈز کا بھی اجرا کیا ہے جس کی ادائیگی 2016-17 سے ہے۔ اپریل 2014ء میں حکومت نے ایک ارب ڈالر کے 5 سالہ سکوک بانڈز 6.75% شرح منافع پر جاری کئے جس کی ادائیگی اپریل 2019 میں ہوگی۔ اس کے علاوہ حکومت نے نہایت اونچی شرح سود 8.25 فیصد اور 7.875 فیصد پر ڈالر بانڈز کا اجرا کیا ہے جن کی ادائیگی بالترتیب2025ء اور 2036ء میں ہوگی۔حکومت مجموعی 3,130 ارب روپے ریونیو میں سے رواں مالی سال 1,360 ارب روپے مقامی اور بیرونی قرضوں کی صرف سود کی ادائیگی کرے گی۔ سود کی یہ رقم ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی تجاوز کرچکی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
قارئین! آئی ایم ایف دراصل مالیاتی خسارہ (Fiscal Deficit) پورا کرنے کیلئے کسی بھی ملک کو قرضے دیتا ہے۔ آئی ایم ایف اپنے قرضوں کی وصولی کیلئے مقروض ممالک کو مختلف اقدامات اٹھانے کا پابند کرتا ہے جو بعض اوقات اس ملک کے غریب عوام پر اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں، اس طرح غریب مقروض ممالک آہستہ آہستہ ان عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ کالم کی مناسبت سے مجھے مشہور معاشی قاتل جان پرکنز کی 2004ء میں شائع ہونے والی تہلکہ خیزکتاب ’’معاشی قاتل کے اعترافات‘‘ (Confessions of Economic Hitman) یاد آگئی جس میں جان پرکنز جو اپنے آپ کو ’’کرائے کا معاشی قاتل‘‘ کہتا تھا، نے بتایا ہے کہ اکنامک ہٹ مین (معاشی قاتل) دنیا کی معروف یونیورسٹیوں سے معیشت اور فنانس میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ ہوتے ہیں جنہیں بین الاقوامی مالیاتی ادارے، ملٹی نیشنل کمپنیاں، یو ایس ایڈ اور آئل اینڈ گیس کمپنیاں غیر معمولی پیکیج پر مشیر کی حیثیت سے ملازمت پر رکھ کر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے خصوصی ٹریننگ دیتی ہیں۔ جان پرکنز کے بقول ان معاشی قاتلوں کی ٹریننگ انتہائی خفیہ رکھی جاتی ہے۔ اعلیٰ ترین سوٹوں میں ملبوس نفیس انگریزی بولنے والے ان معاشی قاتلوں کا کام تیسری دنیا کے ممالک کو امداد کے نام پر قرضوں میں جکڑنا ہوتا ہے جن کیلئے مقروض ممالک اپنے تمام قومی اثاثے بھی مغربی کارپوریشنوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پرکنز کے بقول عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ بالاخر تیسری دنیا کے حکمرانوں، بین الاقوامی کارپوریشنوں اور مشاورتی کمپنیوں کے پاس چلا جاتا ہے کیونکہ یہ کمپنیاں اپنے مقصد کے حصول کیلئے غلط اقتصادی جائزے، غیر حقیقی مالیاتی رپورٹس، انتخابات میں دھاندلیوں، لابنگ ، رشوت اور دھمکی جیسے ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ جان پرکنز کے بقول وہ طویل عرصے تک ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ کی حیثیت سے کام کرتا رہا، اس دوران اُس نے لاکھوں ڈالر کمائے مگر جب ضمیر نے ملامت کی تو اپنی کمپنی سے استعفیٰ دے دیا اور دنیا کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے مذکورہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ جان پرکنز کی بیسٹ سیلر کتاب کی اب تک کئی ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
آج پاکستان میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ ملک کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تیار کی جارہی ہیں جبکہ امریکی دبائو کے باعث پاک ایران گیس پائپ لائن جیسا ملکی مفاد کا منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ پاکستان میں بھی ملک کو ایٹمی طاقت بنانے، تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور امت مسلمہ کو متحد کرنے کی کوششیں کرنے والے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹادیا گیا۔ ماضی میں پاکستان نے بھی نیٹو، امریکہ اور اتحادیوں کو افغان جنگ کیلئے اپنی سرزمین اور فوجی اڈے دے رکھے تھے۔ ملک میں ایک طرف حکمراں اور سیاستدان اربوں ڈالر کے مالک ہیں جن کے صرف سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر جمع ہیںتو دوسری طرف عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 20 کروڑ آبادی کا ہر شخص تقریباً ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کے پس منظر میں قارئین سے میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان بھی ’’عالمی معاشی قاتلوں‘‘ کا آلہ کار بن چکا ہے؟

 

.

تازہ ترین