• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتی ادارے حد میں رہیں، سپریم کورٹ، ناخوشگوار حکم دینے پر مجبور نہ کریں، سیکورٹی کمیشن ریکارڈ میں تبدیلی، تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ نے کہاہے کہ حکومتی ادارے حدمیں رہیں، جے آئی ٹی کوہراساں کرنا بند کیا جائے ورنہ انتہائی ناخوشگوارحکم دینے پرمجبورہوجائیں گے.

ایس ای سی پی کیخلاف سنگین الزامات ہیں،خاموش تماشائی نہیں بنیں گے،عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کی ایک متفرق درخواست کی سماعت کے دوران ایس ای سی پی پر سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کے الزامات کا معاملہ ڈی جی ایف آئی اے کو بھجواتے ہوئے انہیں اسکی تحقیقات کرکے عدالت میں پیشرفت رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی ہے جبکہ جے آئی ٹی کے رکن عرفان منگی اور انکے خاندان کو ہراساں کرنے جیسے معاملات پر ڈی جی انٹیلی جنس بیورو کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کو عدالت کی معاونت کرنے کا حکم جاری کیا ہے،جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میڈیا اور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں،ہمیں کوئی کچھ بھی کہتا رہے کسی کا ڈر نہیں،8 لوگ مختلف چینلوں سے جے آئی ٹی پر حملے کررہے ہیں.

عدالت میں آنے سے پہلے ہی ہر چیز میڈیا پر چل جاتی ہے،ہم نوٹ کررہے ہیں، مناسب فیصلہ جاری کرینگے،جے آئی ٹی ادھر ادھر کی چیزوں کی بجائے اپنے کام پر توجہ دیتے ہوئے مقررہ مدت کے اندر تحقیقات کو مکمل کرے، آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ،خاموش تماشائی نہیں بنیں گے ، جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی پر ریکارڈ ٹمپرنگ کا الزام لگایا،  ہم سمجھ رہے تھے کہ آپ نے بطور اٹارنی جنرل کوئی ایکشن لیا ہوگا.

لیکن آپ نے سیدھا کہہ دیا الزامات غلط ہیں، آپ کو کسی کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آئی بی نے اعتراف جرم کرلیا، بتایا جائے کس قانون کے تحت معلومات پرائیوٹ افراد کو دے رہی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئی بی ہر معاملہ میں کیوں ٹانگ پھنسا رہی ہے ؟

تمام حکومتی ادارے جے آئی ٹی کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کریں ورنہ حکم بھی جاری کر سکتے ہیں، دوسری جانب اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آئی بی کو شہریوںکی جاسوسی کرنے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی عملدرآمد بینچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی تو پی ٹی آئی کے وکیل فواد چوہدری پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی کچھ باتیں لیک ہو رہی ہیں۔

انہوں نے ایک انگلش اخبار لہراتے ہوئے کہا کہ آج اس اخبار نے تو جے آئی ٹی پر فیصلہ بھی سنا دیا ہے۔ انہوں نے عدالت سے اس اخبار کو ریکارڈ کا حصہ بنا نے کی استدعا کی توجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ میں نے بھی اخبار میں خبر پڑھی ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے یہ عالمی عدالت انصاف ( آئی سی جے) کا فیصلہ ہے ، لیکن ہمیں ایسی خبروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ اس خبر سے عوام میں غلط تاثرجا رہا ہے،جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ حوالے سے مناسب حکم جاری کرینگے، صرف مخصوص چیزیںہی نہیں اب تو ہر چیز ہی لیک ہو رہی ہے ،ہم نے تمام چیزوں پر نظر رکھی ہو ئی ہے، جے آئی ٹی نے بھی خصوصی چیزیں لیک ہونے کی شکایت کی ہے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ چیئرمین ایس ای سی پی نے علی عظیم اکرام کا نام جے آئی ٹی کیلئے نامزد کرکے تحقیقات کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ایس ای سی پی کے چیئرمین نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے، جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تو ایس ای سی پی پر ریکارڈ میں ردو بدل کا الزام بھی لگایا ہے ،کیا یہ جرم نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹمپرنگ کرنا قانونی جرم ہے۔

