• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر ہمیشہ منفی تاثر پیدا کیا جاتا ہے اور اکثر عالمی سروے یہ دعوے کرتے ہیں کہ غربت، بیروزگاری، تعلیم اور سماجی شعبے میں پاکستان کا شمار دنیا کے پست ترین ممالک میں ہوتا ہے مگر یہ حقیقت شاید ہی کچھ لوگوں کو معلوم ہو کہ پاکستان کا شمار دنیا میں چیریٹی کرنے والے سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے اور پاکستانی قوم اپنے غریب بھائیوں کی مدد میں جتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، دنیا میں اِس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ حالیہ سروے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 370 ارب روپے صدقات، خیرات، عطیات اور زکوٰۃ کی مد میں مختلف فلاحی و سماجی اداروں، مذہبی تنظیموں، مدارس اور مسجدوں میں دیتے ہیں۔ پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی کے سروے کے مطابق گزشتہ کئی سالوں میں پاکستانیوں کی جانب سے انفرادی سطح پر دی جانے والی زکوٰۃ اور خیرات کی رقم میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے جو 70 ارب روپے سے بڑھ کر 240 ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ عیدالفطر پر زکوٰۃ اور فطرہ کی مد میں 25 ارب روپے جبکہ عیدالاضحی پر قربانی کی کھالوں کی مد میں 75 ارب روپے سے زائد کے عطیات جمع ہوتے ہیں۔
پاکستانی قوم 68 فیصد زکوٰۃ اور خیرات براہ راست غریبوں، فلاحی اداروں اور پیشہ ور بھکاریوں میں تقسیم کرتی ہے جبکہ 32 فیصد مدارس، مساجد اور مدارس میں دیئے جاتے ہیں۔ ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جہاں سے پاکستان کے مجموعی ریونیو کا 68 فیصد حاصل ہوتا ہے، کا شمار چیریٹی کرنے والے شہروں میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ کراچی کے عوام سالانہ 75 ارب روپے چیریٹی کی مد میں دیتے ہیں۔ صوبائی سطح پر صوبہ پنجاب میں سالانہ 113 ارب روپے، سندھ میں 78 ارب روپے، خیبر پختونخوا میں 38 ارب روپے اور بلوچستان میں 10 ارب روپے زکوٰۃ، خیرات اور عطیات کی مد میں دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت ہر سال یکم رمضان المبارک کو بینکوں کے کھاتے داروں کی رقوم سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی کٹوتی کرتی ہے جس سے حکومت کو تقریباً 4 ارب روپے حاصل ہوتے ہیںتاہم حکومت پر اعتماد نہ ہونے کے سبب بیشتر لوگ بینکوں میں رکھی گئی اپنی رقوم زکوٰۃ کی کٹوتی سے بچنے کیلئے رمضان المبارک کی آمد سے کچھ روز قبل ہی نکلوالیتے ہیں یا پھر زکوٰۃ ڈکلیئریشن جمع کروادیتے ہیں تاکہ ان کے اکائونٹس میں موجود رقوم پر زکوٰۃ کی کٹوتی نہ کی جاسکے لیکن اگر رمضان المبارک سے قبل بینکوں سے عوام اپنی رقوم نہ نکلوائیں تو حکومت کو زکوٰۃ کی مد میں تقریباً 110 ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سےحکومت کو زکوٰۃ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے اور غرباء و مساکین اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ حکومت پر اعتماد نہ ہونے کے سبب مخیرحضرات اپنی زکوٰۃ، خیرات اور عطیات سے براہ راست فلاحی اداروں، غریبوں اور مستحقین کی مدد کرتے ہیں۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ انفرادی چیریٹی کے مقابلے میں پاکستان میں منافع بخش ادارے کارپوریٹ سوشل ریسپونسبلٹی (CSR) میں بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان میں کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کا حکومتی ادارہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) کے قانون کے مطابق ہر منافع بخش کمپنی کو اپنے منافع کا 2 فیصد حصہ CSR پر خرچ کرنا لازم قرار دیا گیا ہے مگر یا تو اس پر عمل نہیں ہورہا یا پھر منافع بخش ادارے اس مد میں خرچ کئے بغیر اپنی بیلنس شیٹ میں ظاہر کرکے ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہورہے ہیں لیکن کچھ اچھے ادارے ایسے بھی ہیں جو CSR کی مد میں کافی سرگرم ہیں اور کئی فلاحی ادارے ان کے تعاون سے چل رہے ہیں جن میں سرفہرست پاکستان اسٹیٹ آئل، نیشنل بینک اور فوجی فرٹیلائزر شامل ہیں۔ بھارت میں حال ہی میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے جس کی رو سے ہر ادارے کیلئے اپنے منافع کا 2 فیصد حصہ CSR کی مد میں خرچ کرنا لازم قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ادارے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اپنے منافع کا 2فیصد حصہ خرچ کررہے ہیں جس سے بھارت میں غربت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ نام نہاد فلاحی و سماجی تنظیموں کے لوگ یتیموں، مسکینوں اور غریبوں کے نام پر حاصل کی گئی زکوٰۃ، خیرات اور عطیات کی رقوم ان غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے دہشت گردی و انتہا پسندی یا پھر اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے۔ ’’جس شخص نے غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیماروں اور بیوائوں کا حق مارا، قیامت کے روز وہ ایسی حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اُس کا سر جسم سے الگ ہوگا اور جسم کے اعضا ء اُس شخص کی حرام کاری کی گواہی دیں گے جبکہ اُس کے مال کو دوزخ کا ایندھن بناکر اس کی پیشانی اور پیٹھ پر داغا جائے گا اور وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، مسلم شریف)
ایک دوسری حدیث میں نبی کریمﷺ کا فرمان ہے۔ ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور زکوٰۃ و خیرات دینے سے انسان کے مال میں کمی نہیں ہوتی۔‘‘ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ معاشرہ اُسی وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے صاحب حیثیت افراد اپنی دولت کا ایک حصہ نادار اور مستحق لوگوں پر خرچ کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یہ امانتیں ذمہ داری کیساتھ اپنے ہاتھوں سے اصل حقداروں تک پہنچائیں اور اس میں ہرگز خیانت نہ کریں کیونکہ زکوٰۃ، خیرات، عطیات اور صدقات صرف غریبوں اور محتاجوں کا حق ہے۔ میں اپنے کالم کے توسط سے قارئین بالخصوص مخیر حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ زکوٰۃ و عطیات دیتے وقت میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کو یاد رکھیں اور ادارے کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اکائونٹ نمبر 01-1825382-01 میں اپنے عطیات جمع کروائیں تاکہ آپ کے دیئے گئے عطیات سے لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرکے اُن بچوں کی زندگی کے آخری دنوں میں خوشی لاسکے۔

تازہ ترین