• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل ایک خبر شائع ہوئی کہ2018ءکے بعد کالجوںمیں ایم اے /ایم ایس سی کی کلاسیں ختم کردی جائیں گی۔ یعنی ایم اے اور ایم ایس سی کے لئے آخری داخلہ2018ءمیں ہوگا اور یہ طالب علم2020ءمیں فائنل امتحان دینگے۔ اس طرح کالجوں سے بی اے/ بی ایس سی کو بھی ختم کرکے بی ایس آنرز کا چار سالہ کورس شروع کیا جائیگا۔ اس وقت پنجاب کے تیس سے زائد کالجوں میں بی ایس آنرز چار سالہ ڈگری کورس جاری ہے جبکہ 53کالجوں کو بی ا یس سی آنرز کی کلاسیں شروع کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔
آئیے حکومت کے اس نمائشی فروغ تعلیم پروگرام کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کی اکثریت نے کالجوں کی شکل بھی نہیں دیکھی اور جس کسی نے بھی بھولے سے کالج کی شکل دیکھی وہ کوئی قابل ذکر اور لائق اسٹوڈنٹ نہیں رہا بلکہ ایک وفاقی وزیر کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے کالج کے ایک ا ستاد کو تھپڑ مارا تھا جس پر اسے اس کالج سے باہر کردیا گیا تھا۔
حکمرانوں کی اکثریت ایف اے اور بی اے ہے بلکہ بعض تو میٹرک بھی نہیں لہٰذا جس ملک میں حکومت کرنے والے تاجر ہوں اور ان کی تعلیمی قابلیت کوئی قابل فخر نہ ہو تو وہ بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ہی کھیلیں گے اگر کوئی ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے لگے تو وہ اسکالر یا ماہر تعلیم نہیں بن جاتا۔کسی انتہائی پرلے درجے کے بےوقوف نے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ بی اے اور ایم اے ختم کردیا جائے اور امریکن سسٹم یعنی سولہ یا سترہ برس پر محیط نظام تعلیم لایا جائے۔
بی ایس آنرز چار سالہ ڈگری کورس کسی صورت پرائیویٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ سمسٹر سٹم ہے، ہمارے ملک میں لاکھوں ایسے بچے اور بچیاں ہیں جو محنت مزدوری کرکے اپنی گزر اوقات کرتے ہیں پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے پچھلے آٹھ برسوں میں کئی ہونہار اسٹوڈنٹس کو جو اسکالر شپ اور نقد انعامات دئیے اس میں بے شمار ایسے اسٹوڈنٹس تھے جنہوں نے ایف اے اور بی اے میں اول، دو ئم اور سوئم پوزیشنیں حاصل کیں۔ ان میں کوئی مزدوری کرتا تھا تو کوئی رکشہ چلاتا تھا تاکہ وہ گھر کا خرچ چلا سکے۔جب کبھی وزیر اعلیٰ نے ایسے اسٹوڈنٹس کو تقریبات میں بلایا تو بچوںاوران کے والدین کاخود ہال میں شریک مہمانوں کے ساتھ کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ اب یہی حکومت تعلیم دشمن پالیسی پر گامزن ہورہی ہے اور اس نئے طریقہ کار کے نتیجے میںکوئی اسٹوڈنٹ پرائیویٹ طور پربی اے اور ایم اے نہیں کرسکے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ پرائیویٹ کالج کے مافیا کو سپورٹ کررہے ہیں، کیونکہ حکومت کے کالجوں میں بی ایس چار سالہ ڈگری اور ایم فل کرانے کی سہولتیں اوراسٹاف نہیں ہے۔کتنی دلچسپ اور تکلیف دہ حقیقت ہے کہ بی ایس آنرز کو وہ اسٹاف پڑھا رہا ہے جس نے کبھی سمیسٹر سسٹم میں خود تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ سمیسٹر سسٹم کے تقاضوں سے بالکل ناآشنا ہے۔ ان کی کوئی تربیت نہیں ایک طرف آپ غریبوں کے لئے ان کی تعلیمی قابلیت بڑھانے کے دروازے بند کررہے ہیں تو دوسری طرف آپ کے پاس معیاری درسگاہیں اساتذہ نہیں، لیبارٹریاں نہیںاورلائبریریاں نہیں،سونے پہ سہاگہ کہ تعلیمی اخراجات بھی ناقابل برداشت کردیئے گئے ہیں۔یعنی آپ نے غریب اسٹوڈنٹس کے لئے تعلیم کے دروازے بند کرنے کا پورا پورا بندوست کردیا ہے۔ ایک اور مذاق ملاحظہ فرمائیں وفاقی ایچ ای سی یعنی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کہنا ہے کہ بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام ہونا چاہئے۔ دوسری طرف پنجاب ایچ ای سی (ویسے تو اب سندھ اور کے پی میں بھی ایچ ای سی بن گیا ہے) کا کہنا ہے کہ بی ایس پروگرام دو سالہ ہونا چاہئے اس وقت پنجاب کے تیس کالجوں میں فیڈرل ایچ ای سی کا نظام چل رہا ہے جبکہ پنجاب کے چھ کالجوں میں پنجاب ایچ ای سی کا نظام چل رہا ہے، اسٹوڈنٹس کے ساتھ اس سے بڑا اور بھیانک مذاق کیا ہوگا؟
