• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کو اپنی گود میں بسانے والے پاکستان اور بھارت پوری دنیا کے لئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں اتنی بڑی آبادی ہوناہی خود سب سے اہم وجہ ہے جبکہ دونوں ممالک انسانیت کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں، بھارت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے قیام پاکستان کے بعد سے ہی بھارت یہ سمجھتا رہا ہے کہ پاکستان خود مختار ملک بننے کی صلاحیت سے محروم ہے اور جلد یا بدیر بھارت اس کو اپنے اندر ضم کرکے اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرلے گا لیکن پاکستان نے ہمیشہ ہی بھارت کو اپنی صلاحیتوں کے ذریعے مایوس کیا ہے، تین جنگوں میں دونوں ممالک کے ہزاروں فوجی اور عام شہری مارے گئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی میں اضافہ ہی ہوا ہے، دونوں ممالک دنیا کے غریب ملکوںمیں شمار ہوتے ہیں اور دونوں ہی اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کر اپنے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں، تحقیق کا بڑا حصہ سائنس و ٹیکنالوجی اور عوام کی فلاح بہبود پر استعمال کرنے کے بجائے خطرناک ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرتے ہیں اور ایسا کئی دہائیوں سے ہورہا ہے اور آج دونوں ہی ممالک کے پاس ایسے ایسے ہتھیار موجود ہیں کہ منٹوں میں دونوں ممالک کی آدھی آبادی فنا ہوکر رہ جائے۔دونوںممالک کی نصف سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جہاں نہ پینے کا صاف پانی موجود ہے، نہ بجلی کی سہولت موجود ہے نہ ہی سڑکیں موجود ہیں اور نہ ہی صحت کی بنیادی سہولتیں موجود ہیں اس کے باوجود دونوں ممالک کی حکومتوں کی اولین ترجیح ان غریب عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے بجائے ملک کے دفاع کے لئے خطرناک اور جدید ترین ہتھیاروں کی خریداری کے لئے رقم مہیا کرنا ہے، حکمرانوں کو اس غلط راستے سے روکنے کے لئے کوئی بھی طاقت کردار ادا نہیں کررہی ہے،جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو جہاں ایک طرف امریکہ پاکستان اور بھارت کو امن سے رہنے کی تلقین کرتا ہے تو دوسری جانب دونوں ممالک کو سب سے زیادہ ہتھیاروں کی فروخت بھی امریکہ کی جانب سے ہی کی جاتی ہے لہٰذا ایک طرف امن کی تلقین تو دوسری جانب جنگ کا سامان فروخت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کھانا سامنے رکھ کر کھانے سے منع کردیا جائے،لیکن دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خلوص نیت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی خواہش رکھتے ہیں ان میں ہی جاپان کے سپر اسٹار،رکن پارلیمنٹ اور ریسلنگ کے عالمی چیمپئن انوکی شامل ہیں جو نہ صرف پاکستان سے بہت لگائو رکھتے ہیں بلکہ پاکستانیوں کے لئے بھی ان کے دل میں بہت جگہ ہے، چند ماہ قبل جب پاکستان کے سابق وفاقی وزیر،حکمراں جماعت کی اہم شخصیت اور موجودہ سینیٹر مشاہد اللہ خان جاپان آئے تو ان کی محمد حسین انوکی سے اہم ملاقات ہوئی جس میں مشاہد اللہ خان نے انوکی کو بطور رکن پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر جاپانی پارلیمنٹ میں اٹھانے کی درخواست کی اور بھارت کی جانب سے کشمیر میں کیے جانے والے مظالم سے آگا ہ کیا، انوکی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں پر بھارتی ظلم و بربریت کی مذمت کی اور اس اہم مسئلے کو جاپانی پارلیمنٹ میں اٹھانے کی یقین دہانی بھی کرائی، صرف یہی نہیں بلکہ انوکی نے سینیٹر مشاہد اللہ خان سے پاکستان اور بھار ت کے درمیان امن کے قیام کے لئے اپنی خواہش کا بھی اظہار کیا جسے مشاہد اللہ خان نے بھی کافی سراہا، اسی ملاقات میں سینیٹر نے انوکی کو بطور اسٹیٹ گیسٹ پاکستان آنے کی دعوت بھی دی جس کے بعد نہ جانے کیا مسائل ہوئے کہ انوکی کا پاکستان کا دورہ ممکن نہیں ہوسکا،بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ کچھ ہی عرصے بعد پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر کی دعوت پر پاکستان اسکواش کے سابق عالمی چیمپئن جہانگیر خان جاپان آئے توانکی ملاقات بھی محمد حسین انوکی سے کرائی گئی جس میں انوکی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام کی ضرورت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے واہگہ بارڈرپر امن واک منعقد کرنے کا منصوبہ پیش کیا جس میں انوکی سمیت کئی جاپانی کھلاڑی اور جہانگیر خان سمیت کئی پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی شریک ہونا تھا اور عالمی میڈیا کو بھی پاکستان آنا تھا، یہ بہت ہی موثر منصوبہ تھا جس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میںکمی آتی بلکہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی ہتھیار رکھنے والی طاقتوں کے درمیان امن کی اہمیت عالمی سطح پر اجاگر ہوتی اور مسئلہ کشمیر بھی اجاگر ہوتااور کیونکہ اس امن واک میں جاپانی رکن پارلیمنٹ انوکی بھی شریک ہوتے لہٰذا جاپانی حکومت بھی اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کرسکتی تھی،لیکن پاکستان کی سرکاری عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ اہم منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا بلکہ سب سے تکلیف دہ عمل تو یہ تھا کہ انوکی کی جانب سے پاکستان میں واہگہ بارڈر کے نزدیک امن واک کا پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے پاکستان بھجوایا جانے والا سفارتی خط پاکستان میں کہیں کھوگیا، اس بات کا انکشاف بھی انوکی کی جانب سے کیا گیا کہ ان کی طرف سے پاکستان بھیجی گئی ٹیم سے کسی سرکاری افسر یا سیاسی شخصیت نے ملاقات کی زحمت بھی گوارا نہیں کی، یہ تو حال ہے ہماری بیوروکریسی کا جس کے قومی مفادات پاکستان کے قومی مفادات سے بالکل ہی جدا نظر آتے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے جاپانی رکن پارلیمنٹ انوکی تاحال پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے پاکستان جانے کیلئے تیار ہیں، جہاں نہ صرف وہ امن واک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی ریسلنگ ٹیم کو لیکر پاکستان جانا چاہتے ہیں اور پاکستان کے کئی شہروں میں امن ریسلنگ کے مقابلوں کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان اور جاپان کے درمیان بھی تعلقات میں اضافہ ہوسکے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس بار انوکی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی اہمیت اجاگر کرنے کا موقع مل پاتا ہے یا پھر ان کی خواہش ہماری کاہلی اور سستی کی نذر ہوجاتی ہے، یقین جانیے پاکستانی اور بھارتی حکومتیں امریکہ میں رکن پارلیمنٹ یا سینیٹر پر اپنی لابنگ کے لئے لاکھوں ڈالرز خرچ کرتی ہیں جس کے بعد بھی ان کی آواز پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ پاتی،جبکہ پاکستان کادوست انوکی جو نہ صرف رکن پارلیمنٹ ہے اور جاپان کا سپراسٹار ہے اور پاکستان سے محبت کرتا ہے وہ خود مسئلہ کشمیر کو پر امن طورپر حل کرانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو ہمار ی کوئی سرکاری یا سیاسی شخصیت اس کے ساتھ تعاون کو تیار نہیں ہے جوبہت ہی افسوس کی بات ہے۔

تازہ ترین