• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر طرف شور برپا تھا۔ نئی تاریخ رقم ہوگئی، نئی تاریخ رقم ہوگئی۔اس شور پر میں ہڑبڑایا اور پھر گھبرایا۔ کتاب ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔ میں نے کتاب اٹھا کر سامنے میز پر رکھ دی اور ٹی وی اسکرین پر برپا شور سننے لگا۔وزراء کا ایک ہجوم تھا جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اور ایک دوسرے پر چڑھ کر یہ چیخ رہا تھا کہ وزیر اعظم نے بغیر سرکاری پروٹوکول کے جے آئی ٹی میں پیش ہو کر نئی تاریخ رقم کردی۔ یہ سن کر میری نظریں ٹی وی اسکرین سے ہٹ کر میز پر پڑی کتاب کے ٹائٹل پر جم گئیں۔ کتاب کا نام تھا’’سیاستدانوں کی جبری نااہلیاں‘‘۔ احمد سلیم کی یہ کتاب1991ء میںشائع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں جنگ پبلشرز کے انچارج مظفر محمد علی کو یہ کتاب شائع کرنے کی بہت جلدی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اس وقت کی اپوزیشن لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو کو نااہل قرار دے کر سیاست سے باہر کردیا جائے گا۔ وہ اس کتاب کو جلد از جلد شائع کرکے دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان میں کسی سیاستدان کو کرپشن کے الزام میں نااہلی کے ریفرنسوں کا پہلی دفعہ سامنا نہیں بلکہ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اپنے خلاف دائر درجنوں مقدمات کا سامنا کررہی تھیں۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری جیل میں تھے اور وہ بلاول کو گود میں اٹھائے باپ سے ملوانے جیلوں کے چکر بھی لگایا کرتی تھیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اکثر یہ بیان دیا کرتے تھے کہ ہم پاکستان توڑنے والے شخص کی کرپٹ بیٹی اور داماد کو کرپشن کے الزام میں سزائیں دلو ا کر نئی تاریخ رقم کریں گےلیکن پھر یہ ہوا کہ جس صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزام میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تھی اسی غلام اسحاق خان نے ویسے ہی الزامات کے تحت نواز شریف کی حکومت بھی برطرف کردی۔ کوئی نئی تاریخ تو رقم نہ ہوئی البتہ پرانی تاریخ کو پھر سے دہرا دیا گیا۔ میری نظریں کتاب کے ٹائٹل پر مرکوز تھیں اور میں اس کتاب میں موجود ان تمام کرداروں کے بارے میں سوچ رہا تھا جن پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ حسین شہید سہروردی سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کئی وزرائے اعظم کو عدالتوں سے سزائیں تو دلوائیں گئیں لیکن تاریخ کی عدالت نے ان شخصیات کو نہیں بلکہ ان پر الزامات لگانے والوں کو مجرم قرار دیا۔ یہ کتاب پچھلے26سال سے میری نظروں کے سامنے ہے اور اس میں ملک محمد قاسم مرحوم کی طرف سے نواز شریف کے خاندان پر کرپشن کے الزامات کا بھی ذکر ہے۔ملک صاحب پیپلز پارٹی کے دور میں اینٹی کرپشن کمیٹی کے سربراہ تھے اور انہوں نے بھی شریف خاندان کے خلاف کئی مقدمات بنا کر عدالتوں کو بھیجے لیکن یہ مقدمات نہ چل سکے۔ ہر چار پانچ سال کے بعد کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزامات کا شور بلند ہوتا ہے تو میں اس کتاب کو کھول کر پرانی تاریخ دیکھتا ہوں اور پھر اسے بند کرکے نئی تاریخ رقم کرنے کے دعوے سننے لگتا ہوں۔ نئی تاریخ رقم کرنے کے کئی دعویداروں کی طرف سے بڑی بڑی رقمیں تقسیم کرنے اور وصول کرنے کی کہانیاں بڑی بڑی عدالتوں کے فیصلوں میں بھی موجود ہیں لیکن سزا کسی کو نہ ملی کیونکہ ہمارے قانون کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اس قانون کے سامنے کچھ لوگ رقم وصول کرکے نئی تاریخ رقم کرنے کے دعوے کرتے ہیں کچھ لوگ رقم وصول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور خاموشی سے پرانی تاریخ میں گم ہوجاتے ہیں۔