فیڈرل ایچ ای سی کچھ کہتی ہے اور پنجاب ایچ ای سی کچھ کہتی ہے، دوسری طرف ہر سال ایک لاکھ پرائیویٹ اسٹوڈنٹس بی اے کا امتحان دیتے ہیں، آہستہ آہستہ ان پر پرائیویٹ امتحان دینےوالوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ ہمارے ملک میں آج بھی بہت سے ایسے گھرانے ہیں جو آج بھی اپنی لڑکیوں کو کالجوں میں نہیں بھیجنا چاہتے، کچھ وسائل کی کمی، کچھ آج بھی فرسودہ سوچ رکھتے ہیں،کچھ کے گھر وںمیں ایسا انتظام نہیں کہ لڑکیوں کو کالج لایا اور لے جایا جائے،ایسی بچیاں گھر بیٹھے پرائیویٹ بی اے/ ایم اے کرکےاپنی تعلیم جاری رکھتی ہیں، پھر آپ کے علم بھی ہونا چاہئے کہ ویگن والے ماہانہ دو سے تین ہزار فی بچہ لیتے ہیں جس ملک میں مزدور کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ ہو، وہ کیا اپنے بچوں کو پڑھاسکے گا؟
محترم اسحاق ڈار کیا پندرہ ہزار روپے ماہانہ میں آپ گھر کے چار افراد کا بجٹ بناسکتے ہیں؟ تعلیم کی بات تو چھوڑیں تعلیم حاصل کرنا اب غریب کے لئے قصہ پارینہ بن جائے گا جن ممالک میں شدیدغربت ہو وہاں ایسے ڈگری کورس شروع کئے جاتے ہیں جو کم عرصہ پر محیط ہوتے ہیںتاکہ غریب جلد اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔
جس عقل مند نے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ پرائیویٹ بی اے/ ایم اے ختم کردیا جائے اس سے کوئی یہ تو پوچھے کہ جو ملازمت پیشہ غریب اسٹوڈنٹس، ٹیوشن پڑھا کر اپنے گھر اور تعلیم کا خرچ چلا رہے، جب اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانا چاہیں گے تو ان کے لئے کون سا راستہ ہوگا؟ وہ کس طرح آئندہ بی اے اور ایم اے کرسکیں گے؟
دنیا کے کئی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہمارے ہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کیلئے عمر کی حد مقرر ہے، ایک اور دلچسپ صورتحال ملاحظہ فرمائیں کئی کالجوں میں بی ایس آنرز چار سالہ ڈگری پروگرام بھی چل رہا ہے اور بی اے/ بی ایس سی دو سالہ ڈگری کورس اور ایم ا ے / ایم ایس سی اور ایم فل بھی چل رہا ہے، پی ایچ ڈی اور ایم فل بغیر داخلے کے کوئی نہیں کرسکتا۔
ہمارے ملک میں لاکھوں ایسے افراد ہیں جنہوں نے دوران ملازمت مزدوری کرکے بی اے اور ایم اے کیا ہے اور آج اپنے پائوں پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف حکومت روزگار نہیں دے سکتی تو دوسری طرف غریبوں کے لئے تعلیم کے دروازے بھی بند کررہی ہے، کبھی ان بیوروکریٹس نے سوچا کہ انہوں نے خود تعلیم ٹاٹ کے اسکولوں میں حاصل کی اورآج وہ بڑے بڑے عہدوں پر آگئے، اگر ان کے لئے یہ شرط ہوتی کہ مقابلے کے امتحان میں صرف انگلش میڈیم اسکولوں اور کالجوں کے ریگولر اسٹوڈنٹس شریک ہوسکتے ہیں تو کیا و ہ آج سی ایس ایس کرپاتے؟ ا ور آج اپنے بچوں کو امریکہ، کینیڈا ا ور دیگر ممالک میں تعلیم دلا سکتے۔دنیا بھر میں فاصلاتی نظام تعلیم بھی متعارف کرایاجارہا ہے تاکہ لوگ گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرسکیں۔
ہم نے خود دیکھا کہ سیکریٹریٹ میں کام کرنیوالے بے شمار ممبر حضرات نے اپنی تعلیمی قابلیت پرائیویٹ امتحانات دے کر بڑھائی ہے اور آج وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔
اگر آپ کو امریکہ کا نظام تعلیم اپنانا ہے تو اس کے لئے پہلے انفراسٹرکچر بنایا جائے۔ لائبریر ی، لیباریٹری، اسٹاف اساتذہ کی تربیت، کورسز کا تعین کیا جائے۔ دوسرے پاکستان جیسے غریب ملک میں کبھی بھی بی اےاور ایم اے پرائیویٹ بند نہیں کرنا چاہئے۔ ہر سال پنجاب یونیورسٹی میں ایک لاکھ اسٹوڈنٹس بی اے کا پرائیویٹ امتحان دیتے ہیں، تو سوچیں ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہوگی۔

 

.

تازہ ترین