• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایس ای سی پی ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا معاملہ ایف آئی اے کے حوالے

Secp Record Tampering Case The Fia

سپریم کورٹ کے ججوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ جے آئی ٹی کو ہراساں کرنا بند کیا جائے، ورنہ انتہائی ناخوشگوار حکم دینے پر مجبورہوں گے، آئی بی کس اختیار کے تحت ہرمعاملے میں ناک پھنسا رہی ہے۔

جے آئی ٹی کو تحقیقات میں مشکلات سے متعلق درخواست کی سپریم کورٹ میں سماعت 3 رکنی عمل درآمد بنچ نے کی ۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ الزام ہے کہ ایس ای سی پی کاریکارڈ ٹیمپر کیا گیا، یہ جرم کون سا بنتاہے؟ الزام کی تحقیقات کون سا ادارہ کرے گا؟ پولیس یا ایف آئی اے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ریکارڈ ٹمپرنگ پر دفعہ 468کا جرم بنتا ہے تاہم ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کی طرف سے لگائے گئے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں، ہم سمجھ رہے تھے کہ آپ نے بطور اٹارنی جنرل کوئی ایکشن لیا ہوگا، اٹارنی جنرل صاحب ! آپ کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، آپ کو کسی کی سائیڈ نہیں لینی چاہیئےآپ نے سیدھا کہہ دیا کہ بادی النظر میں الزامات غلط ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں بھی کچھ لوگ بغیر جانے تبصرے کرتے ہیں، حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا، پہلے بھی کہا تھا آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے، ہمیں کسی کی پروا نہیں، خاموش تماشائی نہیں بنیں گے۔

جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جے آئی ٹی نے آئی بی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہراساں کرتے ہیں،اب بتانا ہو گا کہ آئی بی کا کام اور مینڈیٹ کیا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی بی کو کس نے اختیار دیا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کے فیملی والوں کو ہراساں کیا جائے؟آئی بی کو یہ اختیار کس قانون کے تحت ملا کہ مانیٹرنگ اور ڈیٹا اکٹھا کرے؟ آئی بی نے کس اتھارٹی کے تحت تحقیقات کیں؟ آئی بی کس اختیار کے تحت ہرمعاملے میں ناک پھنسا رہی ہے؟

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آئی بی سے کاغذ نکلتا ہے اور ایک پرائیویٹ آدمی کے پاس جاتا ہے، آئی بی نے اعتراف جرم کرلیا ہے،آئی بی کا کام ریاست کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ کسی کی ذات کے لیے، اٹارنی جنرل صاحب! یہ ہو کیا رہا ہے، کیا آپ سمجھائیں گے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کس اعتماد کے ساتھ آئی بی کی دستاویز عدالت میں درخواست کے ساتھ لگائی گئی، پہلے اس ذریعے کو پکڑیں گے جس نے درخواست گزار کو مواد دیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ا س معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے، ڈی جی آئی بی کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے، ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کر سکتا ہے۔

جسٹس عظمت سعید بولے کہ کیا آئی بی کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گا؟

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی ادھر اُدھر دیکھے بغیر اپنا کام جاری رکھے، عدالت کا اختیار سماعت میڈیا سے ریگولیٹ نہیں ہوتا ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نےاٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ اپنے لوگوں سے کہیں وہ اپنی حد میں رہیں ، حکومت کے 8مختلف لوگ مختلف چینلزپر جاکر جے آئی ٹی پر اعتراض کرتے ہیں، ہم نوٹ کررہے ہیں، مناسب فیصلہ جاری کریں گے، ہمارا کام بلاامتیاز قانون کی حکمرانی ہے۔

سپریم کورٹ نے ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کر تے ہوئے حکم دیا کہ ڈی جی خود اس معاملے کو دیکھیں اور عمل درآمد رپورٹ دیں۔ کیس کی مزید سماعت 20 جون کو ہو گی ۔

تازہ ترین