آج کل جے آئی ٹی کی بزم میں آنے والا ہر دوسرا ملزم بڑے عزم کے ساتھ نئی تاریخ رقم کرنے کا دعویدار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد رقیبوں کے نام لئے بغیر ان پر رقیق حملے کئے اور کہا کہ شریف خاندان کا پہلی دفعہ نہیں پانچویں دفعہ احتساب ہورہا ہے۔ ایک طرف نواز شریف کے وزراءاور ان کے صحافتی ہمدردوں کی طرف سے نواز شریف کا ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے نواز شریف کے خلاف بھی مسعود محمود جیسا کوئی وعدہ معاف گواہ تلاش کیا جارہا ہے،دوسری طرف شہباز شریف بھٹو پر الزام لگارہے ہیں کہ انہوں نے بھی ہمارے خاندان کا احتساب کیا تھا۔ سمجھ نہیں آتا کہ نیشنلائزیشن کے تحت آپ کے صنعتی اداروں کو قومیانا غلط فیصلہ تو کہلا سکتا ہے لیکن احتساب یا سیاسی انتقام کیسے کہلا سکتا ہے؟ بہرحال شہباز شریف نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد سر پر کالا ہیٹ سجا کر اور انگلی گھما کر جو کچھ بھی کہا بڑے اعتماد کے ساتھ کہا۔ ان کی بدن بولی ذرا مختلف تھی اور ان کے چہرے سے یہ یقین ٹپک رہا تھا کہ پاکستان میں نئی تاریخ صرف وہی رقم کرسکتے ہیں کسی دوسرے میں اتنی ہمت نہیں۔ رقم کا مقابلہ ہے اور نئی تاریخ رقم کرنے کے دعویدار، ان کی گفتار اور کردار سب دنیا کے سامنے ہے۔ سچ پوچھیں تو پاکستان میں ہر لمحہ نئی تاریخ رقم ہوتی ہے۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ مشرف دور میں مجھے اور میرے بڑے بھائی کو ہتھکڑیاں لگیں۔ وہ بھول گئے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ ہتھکڑی لگنا نئی تاریخ ہے یا پھانسی لگنا نئی تاریخ ہے؟ مشرف دور میں جب نواز شریف کو پھانسی دینے کا مطالبہ ہوا تو میں نے ایک کالم میں نواز شریف کو پھانسی دینے کی مخالفت کی تھی۔ کالم کا عنوان تھا’’پھانسی بہت ضروری ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا تھا کہ نواز شریف کو نہیں اس نظام کو پھانسی دیں جس نے نواز شریف پیدا کیا۔ جس دن کالم شائع ہوا اسی شام پرویز مشرف نے مجھے پوچھا کہ نواز شریف نے تم پر حملہ کرایا اور سیف الرحمان کے ذریعہ ڈرایا دھمکایا پھر بھی اس کی حمایت کیوں کرتے ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ آپ نواز شریف کا احتساب کریں ان سے انتقام نہ لیں۔ پھرمشرف نے احتساب کئے بغیر نواز شریف اور شہباز شریف کو سعودی عرب بھیج دیا اور ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ پھر مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ قائم ہوا۔ نواز شریف اس مقدمے کو انجام تک پہنچا کر واقعی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف، چوہدری نثار علی خان اور مشاہد اللہ خان آڑے آگئے۔ ان صاحبان نے کہا کہ مشرف کو بیرون ملک جانے دو۔ مشرف کو عدالتی فیصلے کے نام پر پاکستان سے بھگا دیا گیا اور نئی تاریخ رقم ہوگئی یا شاید سعودی عرب والوں نے کہا کہ مشرف نے تمہیں معاف کرکے جو تاریخ رقم کی تھی اس تاریخ کو ذرا سا دہرا دو۔
ہر طرف تاریخ رقم ہورہی ہے۔ حکومت نے جے آئی ٹی پر اور جے آئی ٹی نے حکومت پر الزامات لگا کر نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ آصف زرداری کو یقین ہے کہ نواز شریف جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ سے بچ نکلیں گے اور نئی تاریخ رقم ہوگی۔ میں نے پوچھا بچ نکلنے سے نئی تاریخ کیسے رقم ہوگی؟ انہوں نے قہقہہ لگایا اور تخت لاہور زندہ باد کا نعرہ لگا کر فون بند کردیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کو پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم یا کسی چھوٹے صوبے کی پارٹی کا لیڈر قصائی کی دکان یا جیمز بانڈ کی فلم کہتا تو اب تک سلاخوں کے پیچھے ہوتا لیکن یہ اعزازمسلم لیگ(ن) کا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے سے بننے والی جے آئی ٹی کوقصائی کی دکان بھی کہے پھر اس دکان میں حاضری بھی دے اور دکان سے باہر آکر نئی تاریخ رقم کرنے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ قصائی قصائی کا شور مچانے والوں نے رمضان کے مہینے میں قومی اسمبلی کے منتخب رکن جمشید دستی کو جیل میں ڈال دیا۔ اصل ظالم تو جمشید دستی ہے۔ باقی سب مظلوم ہیں، میں جمشید دستی کو جیل میں ڈالنے والوں کو قصائی کہنے کی گستاخی نہیں کروں گا کہیں یہ میری دکان بند کرکے نئی تاریخ نہ رقم کریں۔

 

.

تازہ ترین