جسٹس شیخ عظمت نے ان سے استفسار کیا کہ اس پر تحقیقات اور کارروائی کون سا ادارہ کریگا؟بڑے عہدے پر بیٹھے ہوئے ایک شخص پر سنگین الزامات لگے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ قومی میڈیا پر اس کیس کے حوالے سےمنظم مہم چل رہی ہے، لیکن ہمیں کسی کا کوئی ڈر نہیں، آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہمیں کسی کی پرواہ نہیں، چیئرمین ایس ای سی پی پر بہت سنگین الزمات لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے الفاظ کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ہم نے سوچا تھا کہ آپ اس پر کوئی کارروائی کریں گے ، ہم آپ پر بہت انحصار کرتے ہیں ، آپ نے بادی النظر میں جے آئی ٹی کے ہر الزام کو ہی غلط قرار دے دیا ہے، مسٹر اٹارنی جنرل!ہمیں آپ سے کسی کی طرف داری کی توقع نہیں تھی، جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا ذاتی نہیں ریاستی اداروں کا جواب ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ آپ کا جواب نہیں لیکن ہمیں آپ سے تکلیف پہنچی۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل نے بھی جے آئی ٹی کے الزامات کی تردید کی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ان سے استفسار کیا کہ ان الزام کی تحقیقات کون سا ادارہ کرے گا؟ پولیس یا ایف آئی اے؟ جس پراٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ ایف آئی اے کے دائرہ کار میں آتا ہے ،ریکارڈ میں ٹمپرنگ پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 468 لگتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آئی بی نے تسلیم کیا ہے کہ جے آئی ٹی ممبران کے کوائف اکٹھے کئے گئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کون سا قانون آئی بی کو یہ اختیار دیتا ہے، کس قانون میں آئی بی کو ہراساں کرنے کی اجازت دیتا ہے، یہ ہر معاملہ میں کیوں ٹانگ پھنسا رہی ہے ؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آئی بی کو شہریوںکی جاسوسی کرنے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔

جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ آئی بی کے سربراہ نے اپنے جواب میں خود اعتراف کیا ہے، اسکے معاملے پر تو فوجداری مقدمہ درج ہونا چاہئے، کیا آئی بی کی بھی نجکاری کردی گئی ہے، آئی بی نے غلام رسول سے متعلق نادرا سے معلومات لے کر کس کو دی ہیں، وہ معلومات کس کے ذریعے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں ، اس جرم کی تحقیقات کون کرے گا؟

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس قسم کے جرائم کی تحقیقات ایف آئی اے کے دائرہ کار میں ہی آتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ریاستی اداروں کی غیر جانبداری تو آپ نے دیکھ ہی لی ہے جے آئی ٹی کی تحقیقات کا کیا بنے گا؟

جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آج کل آئی بی کا سربراہ کون ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آفتاب سلطان ڈی جی آئی بی ہیں ، تو جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ وہ تو کنٹریکٹ پر ہیں ، کچھ تو خدا کا خوف کریں، اپنے معاملات کیلئے آئی بی کو استعمال نہ کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھرتیاں نہیں کیں بلکہ جے آئی ٹی تشکیل دی ہے، یہ سیدھا سیدھا حراسیت کا معاملہ ہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کس نے اختیار دیا کہ جے آئی ٹی کے اراکین کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جائے؟ میڈیا پر کئی چیز یں چلنے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کا عدالت کی توجہ نہ دلوانا سائیڈ لینے کے مترادف ہے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تحریری جواب میرا ذاتی نہیں۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ آپکا جواب نہیں لیکن ہم آپ سے کچھ مایوس ہوئے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے ریاستی اداروں کی جانب سے دی جانے والی رپورٹیں اور جوابات جمع کرائے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے آئی بی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہراساں کرتے ہیں،آئی بی نے صرف الزامات کی سیدھے سیدھے تردید کی ہے، اب بتاناہوگاکہ آئی بی کاکام اور مینڈیٹ کیاہے،ڈی جی آئی بی نے ایک شاندار خط بھی لکھا ہے،کیا آئی بی والے ہمارا ڈیٹا بھی جمع کرتے ہیں؟

کیسے مان لوں کہ میرا ڈیٹا جمع نہیں ہوتا اور مانیٹرنگ نہیں ہوتی،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ محض جے آئی ٹی کا الزام ہے ، جس پرجسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کا کام کسی کی طرفداری کرنا نہیں۔

