• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں آج کل پاکستان کی سیاسی تاریخ کے نئے نئے باب رقم کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اپنی فیملی کے اہم ترین اراکین کے ساتھ JIT کے حضور حاضر ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور رہنما اسی حاضری پر ایسے ہی خوشیاں منا رہے ہیں۔ جیسے وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ آنے کے بعد 20-18گھنٹے تک منا رہے تھے۔ بعد میں ان پر جب صورتحال واضح ہوئی تو سب کچھ رک سا گیا تھا۔ وزیراعظم کی JIT میں حاضری قانون تقاضے پورے کرنے کیلئے ضروری تھی۔ یہ تو اچھا ہوا۔ وہ جیسے اندر گئے تھے۔ ویسے ہی باہر آ گئے۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی وہاں کی حاضری کی پابندی پورے کر چکے ہیں۔ JIT میں کسی وزیراعظم کا پیش ہونا واقعی پہلی بات ہے۔ مگر اس سے قبل سابق وزرائے اعظم محترمہ بینظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ اسلام آباد اور مجموعی طور پر ملک کی سیاسی صورتحال کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس سے حقیقی طورپر ملکی و غیر ملکی تاجر اور سرمایہ کار سب پریشان ہیں۔ مگر کسی کو سمجھ نہیں آرہا کہ عید کے بعد کیا ہو گا۔ اب تک کی صورتحال سے تو یہ لگتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکمت عملی ایک لحاظ سے بڑی کامیاب رہی ہے اور دوسرے نقطہ نظر سے ان کے یا ان کے خاندان کے لئے مستقبل میں کئی سیاسی مشکلات پیش آنے کے اشارے دے رہی ہے۔ جہاں تک حکومت اور خاص کر وزیراعظم میاں نواز شریف کی تمام سیاسی جماعتوں اور ٹی وی چینلز کو اپنی وکٹ پر کھلانے اور اس پر مصروف رکھنے کی منصوبہ بندی یا حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومت یا کچھ خصوصی افراد کو ہر روز ایک نیا ایشو دے دیا جاتا ہے۔ جس پر سارا دن ہر دانشور اور ہر پارٹی اس پر بیان بازی میں مصروف ہو جاتی ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ 2017-18ء کے بجٹ سے عوام اور تمام دانشوروں کی توجہ جس طرح ہٹائی گئی۔ اس دوران پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کیا کچھ ہوتا رہا۔ مگر بجٹ پر جو بحث ہونی چاہئے تھی۔ وہ نہیں ہو سکی۔ اپوزیشن والے اپنے آپ کو جتنا مرضی ہو شیار سمجھیں۔ وہ حکومتی ٹریپ میں آ گئے اور وہ کبھی JIT اور کبھی اور ایشو میں الجھتے رہے۔ اسی دوران حیران کن بات یہ ہے کہ PTI والے بھی حکومتی ٹریپ میں آتے گئے جبکہ اصولی طور پر انہیں حکومت کو اپنی وکٹ پر کھلانا چاہئے تھا۔ تین چار ماہ میں ہر بار حکومتی حلقوں کی طرف سے کوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کیا گیا۔ جس میں بے رحمی سے JIT اور غیر اعلانیہ طور پر عدالت عظمیٰ کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا۔ اپوزیشن والے سمجھتے رہے کہ یہ آج کے ایشوز ہیں جبکہ عملاً وہ حکومتی حکمت عملی کے ٹریپ میں آ رہے تھے۔ اسی عرصہ میں اپوزیشن کسی ایسے ایشو کو کلیم نہیں کر سکتی۔ جس پر اس نے حکومت کو کھیلنے یا پریشان ہونے پر مجبور کیا ہو۔ یہ تو وزیراعظم نواز شریف کی حکمت عملی ہے ۔جسے سول سوسائٹی اور بزنس مینوں کی اکثریت تسلیم کرتی ہے۔ خاص کر ان کی JIT میں حاضری کو جس طریقے سے پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا اور کرایا گیا۔ اس پر شرمندگی یا افسوس کی بجائے فخریہ انداز میں بڑے بڑے کلمات ادا کئے گئے۔
اب آتے ہیں ۔دوسری حکمت عملی کی طرف ! اس کیلئے میاں نواز شریف کے وزارت اعلیٰ دور کی طرف جانا ہو گا۔ جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور آج کی نسبت بڑے معصوم بھی تھے جبکہ میاں شہباز شریف کا تو کہیں دور دور تک نام نہیں تھا۔ اس وقت وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے نجانے کیوں وفاق کی طرف سے پنجاب کی مخالفت شروع کردی اور ایک انجانے خوف کے تحت میاں نواز شریف کی شدید مخالفت شروع کر دی اور ان کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب میں کام کرنے کے حوالے سے ہر لحاظ سے ان کی حوصلہ شکنی کی۔ اس شدید مخالفت برائے مخالفت اور پنجاب کو نقصان پہنچانے کی بینظیر بھٹو کی حکمت عملی سے میاں نواز شریف کو سیاسی طور پر بالغ ہونے کے زیادہ مواقع ملے۔ پھر اس دور میں پہلی بار بیوروکریسی، پنجابی اور سندھی میں تبدیل ہوئی اور پھر کیا کچھ نہیں ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی مسلسل مخالفت اور پیپلز پارٹی کی منفی پالیسی سے میاں نوازشریف قومی افق پر بڑے میچور سیاسی لیڈر کے طور پر ابھرے اور پھر 1990ء کی دہائی کے آغاز میں وزیراعظم بھی بن گئے۔ اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) بالکل وہی سلوک PTI کے سربراہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے ساتھ کر رہی ہے۔ جس سے ایک سپورٹس مین عمران خان کی18سالہ پارٹی کے باوجود پہلے 4/5سالوں میں وہ مقبولیت حاصل ہو گئی ہے۔ جو کبھی شریف فیملی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اب سمجھ آتا ہے کہ میاں نواز شریف کو سیاست میں کامیابی کا سہرا پیپلز پارٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کو جاتا ہے اور اب ایسے لگتا ہے کہ عمران خان اور PTI کی کامیابی میں شریف فیملی خاص کر شریف برادران اور پوری مسلم لیگ (ن) غیر محسوس طریقے سے بھر پور مدد کر رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی والے راستے پر نہ چلتی تو شاید عمران خان کو اپنی سیاسی پوزیشن اس طرح مضبوط بنانے میں وہ سپورٹ اور سپیڈ نہ ملتی۔ جو اس وقت PTI انجوائے کر رہی ہے۔ یہ ہے ماضی اور حال کی سیاست! کیا بہتر ہو کہ وزیراعظم نواز شریف قومی سطح پر سیاسی مفاہمت کیلئے قدم بڑھائیں۔ اس کام میں مزید دیر نہ کریں۔ ورنہ کافی چیزیں ہاتھ سے نکل سکتی ہیں۔ خاص کر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بڑے بڑے کئی مسلم لیگی اراکین اپنی ہمدردیاں بدلنے کیلئے بے چین نظر رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ’’ضد‘‘ ہے۔ جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب تو کئی حلقوں میں حکومتی کارکردگی اور دعوئوں پر بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور ملک میں جمہوریت کو بچانے کیلئے مفاہمت یا قربانی کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔ ورنہ بلا وجہ کی مخالفت سے معاملات ہاتھ سے نکلتے جائیں گے۔

 

.

تازہ ترین