• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’وہ شیر ہی نہیں، شیردل بھی ہے‘‘ مریم نواز کی اس ٹویٹ کو معصومانہ، بچگانہ اور دخترانہ سمجھ کر نظرانداز کردیا جائے تو بہتر ہے ورنہ کامن سینس کی بات ہے کہ جو شیر ہوگا، شیردل بھی ضرور ہوگا۔ ویسے یہ انسانی حرکت مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ اپنے ہیروز کو ڈی موٹ کرکے اشرف المخلوقات سے درندہ کیوں بنا دیتے ہیں؟ اور یہ رواج ہم تک ہی محدود نہیں بلکہ گور ے بھی یہ جھک مارتے ہیں۔کمال یہ ہےکہ شیر بھی دراصل ’’شیر‘‘نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی جنگلی بھینسا بھی اس کے سامنے ڈٹ جائے یا کسی لگڑبگڑ کا میٹر پھر جائے تو شیر بکری بننے میں دیر نہیں کرتا۔ میں نے اس طرح کے مناظر ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ پر دیکھے ہیں، غلط ہوں تو مہربانی فرما کر تصحیح کردی جائے۔اب چلتے ہیں باقاعد ہ اور پوری ن لیگی قیادت کی طرف جسے میں ’’جگاڑیئے‘‘ لکھا کرتا ہوں۔ ان کے تازہ ترین جگاڑ کا بھی جواب نہیں۔ چند روز پہلے حکومت نے بڑے دھوم دھڑکے سے فلم انڈسٹری کو باقاعدہ انڈسٹری کا سٹیٹس دینے کی خوشخبری سنائی تو معصوم فنکاروں، تکنیک کاروںنے جی بھر کے داد دی اور جشن منایا۔ مجھے بھی خوشی ہوئی کہ چلو مردہ نیم مردہ فلم انڈسٹری میں جان پڑجائے گی کیونکہ میں جب بھی فلمی صنعت سے وابستہ سینئر لوگوں کی بیروزگاری اور کسمپرسی کی خبریں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ شوبز کے شہسوار اور اپنی قسم کے واحد کالم نگار برادر عزیز طاہر سرور میر نے دو تین بار کچھ بزر گ فنکاروں کے حالات بتائے تو میں نےکہا ’’کوئی اور کرے نہ کرے ہم ضرور کچھ کریں گے،‘‘ لیکن نوبت نہیں آئی کہ طاہر سرور میر ’’خبرناک‘‘ کا ناک نقشہ بنانے سنوارنے میں مصروف سے زیادہ مصروف ہوگئے..... بہرحال حکومت کے اس تازہ ترین جگاڑ کو معروف فلم پروڈیوسر سہیل خان نے یہ کہتے ہوئے پوری طرح ایکسپوزکردیا ہے کہ فلم انڈسٹری کو صنعت کا درجہ تو 25سال پہلے ہی دیدیا گیاتھا اور میرے پاس اس نوٹیفکیشن کی کاپی بھی موجود ہے۔ یہ تو حال ہےاس حکومت کی لاعلمی اور بے خبری کا کہ جوش کریڈٹ میں ہوچکے کام دوبارہ کرکے اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ان کی ہر منطق ہی نرالی ہوتی ہے۔ ہر دلیل دو نمبر مثلاً یہ کہنا کہ پاناما کیس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں اور ایک کاروباری خاندان کا نجی کاروباری معاملہ ہے ورنہ نہ کوئی کرپشن نہ کک بیک نہ کمیشن تو حضور! یہی تو رونا ہے کہ اس سطح پر کمیشن، کک بیک، کرپشن وغیرہ براہ راست ’’ثبوت‘‘ نہیں چھوڑتے اس لئے ایسے معاملات میں جانی پہچانی آن ریکارڈ آمدنی کو اثاثوں کے ساتھ موازنہ کرکے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں جنہیں مہذب دنیا میں چیلنج کرنا ممکن نہیں۔ سیدھے سادے دو سوال پوچھتے پوچھتے لوگوں کی زبانیں گھس گئیں.....جواب ندارد، ڈھاک کے تین پات، آئیں بائیں شائیں یا نسخہ ٔ قطریہ۔سوال بہت سادہ ہیں کہ اربوں کی جائیدادیں خریدنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟ جائز تھا تو ٹیکس ادا ہوا تو اس کا ثبوت دے دیں۔دوسرا یہ کہ آپ کی وہ دولت جو سیاحت کی بہت شوقین ہے بغیر کسی ’’پاسپورٹ‘‘‘ اور ’’ویزے‘‘ کے ملکوں ملکوں کیسے گھومتی پھری؟ ’’اتنی سی بات ہے جسے افسانہ کردیا‘‘اور افسانہ نگار بھی کوئی اور نہیں ’’بقلم خود‘‘ہیں۔ کوئی بھی نارمل اور نیوٹرل آدمی اس پر نہ چوں چراں کرے گا نہ اعتراض اٹھائے گا، سوائے طفیلیوں اور بینی فیشریز کے جن کے مالیاتی و مراعاتی مفادات ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ چھوٹی موٹی دیہاڑیوں سے لے کرمعقول ’’دیہاڑوں‘‘ اور رسیلی راشی تعیناتیوں والے باضمیروں تک کوئی ایک دو چاربتائیں جن کا دانہ دنکا بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے ساتھ وابستہ نہ ہو یا یوں کہہ لیجئے ان کے سیاسی حکومتی سروائیول کے ساتھ ایلفی سے جڑا ہوانہ ہو۔ انہیں کسی کے ’’ریوڑوں‘‘ کی قطعاً پرواہ نہیں، اپنی ہڈیوں چھیچھڑوں کی فکر ہے۔ یہ نواز شریف کی نہیں اپنی اپنی جنگ لڑ رہےہیں۔ فرض کرلیں نواز شریف کا سیاسی کیریئر کریش ہو جاتا ہے، ان کے عیش کدھر جائیں گے؟ چند مستثنیات کو چھوڑ کر یہ وفاداری نہیں دکانداری ہے۔ کوئی باہوش، باشعور، باضمیر کسی ایسے شخص کو اپنا لیڈر کیسے مان سکتا ہے جو ’’پرچیاں‘‘ پڑھے بغیر اپنا مافی الضمیر بھی بیان نہ کرسکے۔کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ اخبارات پہنچ گئے جن میں شہباز شریف کی پیشی پیش پیش تھی۔ ’’بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘ فرماتے ہیں 5ویں بار احتساب ہو رہا ہے۔ ان کا پہلا احتساب، احتساب نہیں بھٹو کی نیشنلائزیشن کی وہ پالیسی تھی جس کی لپیٹ میں جننگ فیکٹریاں اور آٹے کی ملوں جیسے معمولی یونٹ بھی شامل تھے کہ اس زمانے میں نیشنلائزیشن گلوبل فیشن تھا۔ اسے ’’احتساب‘‘کہنا جھوٹ ہے یا جہالت کیونکہ اس کی زد میں لاتعداد لوگ آئے۔ متاثرین میں یہ بھی شامل تھے جنہیں جنرل ضیا الحق نے سب کچھ واپس ’’دان‘‘ کردیا۔ رہ گیا بینظیر بھٹو والا دو بار احتساب تو وہ گھٹیا قسم کی سیاسی چھیڑچھاڑ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا جس میں میاں شریف مرحوم کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جو یقیناً شرمناک تھی لیکن کوئی ہوشمند آدمی اسے احتساب نہیں کہہ سکتا۔ پرویز مشرف کے پر سعودی بادشاہ سلامت نے کاٹ کر رکھ دیئے کہ انہیں انکار کرنا محال ہی نہیں ناممکن تھا خصوصاً جب سپرپاور کا بل کلنٹن جیسا صدر اصل سفارشی ہو کیونکہ طاقتوروں کی خواہشات اور معروضات بھی کمزوروں کے لئے حکم کا سا درجہ رکھتی ہیں۔ پرویز مشرف کا ذاتی فائدہ یہ تھا کہ چلو اس بہانے ان سے بھی آٹھ دس سال جان چھٹی رہے گی۔سچ پوچھیں کہ مجھے تو حالیہ احتساب پر بھی چند سوالیہ نشان دکھائی دیتے ہیں لیکن ہے یہ بہرحال احتساب ہی جسے کڑا بھی کہا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں ’’ہم پر ہی فوکس کیوں؟‘‘ تو کلیہ قاعدہ ہی یہ ہے کہ جتنا بڑا آدمی، اتنا کڑا احتساب۔ ایک ملین ڈالر سوال اور بھی ہے کہ سات بھائی مل کر کاروبار کرتے ہیں،ایک جیسا کاروباری سٹیٹس ہے۔ پھرایک بھائی کے بچے کاروبار ِسیاست میں قدم رکھتے ہی باقی سب ک میلوں پیچھے چھوڑ کر دولت کے سارے سائونڈ بیریئرز توڑ دیتے ہیں تو وجہ؟اور اگر چاربار احتساب والا مفروضہ یا تھیوری مان بھی لی جائے تو بندہ سوچتا ہے کہ اگرچاربار سرخرو ہوئے تو اب کیوں نہ ہوں گے؟..... اگر ہوںگے۔ سچ یہ کہ جو کچھ ہو رہا ہے، پہلی بار ہورہا ہے۔ اسی لئے تو چیخ و پکار رکنے تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔دیکھا ہے پہلی بار....ساجن کی آنکھوں میں ’’پیار‘‘

 

.

تازہ ترین