آپ سے مایوسی ہوئی ہے ، تھانوں میں بھی ایف آئی آرز الزامات کی بنیاد پر ہی کٹتی ہیں، آئی بی کا جواب تو بالکل واضح انکار ہے،ان کا جواب تو پڑھیں؟کیا آئی بی ججوں کے کوائف بھی اکٹھے کرتی ہے ؟ ڈی جی آئی بی نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے جے آئی ٹی کے اراکین کے کوائف اکھٹے کیے ہیں، ایک جرم وقوع پزیرہوا ہے،یہان پر ہر چیز کو لیک کا نام دے دیا جاتا ہے،آپ کیا کر رہے ہیں؟ہم سب کو ریاست پاکستان سے مخلص ہونا چاہیے ،ہم کسی کو اداروں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دینگے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آئی بی نے اعتراف جرم کیا ہے؟ آئی بی کاکام ریاست کیلئے ہوناچاہئے نہ کہ کسی کی ذات کیلئے،اٹارنی جنرل صاحب یہ کیا ہورہا ہےکیاآپ سمجھائیں گے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آئی بی ملک و قوم کیلئے کام کرتی ہے یا کسی فرد کی ذات کیلئے؟

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس کی تحقیقات کروائی جائیں گی ،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی جی آئی بی کو صفائی کو موقع ملنا چاہئے،ایسے معاملات میں ایف آئی آر درج ہوتی ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ وفاق کے نمائندہ ہیں وزیر اعظم کے نہیں ، انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ایسے معاملات کی تحقیقات کس ادارہ کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں تو انہوںنے کہا کہ ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں جس پر فاضل جج نے کہا کہ کیا اب ایف آئی اے والے آئی بی والوں سے تحقیقات کریں گے ؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صرف آئی بی ہی نہیں ایس ای سی پی بھی تحقیقات کے راستہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے، آئی بی کوکس قانون کے تحت اختیارملاکہ مانیٹرنگ اورڈیٹا اکٹھا کرے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریما ر کس دیئے کہ آئی بی والے کس اختیار کے تحت ہر معاملے میں ٹانگ اڑا رہے ہیں، ہمارے عدالتی دائرہ اختیارات کو میڈیا یا سیاسی رہنما ریگولیٹ نہیں کر سکتے، کیا اب ہم کسی کے کہنے پر اپنے فیصلے کریں گے؟

تواٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا سوچنے والے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ، جس پرجسٹس اعجازا لاحسن نے کہا کہ پھر اپنے لوگوں سے کہیں کہ وہ اپنی حدود میں رہیں ، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیئرمین نیب نے جے آئی ٹی کے رکن عرفان نعیم منگی کو جاری کیا گیا شو کاز نوٹس کا معاملہ روک دیا ہے، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے اراکین کوہراساں نہ کیا جائے ،آئی بی کو کس نے اختیار دیا کہ جے آئی ٹی ارکان کے گھر والوں کو ہراساں کرے؟۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ میڈیا اور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں،ہمیں کوئی کچھ بھی کہتا رہے ڈرتے نہیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کومخاطب کرتےہوئے کہاکہ آپ نے توسیدھاکہہ دیاکہ بادی النظرمیں الزامات غلط ہیں،ہم سمجھ رہے تھے کہ آپ نےبطوراٹارنی جنرل ایکشن لیاہوگا،اٹارنی جنرل صاحب آپ کاکسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں،آپ کوکسی کی سائیڈ نہیں لینی چاہئے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ جے آئی ٹی ادھراد ھردیکھے بغیر اپنا کام جاری رکھے،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھ سکتے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ زمین پھٹے یا آسمان گرے قانون کے مطابق چلیں گے، حکومت کی جانب سے بہت بڑی مہم چلائی جارہی ہے، 8 لوگ مختلف چینلوں سے جے آئی ٹی پر حملے کررہے ہیں ، عدالت میں آنے سے پہلے ہی ہر چیز میڈیا پر چل جاتی ہے،ہم نوٹ کررہے ہیں، مناسب فیصلہ جاری کرینگے،ہماراکام بلا امتیاز قانون کی حکمرانی ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے سپریم کورٹ کے اعلیٰ افسران کی مدت ملازمت میں توسیع دینے سے متعلق کیس کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا ڈی جی آئی جی آفتاب سلطان کی مدت ملازمت میں توسیع قانون کے مطابق ہوئی ہے ؟جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقت آنے پر اس حوالے سے بھی حکم جاری کریں۔

بعد ازاںعدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کی تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے اس حوالے سے عملدرآمد رپورٹ بھی جمع کروانے کی ہدایت کی جبکہ اٹارنی جنرل کو آئی بی کے معاملہ پرعدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔

تازہ ترین