• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام ریاستی اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات کو غلط ثابت کیا

اسلام آباد (احمد نورانی) سپریم کورٹ میں پیر کے روز جے آئی ٹی کی شکایت، وزیراعظم ہائوس میں جاسوسی کے آلات نصب کیے جانے، گواہوں کی فون کالز کی ٹیپنگ، گواہوں کی نقل و حرکت کی نگرانی اور انٹیلی جنس بیورو جیسے قومی اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کے متعلق کیس کی سماعت کرے گی۔ جے آئی ٹی نے صرف قیاس آرائیوں اور نامعلوم افراد کے حوالوں کی بنیاد پر قومی اداروں بشمول وزیراعظم ہائوس اور انٹیلی جنس بیورو جیسے قومی اداروں پر کئی الزامات عائد کیے ہیں۔ تاہم، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، آئی بی، نیب، وزارت قانون اور وزیراعظم ہائوس نے الزامات کا کھیل کھیلنے کی بجائے دستاویزی شواہد کی روشنی میں ایک ایک کرکے الزامات کا جواب دیا اور ان تمام الزامات کو غلط، بدنیتی پر مبنی اور من گھڑت ثابت کیا۔ یہ شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ جے آئی ٹی اپنی ساکھ کھو چکی ہے اور تحقیات کا عمل شفاف نہیں رہا۔ سپریم کورٹ کا بینچ یہ کہہ چکا ہے کہ انہوں نے ہیروں کا انتخاب کیا ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی یا پھر ہیرے کالے پڑ گئے۔ جے آئی ٹی ارکان نے کھل کر اپنے تعصب کا اظہار کیا ہے اور قومی اداروں اور سینئر صحافیوں پر عائد کردہ ایک بھی الزام ثابت نہیں کر پائے۔ بے بنیاد الزامات عائد کرنے والوں نے آئی بی جیسے اُس ادارے کو بھی نہیں چھوڑا جس نے 2014ء میں پاکستان کیخلاف سازشوں کو بے نقاب کیا تھا۔ وزیراعظم ہائوس میں جاسوسی کے آلات لگانے اور جے آئی ٹی میں پیش ہونے سے قبل گواہوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنے کا الزام پریشان کن الزام ہے جس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو بھیجی گئی اپنی شکایت میں اس بات کا اعتراف کیا ہے جبکہ وزیراعظم ہائوس نے اپنے جواب میں اس ناقابل یقین حرکت کو نمایاں کرکے پیش کیا ہے۔ اگر عدالت نے اس الزام کو سنجیدگی سے لیا اور جامع تحقیقات کا حکم دیا تو پاناما کیس کی تحقیقات کی کارروائی میں طوالت آئے گی۔ ایس ای سی پی ثابت کر چکی ہے کہ ریکارڈ میں رد و بدل کرنے کے حوالے سے جے آئی ٹی کی شکایت محض ایک نامعلوم افسر کے بیان پر مبنی تھی جبکہ ریکارڈ یا دستاویزات کی کوئی فارنسک جانچ نہیں کرائی گئی۔ ایس ای سی پی جے آئی ٹی کے الزام کو غلط ثابت کر چکی ہے۔ آئی بی نے بھی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے جے آئی ٹی رکن بلال رسول کی اہلیہ کے فیس بک اکائونٹ کو ہیک نہیں کیا۔ بلال رسول کی اہلیہ پی ٹی آئی کی کارکن ہیں، ان کا فیس بک اکائونٹ نواز شریف کیخلاف نعروں سے بھرا ہوا تھا لیکن جیسے ہی ان کے شوہر بلال رسول کو جے آئی ٹی میں شریف خاندان کیخلاف الزامات کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کا رکن نامزد کیا گیا تو یہ اکائونٹ بند کر دیا گیا۔ آئی بی نے یہ بھی کہا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کے حوالے سے جانچ پڑتال کرنا ان کے معمول کا کام تھا اور ادارہ یہ کام ہر اہم کیس میں کرتا ہے۔ نیب بھی جے آئی ٹی رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجے جانے کے حوالے سے ناقابل تردید ثبوت پیش کر چکا ہے۔ اس طرح کے واقعات نے جے آئی ٹی کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ٹیم ارکان کے تعصب کو واضح کر دیا ہے۔ عدالت کے کمرہ نمبر تین میں پیر کو ہونے والی سماعت اہم ہے اور یہ پاناما کیس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ اگر عدالت نے تحفظات دور کیے اور الزامات اور ٹیپنگ وغیرہ کی تحقیقات کا حکم دیا تو تحقیقات کی ساکھ اچھی ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین