• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ جانے سچ کیا ہے، جھوٹ کسے کہتے ہیں۔ عدل و انصاف کے تقاضے کیا ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن کا کردار کیا ہے، ہونا کیا چاہئے تھا ہو کیا رہا ہے؟ چور راستوں سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے کے خواہشمندوں نے اخلاقیات ، سیاسیات اور زندگی کی بساط اُلٹ کر رکھ دی ہے۔ ہر شے کا اُجلا رُخ اوجھل کر کے تاریک سائے کو تقدیر بنانے کا عمل جاری ہے۔زندگی شکوک کی بٹھی میں جھلس رہی ہے۔واضح کو غیر واضح کر کے دکھایا جا رہا ہے۔
عام الفاظ کیا آفاقی تصورات کے معنی تک بدل دئیے گئے ہیں۔ سچ ، عدل و انصاف اور آزادی جیسے معتبر لفظوں کے مفہوم اذیت ناک پشین گوئیوں کی نظر ہو رہے ہیں۔ سوفسطائیت کا سبق جاری ہے ۔نا جانے کیسی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے جمہوریت کو جو تسلسل نصیب ہوا ہے وہ کچھ آنکھوں میں کھٹکنے لگا ہے،اس لئے جمہوریت جس پٹری پرہزاروں مشکلات کے باوجود رواں دواں ہے، اس کے نیچے سُرنگیں کھود کر پورا نظام ڈگمگانے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر پورے ملک کا پہیہ جام کر دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیوں ہر جگہ سب کے پاس یہی موضوع زندگی موت کا حاصل بنا ہوا ہے۔ زندگی کو موت کی طرف لے جانیوالے دیگر عوامل ، چیلنجز اور مسائل کی طرف نگاہ کرنے کی فرصت نہیں۔ کب تک اس ملک میں صرف جمہوریت گنہگار اور جمہور کی بات کرنے والے سزاوار کہلائیں گے۔ شاید اس کی وجہ یہ کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک ٹھوکریں کھاتی ، دربدر ہوتی ، طنز و تشنیع کے تیر سہتی ، دن رات کی ریاضتوں کے باوجود بدقسمت جمہوریت اپنی پاکدامنی ثابت نہیں کر سکی۔ اور ایسا ممکن بھی کیو ں کر ہو ، اپنے نظریات پر آگے بڑھنے کی خواہشمند بھلا کیسے پاک باز ہو سکتی ہے جب حُب الوطنی اور نیکی کا معیار ڈِکٹیشن ہو تو من مرضی کرنے والے نظام کی بات کرنے والا تو کھٹکے گا۔ اس لئے آجکل صرف جمہوری حکومت نشانوں کی زد پر ہے۔ چاروں طرف مخصوص نشانہ بازدن رات لفظوں کے تیر اور نفرت کے شُعلے اُگلنے پر مامور ہیں ۔ جمہوری حکومت کے علاوہ سب فرشتے ہیں ۔ پاکباز ، پاکدامن ، ان پر کبھی جبلت کا حملہ ہوا نہ انسانی نفس نے اک ذرا خطا کرنے پر اُکسایا۔ میڈیا پر بھی ان ہی کا راج ہے۔ اگر پوری دُنیا کاتقابلی جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ نیک و پرہیز گار بلکہ فرشتہ صفت لوگ پاکستان میں پائے جائیں گے۔ اخباری بیانات ، میڈیا پر بحث و مباحثے میں شامل بعض خود ساختہ دانش ور جن کو دانش کی کرن بھی نصیب نہیں ہوئی منصف بن کر فیصلہ سناتے اور کشتی کے ڈانواں ڈول ہونے کا اعلان کرتے نہیں تھکتے۔ کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں ۔جسے اپنے پیٹ میں اُٹھنے والے درد کی وجہ معلوم نہیں ہوتی اُسے مخالف کے باطن کا تمام احوال بلکہ اس کی سوچ تک رسائی میسر ہوتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ احتساب کیوں کیا جا رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ صرف ایک خاندان کو مشقِ ستم بنا کر دُنیا کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے ۔ اس خاندان کی کاروباری حیثیت سب پر عیاں ہے ۔ جب کوئی کاروبار کیا جاتا ہے تو اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے ۔ پوری دُنیا میں یہی دستور ہے اگر اس میں اضافہ ممکن نہ ہو تو لوگ سرمایہ کاری کیوں کریں؟کاروبار سے بہت سے دوسرے لوگوں کا رزق وابستہ ہوتا ہے شاید اسی لئے اس میں برکت رکھی گئی ۔ پاکستان میں اکثر اداروں سے وابستہ ریٹائر حضرات جنکے پروفائل کے ساتھ کسی کاروبار کی سند نہیں کیسے ارب پتی بنے؟ میاں شہباز شریف نے جس کمر درد کی طرف اشارہ کیا اُسکو کیوں چیلنج نہیں کیا گیا؟جب ایک آمر کی طلبی ہوتی ہے تو سب اُس کی حمایت میں حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن جب وزیر اعظم کی طلبی ہوتی ہے تو تمام حاضر سروس سیاستدان وزیراعظم کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر پتھر پھینکنے لگتے ہیں۔ اس اُمید پر کہ شاید حکومت کو نقصان پہنچا ر وہ سرخرو ٹھہریں گے۔ لیکن یاد رہے مخالفت برائے مخالفت سے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے سے سب گندے ہو رہے ہیں۔اخلاقیات اور اصولوں کی سیاست کے بارے میں سُنا تھا ، دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔کم از کم پیپلز پارٹی جو جمہوری روایات کی امین رہی ہے کو اس وقت بیانات کی تلخی سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اصل حزبِ اختلاف کے دعوے داروں کی سوچ اور عمل میں ابھی تک فسطائیت کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے ۔ وہ کسی اور نظام کے علمبردار ہیں اسی لئے ہرکالم نگار ، تجزیہ نگار ، دانشور ، اخبار ، چینل حتیٰ کہ عدالت سے بھی وہ سچ سُننا چاہتے ہیں جو انہیں مطلوب ہے جس میں ان کا مفاد ہے۔جو بھی شخص کسی آفاقی قاعدے قانون کی پیروی کرے، اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرے۔ حالات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرے وہ اِن کی نظر میں سزاوار ہے ۔ کیا اِس ملک میں صرف اپوزیشن ہی کو صاحبِ رائے اور اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے۔ وہ الزام تراشی کریں تو برحق ، دشنام طرازی کریں تو قبول ، ملک کے آئین کو للکاریں توخاموشی ۔ نہال ہاشمی کی طرح اُن کیلئے سزا کیوں نہیں ہے؟
قوم کو پانامہ کی لال بتی کے پیچھے لگا کر بخار میں مبتلا کرنے سے بہتر ہے عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے ۔ بہتر ہو گا تب تک تمام فرشتے خاموش رہیں۔فادر ڈے پر بہت سارے بڑے بڑے رہنمائوں کی طرف سے کوئی بیان نہ پڑھ کر افسوس ہوا۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو باپ کی رضا خدا کی رضا سے ہم آہنگ ہوتی ہے ۔ زندگی میں اس کا بنیادی کردار ہوتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ماں کے نام پر بڑے بڑے اسپتال اور رفاعی ادارے بنانے والے کہیں باپ کے نام کی تختی بھی لگا دیں۔خد ا کرے اس ماہ مبارک میں خود ساختہ فرشتوں کو اپنی کارکردگی کی طرف توجہ کرنے کی توفیق نصیب ہو۔

 

.

تازہ ترین