• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان شاید ابھی اتنا لائق نہیں کہ وہ اپنی ہرکامیابی یا ناکامی سے شعوری کوشش کے تحت کچھ سیکھ سکے۔ لیکن ہر تجربے میں سیکھنے کے لئے یقینا کچھ نہ کچھ ہوتاضرور ہے! پاکستان میں کھیل اُن شعبہ جات میں سے ایک ہے جہاں تجربات صرف ریکارڈز اور کہانیوں کی صورت میں دستیاب ہیں۔ اگر اِن تجربات سے صحیح وقت پر کچھ سیکھ لیا گیا ہوتا تو ہاکی اور اسکواش کے میدانوں میں پاکستان کی عظیم الشان فتوحات آج یوں قصہ پارینہ نہ بنی ہوتیں۔ اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی تاریخی فتح سے ملک میں کرکٹ کوکتنا فائدہ ہوگا لیکن اس کامیابی میں کچھ مفید پیغامات ضرور موجود ہیں۔
پہلا پیغام ہندوستان کے لئے ہے۔ ہوسکتا ہے میرا خیال سو فیصد درست نہ ہولیکن کچھ عرصے سے سیاست اور کھیل دونوں شعبوں میں پاکستان کے ساتھ ہندوستان کا رو یہ کچھ جارحانہ سا رہا ہے۔ ایل او سی پر کشیدگی، سرجیکل آپریشن کا مستقل چرچہ، قوت کے استعما ل کی دھمکی، سفارت کاری سے دانستہ اِجتناب اور پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے میں عدم دلچسپی کا اظہار بار ہا دیکھنے میں آتا رہا۔ پاکستان کی فتح کے بعد ہندوستانی حکمرانوں کو بہت عرصے بعد پاکستان کے ساتھ تمام دو طرفہ معاملات کو پہلی بار برابری کی بنیاد پر جانچنے کا خیال ضرور آنا چاہئے۔ ویرات کوہلی اور ان کے ساتھیوں نے کھلے دل سے پاکستانی کھلاڑیوں کو مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کی جنوب مشرقی سرحد کے اُس پار بیٹھے حکمران بھی اپنے کھلاڑیوں کے ظرف سے کچھ استفادہ کرلیں!
دوسرا پیغام یقینا شاہد خان آفریدی کے لئے ہے کیوں کہ، بقول سِکّو بھائی، انہیں پاکستان میں کبھی کوئی ٹیلنٹ نہیں نظر آیا۔کہا جاتا ہے کہ اِن کے کپتان ہوتے ہوئے یاسر شاہ، انور علی اور سہیل خان سمیت کئی ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کے کیرئیر دائو پر لگے رہے اور بہت سوں کو منظر عام پر آ نے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے کیرئیر کے آخر ی چند سال صرف ٹی وی کمرشلز، بار بار اپنی ریٹائر منٹ کے بیانات کے نفسیاتی اثرات اورکچھ سیاسی و صحافی حلقوں میں تعلقات کے سہارے ٹیم میںشامل رہے۔ آخری وقت آنے پر بھی وہ خود ریٹائر نہیں ہوئے بلکہ یہ ذمہ داری آخر کار پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہی نبھاناپڑی۔البتہ اُن کی الوداعی میچ کھیلنے کی خواہش پوری ہوجاتی تو اچھا تھا۔
بہرحال ان کے رخصت ہوتے ہی ملک بھر سے ٹیلنٹ سامنے آنا شروع ہوگیا۔ چھوٹے شہروں، قصبوں اور بڑے شہروں کی تنگ و تاریک گلیوں سے غریب اور محنت کش خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بہترین کھلاڑی سامنے آئے جن کی بدولت آج ملک کو اس بڑے ٹورنامنٹ میں ایک مانی ہوئی ٹیم کے خلاف فتح نصیب ہوئی۔
تیسرا پیغام عامر سہیل کے لئے ہے۔ کہتے ہیں کہ کبھی اِ ن کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ ولایت (انگلستان ) جاکر کبھی اچھا پرفارم کرسکیں۔ لیکن سوائے سال 1992کی سیریز میں ایک ڈبل سنچری کے وہ برطانیہ میں کبھی کچھ نہ کرپائے۔ ولایت میں ان کا ایک روزہ بین الاقوامی میچز کا ریکارڈ بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ لہٰذا برطانیہ میں اچھا پرفارم کرنے والے ہر پاکستانی کھلاڑی اور ٹیم سے ان کی مخالفت فطری ہے۔ اس تناظر میں ان کا سرفراز کو ٹارگٹ کرنا حیرانی کی بات نہیں !
