• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالانہ چھٹیاں گزارنے یورپ گیا تھا ۔ دس بارہ دن لندن میں بھی گزارے ۔ لندن ایک عجیب و غریب شہر ہے ۔ اس شہر نے صدیوں تک اپنی عظمت کا تحفظ کیا ہے اور دنیا کے دیگر خطوں اور ملکوں کی تاریخ کو ان سے زیادہ سنبھال کر رکھا ہے ۔ اسے دنیا کا ثقافتی دارالخلافہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اس شہر کی پوری دنیا سے انسیت ہے اور یہاں نئے آنے والوں کو بھی بیگانگی محسوس نہیں ہوتی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لندن دنیا بھر کی مختلف تحریکوں کا مرکز رہا ہے ۔ پاکستان کی تحریک آزادی سمیت دنیا کے دیگر ملکوں کی آزادی کی تحریکوں میں لندن نے اہم کردار ادا کیا ، جو تاج برطانیہ کی نو آبادیات رہی ہیں ۔ سجاد ظہیر اور دیگر ترقی پسند رہنماؤں نے بر صغیر میں ترقی پسند تحریکوں کا آغاز لندن سے کیا ۔ ہمارے عہد کے سب سے بڑے انقلاب ایران کے بانی امام خمینی نے بھی طویل عرصے تک لندن میں رہ کر اپنی تحریک کیلئے کام کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بھی ضیاالحق اور پرویز مشرف کی آمرانہ حکومتوں کیخلاف جمہوری تحریکیں لندن میں بیٹھ کر منظم کیں۔ افریقا ، ایشیا، لاطینی امریکہ سمیت خود یورپ کی کئی اہم تحریکوں کا مرکز لندن رہا ہے ۔ لندن وہ شہر ہے ، جہاں دنیا بھر کے سب سے زیادہ لوگ آتے ہیں بلکہ سیاسی پناہ حاصل کرنے والے سب سے زیادہ لوگ یہاں مقیم ہیں ۔ جس شخص کو بھی سیاست اور تاریخ سے تھوڑا سا بھی شغف ہے ، اس کا لندن سے رومانوی رشتہ بن جاتا ہے ۔
لندن کے ہر دورے پرہر شام لوگ ملا کرتے ہیں ان میں ایک دو نشستیں ہمارے انتہائی سینئر ساتھی ، سیاسی رہنما اور دانشور صبغت اللہ قادری کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ میرے لئے جدو جہد کی علامت بھی ہیں اور پاکستان سے جانے والے لوگوں کے بہت بڑے میزبان بھی ہیں۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان کے پاس دانشوروں کا اجتماع رہتا ہے ۔ قادری صاحب نے اس مرتبہ بھی ایک نشست کا اہتمام کیا ، جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔ ان میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن ، تھر ڈور ٹو سالیڈ یرٹی کے سربراہ اور برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما مشتاق لاشاری اور پاکستان سے آئے ہوئے ہمارے سینئر صحافی دوست شامل تھے ۔ اس نشست میں پاکستان کے کچھ سیاست دان اور بیورو کریٹس بھی موجود تھے ، جو بوجوہ لندن میں زندگی گزار رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہاں تذکرہ مناسب نہیں ۔ اس نشست میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی اور عالمی معاملات پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی ۔ پاناما کیس اور JIT اور انکے ہونے والے فیصلے۔ برطانیہ کے حالیہ قبل از وقت انتخابات میں لیبر پارٹی کی بہترین کارکردگی اور ان انتخابی نتائج کے یورپ اور عالمی سیاست پر مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھنے میں مدد ملی ۔ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والےاتحاد ، قطر کی ناکہ بندی ، ایران عراق کشیدگی ، عرب دنیا میں ہونے والی تباہی سمیت مختلف موضوعات پر عالمانہ گفتگو رہی ۔ میں نے یہ بات محسوس کی کہ لندن میں سیاسی کارکنوں ، دانشوروں اور صحافیوں کے درمیان مباحث اور مکالمے جاری رہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ روایت کمزور ہو گئی ہے ۔ وہاں لوگ لاتعلقی اور بیگانگی جیسے امراض سے بچے ہوئے ہیں اور اپنے عہد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ وہاں سب دوستوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں سیاسی خاموشی توڑ دوں اور سیاسی طور پر دوبارہ سرگرم ہو جاؤں ۔ مجھے اس پر برطانوی عظیم فلسفی ، مورخ اور ادیب برٹرینڈ رسل کی وہ بات یاد آئی کہ انسان کو اگر مطمئن زندگی گزارنا ہے تو وہ اپنے عہد کی کسی انقلابی یا تبدیلی کیلئے تحریک سے وابستہ رہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال پر لندن میں موجود سب دوستوں کو تشویش تھی اور وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے حامی حلقے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کو اپنے اقتدار کےلئے متنازع بنا کر پاکستان کیلئے مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔ وہ ملکی اداروں کی ساکھ خراب کر رہے ہیں ۔ پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت پنپ رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو رہی ہے۔ اقتدار میں آئے ہوئے سارے حکمرانوں نے ملک کو کھوکھلا اور عوام کو غریب بنایا ہے اس کے ساتھ ہی جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے اور غیر سیاسی قوتوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے خطرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے ہیں ۔ اس بات پر بھی عالمانہ مباحثہ ہوا کہ پاکستان کی غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ ماضی کے مقابلے میں اس وقت کیا ہے ۔ ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں اس کی موجودہ حالات میں سیاسی اہمیت کیا ہے ۔ اگرچہ اس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری قوتیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہیں اور غیر سیاسی قوتوں کیلئے بظاہر پہلے والے حالات نہیں رہے لیکن دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی ، ایشیا کی مغرب پر بڑھتی ہوئی معاشی بالادستی ، چین کی ایک عالمی رہنما کے طور پر دنیا کی سیاست میں پیش قدمی ، یورپی یونین کے ممالک کے امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ ابھرتی ہوئی ایشیائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دینے کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے ۔ سی پیک نے اس اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے ۔ اس نئی عالمی صف بندی کے خلاف امریکہ اور اس کے بچ جانے والے اتحادی سخت مزاحمت کریں گے اور وہ ایک بار پھر دنیا کو اپنی مہم جوئی میں الجھا سکتے ہیں ۔ خدشہ یہ ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو اس خطے میں عالمی مفادات کی جنگ کا میدان بنایا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کی کمزور ہوتی غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے یا عالمی طاقتیں ایک بار پھر اس پر انحصار کر سکتی ہیں ۔ اس حوالے سے پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ پاکستان کی حکمران سیاسی جماعت پاناما کیس کے معاملے میں تصادم کی راہ اختیار کرنے سے گریز کرے اور اس معاملے کو اپنا راستہ اختیار کرنے دے ۔
اس نشست میں بی بی سی اور دیگر اہم میڈیا گروپس کے لوگ بھی موجود تھے ۔ انہوں نے بھی پاکستان کی صورت حال کا بہت گہرائی سے تجزیہ کیا ۔ اس بات پر بھی سب دوستوں کا اتفاق تھا کہ پاکستانی اداروں کے ٹکراؤ کے نتائج ملک اور جمہوریت کیلئے اچھے نہیں ہوں گے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے لیکن انہوں نے جے آئی ٹی سے نکلنے کے بعد پہلے سے تحریر شدہ جو بیان پڑھا ، اس میں انہوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ جن اداروں اور سیاست دانوں پر تنقید کی ۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ شہباز شریف کے نکلنے کے بعد دونوں حضرات کا غصہ اور body language سب کچھ کہہ رہی ہے۔ جے آئی ٹی نے قبل ازیں سپریم کورٹ کے نگران بنچ میں تحریری شکایت کی ہے کہ اسے کام نہیں کرنے دیا جا رہا ۔ حکومتی ادارے نہ صرف رکاوٹیں ڈال رہے ہیں بلکہ تعاون بھی نہیں کر رہے ہیں ۔ اس شکایت کے جواب میں قومی احتساب بیورو (نیب ) ، ایف آئی اے اور دیگر حکومتی اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات کر مسترد کر دیا ۔ اٹارنی جنرل نہ صرف حکومتی اداروں کا جواب لے کر سپریم کورٹ گئے بلکہ اس جواب میں جے آئی ٹی پر الزامات عائد کر دیئے گئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی پر گواہوں کے فون ٹیب کرنے اور اصل کام کرنے کی بجائے میڈیا اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ پر وقت ضائع کرنے کی چارج شیٹ بھی عائد کی ۔ اس وقت عدالت میں حکومت اور جے آئی ٹی فریق بنے ہوئے ہیں ۔ اداروں کے مابین تصادم ٹھوس شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اٹارنی جنرل ایک ایسا لاآفیسر ہوتا ہے ، جو عدالتوں کی رہنمائی اورآئین کو سپورٹ کرتا ہے لیکن اس کے برعکس اٹارنی جنرل نے ایسا نہیں کیا ۔ میری فہم کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی حکمراںسیاسی جماعت جو کچھ کر رہے ہیں ، وہ اچھا نہیں کر رہے ۔ وہ ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی خطرہ ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جمہوری حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے تو انہیں اپوزیشن سمیت ملک کی تمام جمہوری قوتوں کو اس بارے میں اعتماد میں لینا چاہئے اور ثبوت کے ساتھ بات کرکے اس مبینہ سازش کو روکنے کی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے ۔ اگر وہ پاناما کیس کی تحقیقات کا رخ بدلنے کیلئے انفرادی طور پر مہم چلا رہے ہیں تو یہ نہ صرف ان کیلئے بلکہ ملک اور جمہوریت کیلئے بھی خطرناک ہے۔

 

.

تازہ ترین