• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کا تجربہ اور کتابوں کا مطالعہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ جب تک قومی سطح کے احتسابی ادارے نہایت مضبوط اورآزاد نہ ہوں صحیح معنوں میں نہ احتساب ہوسکتا ہے اورنہ ہی کرپشن کو لگام دی جاسکتی ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ احتسابی اداروں کو آئین میں قوت، آزادی اور سیکورٹی مہیا کرنے کے علاوہ ان کے سربراہان کی تقرری کا طریقہ کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ حکومت کو اپنے وفادار مقرر کرنے کا موقع نہ ملے اور ان اداروں میں تمام تقرریاں ملکی سطح پر میرٹ کو بنیاد بنا کر کی جائیں۔ میرٹ سے مراد صرف قابلیت ہی نہیں بلک دیانت اور کردار ان تقرریوں کے بنیادی ستون ہونے چاہئیں۔ مایوسی میرے مزاج کے خلاف ہے لیکن اگرزمینی حقائق ہی مایوس کن ہوں تو پھر اس کا کیا علاج ہے چارہ گرو۔ چھوٹے بڑے سرکاری ملازمین اور دیگر حضرات نیب کے ہتھے چڑھتے رہتے ہیں جن میں کچھ پلی بارگین کر کے دولت کا معتدبہ حصہ بچا لیتے ہیں اور کچھ وزارت حج کے اسکینڈل کی مانند عدالتوں سے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے موٹے بزنس مین بھی نیب سے پلی بارگین کرنے کی بجائے جیل جاناپسند کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ قابل وکلا کی خدمات حاصل کر کے ایک دن عدالت سے چھوٹ جائیں گے۔
آج کل احتسابی عمل کے حوالےسے تاریخ رقم کرنے کا بڑا چرچا ہے۔ سیاسی کارکن گلے پھاڑ پھاڑ کر تاریخ رقم کررہے ہیں اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ درمیانے درجے کے سرکاری افسران پر مشتمل جے آئی ٹی کےسامنے پیش ہو کر تاریخ رقم کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی سرکاری حیثیت کے حوالے سے جے آئی ٹی کے افسران حکمرانوں کے ماتحت شمار ہوتے ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اور وزیراعلیٰ صاحب نے جے آئی ٹی کے سوالات کا جواب کیا دیا ہوگا؟ وضاحت کی حمایت میں کیا ڈاکیومنٹ یا ثبوت دیا ہوگا؟ اگر کبھی جے آئی ٹی کی ریکارڈنگ سامنے آئی یعنی پبلک ہوئی جو بہرحال انشاء اللہ ایک دن ہوگی تو راز کھلے گا کہ دونوں حکمرانوں نے جے آئی ٹی کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے جے آئی ٹی کو سوالات کے کٹہرے میں بٹھائے رکھا اور جے آئی ٹی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ اس سلسلے کو روک سکتی۔
تاریخ کے رقم ہونے کا کیا ہے کہ ہمارے ہاں ہر ہفتے تاریخ رقم ہوتی ہے۔ آج کل یہ رفتار ذرا تیز ہوگئی ہے کیونکہ انتخابی سال دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ مشرف کے لاتعداد وفادار، جانثار، اس کی رخصتی اور زوال پر آنسو بہانے والے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو کر آج کل دن رات سڑکوں پر گلے پھاڑ رہے ہیں۔ کیا یہ تاریخ رقم نہیں ہورہی؟ باقی ماندہ عمران کی انقلابی کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا یہ تاریخ نہیں رقم ہورہی۔ پی پی پی کے دہائیوں تک آزمائے ہوئے بھٹو کے جانثار اپنی جانثاری کو عمران خان کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ کیا یہ تاریخ رقم نہیں ہورہی۔ سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلنے پر کئی جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی جاسکتی ہے کیونکہ اس کے لئے مواد کے سڑکوں گلیوں میں ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ پھر یہ لوگ وفاداریاں بدل کر، اپنی قیمت لگوا کر اور اپنے سیاسی کردار کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے انتخابات بھی جیت جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے عوام بھی وفاداری بدلنا جرم نہیں سمجھتے۔ اگر آپ تاریخ رقم کرنے کی بات کریں تو وہ یہ ہے کہ جتنی تعداد میں پاکستان میں وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی اور اب وفاداری نے اپنا مفہوم اس قدر کھو دیا ہے کہ عوام بھی اس کا برا نہیں مناتے اور نہ ہی ووٹ کی طاقت سے امیدوار کا احتساب کرتے ہیں۔ جس ملک میںقومی احتسابی ادارے کا سربراہ عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ میں حاضر ہو کر کسی مخصوص کیس میں احتساب کرنے سے انکار کردے اس ملک میں احتساب کیا ہوگا؟ سیاسی حوالے سے احتساب کا سب سے طاقتور ذریعہ عوام ہیں۔ اگر عوام ووٹ کے ذریعے سیاسی بے وفائوں یا کرپٹ عناصر کو مسترد کرنا شروع کردیں تو نہ صرف سیاسی کارکن محتاط ہو جائیں گے بلکہ پارٹیاں بھی وفاداریاں بدلنے کی حوصلہ شکنی شروع کردیں گی۔ سچ پوچھیں تو یہی ایک امید کی آخری کرن ہے ورنہ سرکاری احتسابی ادارے ناکارہ اور سیاست زدہ ہو چکے ہیں، ان سے امید عبث۔ آنے والے انتخابات ظاہر کریں گے کہ کیا لوگ کرپٹ، بدنام اور بے کردار لوگوں کو منتخب کرتے ہیں؟ کیا صدیوں پرانی الکیٹ ایبل (Electable) یعنی بااثر حضرات کی تھیوری اب بھی (Relevant) موثر ہے یا اپنی افادیت کھو چکی ہے؟ صادق و امین کا معیار آئین میں سجایا گیا ہے۔ کیا لوگ ووٹ دیتے ہوئے صادق و امین کے تصور کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ تاریخی طور پر سیاسی وفاداریوں کے بدلنے کا عذر خود ہمارے سیاستدانوں کا کرشمہ ہے اور انہوں نے اسے پروموٹ کیا۔ یادش بخیر۔ قیام پاکستان سے قبل لاہور کے ڈاکٹر عالم نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر سیاسی وفاداری بدلی تو لاہوریوں نے احتجاج کے طور پر اس کے گھر کے سامنے لوٹوں (LOTA)کے ڈھیر لگا دیے۔ اس پہ اس قدر سماجی دبائو پڑا کہ ڈاکٹر عالم برداشت نہ کرسکا۔ ہمارے ملک میں وفاداریاں بدلنے کے کلچر کو خود سیاستدانوں نے فروغ دیا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وفاداری بدل کر آنے والے بہتر درباری، فنکار، خوشامدی اور گلے پھاڑ وفادار ثابت ہوتے ہیں جس سے سیاسی لیڈروں کی انا کو تسکین ملتی ہے اور ان کے تکبر کو اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ پاناما کیس میں احتساب ہوگا یا نہیں، تاریخ رقم ہوگی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن ایک بات نمایاں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے حکمرانوں کے احتساب نے قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ حتیٰ کہ لکھاری، کالم نگار، دانشور اور صحافی بھی واضح طور پر دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور کچھ لکھاری تو بقول شخصے فنافی النوازشریف ہو چکے ہیں یعنی انہوں نے اپنی ذات کو میاں صاحب کی ذات میں فنا کردیا ہے۔خدا جانے یہ گھاٹے کا سودا ہے یا منافع کا لیکن جس ملک میں وفاداریاں سایے کی مانند بدلتی ہیں وہاں اس صورت حال کا کیا اعتبار اور کیسا ماتم۔ مختصر یہ کہ ہماری تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ مصلحتوں کے اسیر فوجی حکمران اور ہر قسم کی کرپشن کے’’فقیر‘‘ (بروزن بھکاری) پاکستان میں کبھی بھی احتسابی اداروں کو آئینی طور پر خودمختار اور طاقتور نہیں بنائیں گے اس لئے احتساب کی آخری امید عوام ہیں جن تک میڈیا شعور کی لہر تو پہنچا چکا ہے لیکن ان کو ذہنی غلامی سے بھی آزاد کروانے میں کامیابی ہوا ہے یا نہیں، اس کا جواب انتخابات میں ملے گا۔ ذہنی غلامی سے مراد برادری ازم، تھانے کچہری کی سیاست، ووٹوں کی خرید و فروخت، قبائلی تعصب، سردار، جاگیردار، یابااثر کا خوف وغیرہ ہے۔ فی الحال تھوڑے کو بہت سمجھیں۔ باقی پھر ان شاء اللہ۔

 

.

تازہ ترین