سنتے ہیں کہ برطانیہ کی وکٹوں پر اچھا پرفارم کرنے والے پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف ملک میں ہمیشہ محاذ آرائی ہوتی رہی ہے۔ سال 1971 میںظہیر عباس نے انگلستان جاکر 274رنز اسکو ر کئے تو کرکٹ حلقوں میں اِن کے دشمنوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا۔سنتے ہیں کہ فضل محمود کو بھی اوول میں اپنی یاد گار پرفارمنس کے بعد سخت رقابتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا! عامر سہیل کا بنیادی مسئلہ بھی بظاہر پیشہ ورانہ رقابت ہے۔اس لئے ملک اورقومی ٹیم کے خلاف بولنے کے باوجود اُن پر کوئی مقدمہ قائم کرنے کے بجائے اگرانہیں اچھی کائونسلنگ فراہم کی جائے تو یہ کم از کم اُس ٹی وی چینل کے حق میں ایک بہتر فیصلہ ثابت ہوگا جو آئندہ کسی شو میں انہیں مدعو کرے گا! غصے کا بر ملا اوربے موقع اظہار کردینا بظاہر ان کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ ایک بار انہوں نے بھارت کے خلاف 1996کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں کرشنا وینکا ٹش پراساد کی گیند پرچوکا لگاکر اس کی جانب اشارہ کیا جیسے کہہ رہے ہوں، ’’دیکھ! میں نے گیند کہاں پھینک دی۔ ‘‘ لیکن پراساد کی اگلی ہی گیند پروہ کلین بولڈ ہوگئے اور سر جھکائے پویلین لوٹ آئے۔
ہندوستان ہی کے خلاف ایک ٹیسٹ میں انہوں نے پوائنٹ پوزیشن پر کھڑے کھڑے بھارتی بیٹسمین نوجوٹ سدّھو پربظاہر کوئی جملہ کَس دیا۔ سدھو کریز چھوڑ کر اپنا بلّا اٹھائے اِنتہائی جارحانہ انداز میں اِن کی جانب بڑھے تو ایسا لگا جیسے عامر نے معافی مانگ کر جان چھڑائی ہے۔ قارئین خود نیٹ پر اِن واقعات کی ویڈیو ز دیکھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مشاہدات درست ہیں یا نہیں!
سرفراز کے خلاف انہوں نے جو کچھ کہا اس میں پیشہ ورانہ رقابت اور اَکڑ دونوں پہلو واضح ہیں۔ لیکن قیمت چکانے سے وہ اس بار بھی نہ بچ سکے۔ ایک وضاحتی بیان میں عامر سہیل نے کہا کہ سرفراز نے سیمی فائنل کی فتح کو جاوید میانداد کے نام کرنے سے انکار کردیا تھاجس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وہ سرفراز کے خلاف بول پڑے۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ جاننے والوں کو معلوم ہے کہ عامر سہیل کو جاوید میانداد سے کتنی محبت ہوسکتی ہے۔
اُدھرفائنل جیتنے کے فورا ً بعد مصباح الحق ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ، ’’یہ فتح نئے کھلاڑیوں کی وجہ سے نصیب ہوئی ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ یہ وہی مصباح الحق ہیں جنہوں نے گزشتہ عالمی کپ میں میڈیا اور عوام کے مسلسل زور دینے کے باوجود سرفراز احمد کو ٹیم سے زبردستی اور مستقل دور رکھا۔ یہ چوتھا پیغام امید ہے مصباح الحق تک پہنچ گیا ہوگا!
پانچواں پیغام میڈیا کے لئے ہے۔ یہ بحث اب ختم ہو چکی ہے کہ پرانے کھلاڑیوں میں کون ٹیم میں رہے گا اور کون نہیں ! جیت کا یہ تازہ ترین تجربہ، بہترین تجربہ ہے۔ لہٰذا کرکٹ پر بولنے، لکھنے اور تجزیہ کرنے والوں سے درخواست ہے کہ قوم کے بہترین مفاد میں اب اِن پرانے کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیں۔ بنوں اور مردان سے بہترین ٹیلنٹ ملنے پر واضح ہوگیا ہے کہ با صلاحیت کھلاڑی پورے ملک میں موجود ہیں۔ البتہ انہیں ڈھونڈنے اور جانچنے کا کام بڑے پیشہ ور کھلاڑیوں کا ہے ؛کسی نوکری پیشہ سرکاری ملازم کا نہیں ! برسوں سے بند آنکھیں کھول کراور سوئے ہوئے ضمیر جگا کر پاکستان کرکٹ کو اِس کا کھویا ہوا نام اور مقام واپس دلانے کی بھرپور جدوجہد کی شروعات کا بہترین وقت یہی ہے۔

 

.

تازہ ترین