• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر نے کہا تھا کہ
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
یہ بات کرنے کی کوشش لاہور کی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آئی سی یو وارڈ یعنی انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے کر رہا ہوں جہاں مجھے حالیہ سالوں میں تقریباً ایک ماہ کے برابر عرصے تک داخل ہونا پڑا۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں رہنے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان کی انتہائی نگہداشت دنیا کے دوسرے ملکوں سے بہت مختلف ہے۔ عام طور پر انسٹیٹیوٹ کے دیگر حصوں اور شعبوں میں بھیڑ، ہنگامہ، بحث مباحثہ کم اور انتہائی نگہدڈاشت کے یونٹ میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ حالیہ سالوں میں کارڈیالوجی کے انسٹیٹیوٹ میں خاصی ترقی کی گئی ہے اور امراض دل کے مریضوں کو سکون خاموشی اور آرام مہیا کرنے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔ یہاں تک اس یونٹ میں تیمارداروں کے کام کرنے والی کرسیاں اور دیگر نشستوں کو غائب کر دیا گیا ہے۔ مگر حالات میں کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ مریضان اور تیمارداروں میں قومی سیاست، ملکی حالات، لوڈشیڈنگ اور دیگر معاملات میں حسب سابق بحث مباحثہ چل رہا ، کوئی پیر صاحب اپنی بزرگی اور مہارت کے واقعات سنا رہے ہیں۔ کوئی صاحب اپنے رشتے داروں کی عدم توجہ کی شکایت کر رہے ہیں۔ بہت زیادہ محتاط خاموش اور مریضوں کی مدد میں مصروف نرسوں کی کوشش کے باوجود انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تیمارداروں کی بھیڑ کم نہیں ہو رہی۔ معاشرے میں چلنے والے رواج نرسوں کی کوشش پر حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ ڈاکٹر کے رائونڈ سے چند لمحے پہلے تیمارداروں کو یونٹ سے باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو کسی حد تک کامیاب ضرور ہوتی ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کے رائونڈ کے بعد دوبارہ تیمارداروں کا رش لگ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شور، ہنگامہ انتہائی نگہداشت کے تقاضوں میں شامل ہے۔ماہ رمضان اپنے دو عشرے گزار کر تیسرے عشرے کو عبور کر رہا ہے۔ خوف آتا تھا کہ موسم کی شدید گرمی میں سترہ گھنٹوں کا روزہ کیسے برداشت کیا جائے گا۔ مگر روزہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ طویل سے طویل اور گرم سے گرم رمضان برداشت کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں پیاس اور بھوک کو برداشت کرنے کا مادہ سب سے زیادہ نوجوانوں اور نو عمر بچوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہ رمضان کے دوران پاکستان میں ایوان اقتدار کے حاکموں اور سیاست دانوں کی کرپشن یا بددیانتی کی آزمائش بھی جاری ہے۔ حکومت کے مخالفین کو یقین ہے کہ سیاست کے حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ جبکہ اقتدار کے مزے لوٹنے والوں میں یہ یقین چل رہا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔کرکٹ کے چمپئن قرار پانے والی ٹیموں کے مقابلوں میں پاکستان کے شاہینوں کی کامیابی نے ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کو عالمی اعزاز تک کی رسائی کا موقع ملا ہے جبکہ کرکٹ کا پاکستان کھیل بھی دہشت گردوں کی زد میں آ چکا تھا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کی چہل پہل واپس آ جائے گی۔

 

.

تازہ ترین