• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت واقعی ایک صحیح وقت پر ہوئی جب دنیا میں تیزی سے وقوع پذیر ہونے والے بین القومی معاشی گٹھ جوڑ آنے والے وقتوں میں بڑی اور معنی خیز تبدیلیوں کی طرف واضح اشارے کررہے ہیں۔ اس سے خطے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی تزویری اہمیت نمایاں ہو گئی ہے جو اسے سی پیک اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کی وجہ سے نصیب ہوئی ہیں۔ سی پیک کیوجہ سے نہ صرف چین بلکہ روس کیلئے بھی پاکستان کی اہمیت میں گرانقدر اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ اپنے خطے میں اسی قسم کے معاشی بندھن کیلئے کوشاں ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے توسط سےسی پیک کے ساتھ ایک طویل المدت اشتراک کا خواہاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی آمد نہ صرف چین بلکہ روس کیلئے بھی قدرے امید افزا ہے کیونکہ دونوں ممالک پاکستان کے ساتھ مل کر ایک کثیر الجہتی ورلڈ آڈر کی جانب پیش رفت کرسکتے ہیں جس کا مقصد نہ صرف یہ کہ بین الاقوامی سطح پر طاقت میں توازن لانا ہےبلکہ خطے میں بھارت اور امریکہ کے نئے اور ابھرتے ہوئے کردار کو محدود کرناہے۔ بھارت امریکہ بندھن کا مقصد خطے میں بھارتی چودہراہٹ کو قائم کرانےکیساتھ ساتھ پاکستان کو بھارت کی عملداری قبول کرنے پر مجبور کروانا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کی ممبرشپ ملنے سے پاکستان کے عالمی وقار میں اضافہ ہوگیا ہے اور بقول سینیٹ ڈیفنس کمیٹی چیرمین مشاہد حسین اپنی خارجہ پالیسی کو خطے اور عالمی سطح پربڑھانے کے نئے مواقع فراہم ہوگئے ہیں۔ مزید برآں اس سے بھارت اور پاکستان دونوں ایک ہی مقام پر آگئے ہیں۔ اس کانفرنس سے اس بات کا واضح عندیہ بھی ملا کہ 11/9 کے بعد جسطرح سے حالات پاکستان کے خلاف ناموافق بنتے گئے ان میں اب قدرے بہتری آگئی ہے - بین الاقوامی رائے عامہ میں پاکستان کے تئیں مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جسکی بنیادی وجوہات میں عالمی حالات کی بدلتی صورتحال کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کے اندر سیکورٹی کی صورتحال میں واضح تبدیلی کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ قازکستان کانفرنس میں ایک بار پھر بھارت کی پاکستان کوو تنہا کرنے کی کوششوں پر اوس پڑگئی۔ بھارت کو اس حوالے سے بھی کافی سبکی اٹھانی پڑی کہ کانفرنس میں روس اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے کئی مظاہر سامنے آئے۔ جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ روس علاقے کی سیاست اور سیکورٹی کے تناظر کو بھارتی نقطۂ نظر سے دیکھنے کے برعکس پاکستانی مؤقف سے قریب تر ہوتا جارہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر پوتن کے درمیان دوطرفہ ملاقات میں صدر پوتن نے پاکستان کیساتھ مستقبل کے تعلقات کا ایک خوش آئند نقشہ کھینچتے ہوئے پاکستان کو جنوبی ایشیامیں ایک اہم ساتھی قرار دیا۔ روس کا یہ اعلان پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی کاوشوں کے غیرفعال ہونے کا ایک بین ثبوت تھا جس سے نریندر مودی کے پاکستان مخالف کوششوں کی بیخ کنی ہوئی ہے۔ روس کے جانے مانے سیاسی تجزیہ کار انڈریو کوریبکو نے پاک روس بڑھتی ہوئی قرابت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’صرف چند سال پیشتر کسی ایسی صورتحال کا سوچنابھی محال تھا‘‘۔
حالات اسقدر تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ مستقبل قریب میں روس اور پاکستان کے درمیان سیکورٹی معاملات میں شراکت داری ہوتی دکھائی دے رہی ہے جسمیں دونوں ممالک پاکستان کے خلاف افغانستان میں بھارت کے زیر سایہ چلائی جانے والی دہشت گردی بالخصوص سی پیک کو سبوتاژ کرنےکی کوششوں کیخلاف ایک مشترکہ محاذ کی تکمیل ہوسکتی ہے۔ پاک روس اشتراک سے پاکستان کے خلاف دوسرے ممالک کی جانب سے کروائی جانیوالی دہشت گردی جو وہ اکیلے یا بھارت کے ساتھ مل کر انجام دے رہے ہیں پر بھی مؤثر طور پر قدغنیں لگائے جانے کے امکانات بڑھ سکتےہیں۔ اس سے افغانستان میں دائمی امن کے حوالے سے پاکستانی رول میں اضافے کے یقینی امکانات ہیں ۔ روس اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں کے ذریعےافغان امن میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں اور تمام فریقین بشمول طالبان ایک وسیع البنیاد تصفیے میں مدد دے سکتے ہیں تاکہ نہ صرف یہ کہ سب کیلئے ایک قابل قبول سیاسی حل کی جانب بامعنی اقدامات کئے جائیں بلکہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائیاں بھی کی جاسکیں گی۔ جس کو مبینہ طور پر بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔اپنے کلیدی خطبے میں صدر پوتن نے سی پیک سے وابستہ منصوبوں کی تزویری اہمیت کا احاطہ کرتے ہوئے ایسے دیگر منصوبوں میں قریبی اشتراک کا اعادہ بھی کیا۔ انہوں نے ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی قومی ترقیاتی پالیسیوں اور ایسے ہی کثیر ملکی معاہدوں کو شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر نگرانی سی پیک کے منصوبے اور دیگر ایسے معاشی اقدامات میں شامل کریں تاکہ باہمی اشتراک کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مند بنایا جاسکے۔ روسی تجزیہ کار اینڈریو کوریبکو کے مطابق ’’چونکہ سی پیک اوبور کا مرکزی پروجیکٹ ہے اسلئے صدر پوتن کی یہ توضیح بے جا نہ ہوگی کہ انہوں نے شنگھائی تعاون کے تمام ممالک کو بشمول بھارت سی پیک کو تسلیم کرنے اور اسمیں شامل ہونے کی دعوت دی‘‘۔ کوریبکو کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے سی پیک کی مخالفت روس کیلئے ایک ریڈ لائن ہے جس کے وقار کو قائم رکھنے کیلئے روسی حکومت ہر طرح کے وسائل بروئے کار لائے گی۔ کوریبکو نے بھارت پر سی پیک کے خلاف ایک مخلوط جنگ چھیڑنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی دہشت گردی کے ذریعے خطے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صدر پوتن کی جانب سے بھارت کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دراصل روس کی جانب سے بھارت کیلئے آخری پیشکش ہے کہ وہ خطے میں ایک ذمہ دار طاقت کا رویہ اپنائے۔
پس نوشت:
سمٹ کانفرنس کے دوران وزیراعظم نواز شریف اپنے ملٹری سیکریٹری کو آگاہ کررہے تھے کہ خطاب کے بعد ان کا مائیک آن تھا۔ چند لمحوں کی اس ویڈیو فوٹیج نے بھارت میں کھلبلی مچادی ۔ بھارت کے ایک 'نیوز چینل ٹائمز نو نے تو جنونیت کی انتہا کردی اور یہ مضحکہ خیز دعویٰ کرڈالا کہ وزیراعظم شریف کسی سے احکامات لے رہے تھے۔ اس ’’خصوصی خبر‘‘ کو بے ہنگم شوروغل کے درمیان کئی ’’تجزیوں‘‘ میں دہرایا گیا جس سے ہندو فسطائیت کے حکومت میں آجانے کے بعد سے بھارتی اداروں میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی عدم توازن کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔
ضمیمہ:
بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی جو کہ بھارت کے انٹیلی جنس اداروں کے کافی قریب تصور کی جاتی ہے بھی ایک ’’نیوز اسٹوری‘‘ لےکر میدان میں آئی۔ اسمیں یہ دعویٰ کیاگیا کہ چینی صدر نے وزیراعظم نواز شریف سے تشویش کا اظہار کیا۔ بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ اقدام بلوچستان میں ایک چینی جوڑے کے قتل کے جواب میں کیا گیا جو آمدہ اطلاعات کے مطابق کسی زیر زمین چینی کیتھولک چرچ سے وابستہ تھے اور بلوچستان میں لوگوں کو خفیہ طور عیسائی بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔’’غیر معمولی سرزنش‘‘ کی اس خبر کو بھارت میں کافی پذیرائی ملی جسکو تمام بڑے اخبارات اور نیوز چینلز نے غیر معمولی کوریج دی۔ چین کے دفتر خارجہ نے اس ’’خبر‘‘ کو واہیات گردان کر اس کو غیر ضروری قرار دیا اور واضح کردیا کہ سمٹ کے دوران دونوں لیڈران کئی مرتبہ ملے۔
چین کے اس دوٹوک اعلان کے باوجود بھارتی میڈیا منفی رویے سے باز نہیں آیا اور اپنی شرمناک حرکتیں جاری رکھیں۔ چینی دفتر خارجہ کی تردید کے جواب میں مشہور بھارتی نیوز ویب سائٹ اسکرول نے یہ تجزیہ داغ دیا: ’’البتہ چینی’’ ترجمان نے یہ تصدیق نہیں کی کہ زی اور شریف کے درمیان یہ ملاقاتیں دوطرفہ تھیں یا نہیں‘‘۔

 

.

تازہ ترین