• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

22 رمضان کو پاکستان کرکٹ ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیت کر پوری دنیا میں چیمپئن اور نمبر 1 ہونے کا ثبوت دیا جس سے پورے ملک میں جشن کا سماں ہے۔ عوام خوشی سے جھوم اٹھے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹیم ورک کو کبھی ہرایا نہیں جاسکتا جب بھی کوئی ٹیم نیک نیتی اخلاص اور پوری قوت سے مقابل پر حاوی ہوتی ہے تو پھر کامیابی اُس کا مقدر ہو جاتی ہے۔ ٹیم ورک اداروں کی مضبوطی کی ضامن ہوتی ہے۔ جب ادارے مضبوط ہوں تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ اقتصادی پالیسیوں اور سی پیک کی وجہ سے پاکستان اس وقت دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی، معاشی اور طاقت بننے جا رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام ادارے ساتھ ساتھ ترقی کریں تاکہ مجموعی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔ جب تمام ترقی یافتہ بنیں گے تو حکومت بھی ترقی کی صحیح معنوں میں دعوے دار ہو گی۔ جمہوری دور میں اداروں کے استحکام کی طرف خصوصی توجہ کی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت ملک میں اچھے اور مثالی انسٹیٹیوٹ قائم کر کے ملک کے وقار میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح کے راستے پر گامزن ہے مگر ابھی بھی کچھ ایسے ادارے موجود ہیں جنہیں حکومتی شفقت اور معاونت کی اشد ضرورت ہے انہی اداروں میں جنرل اسپتال لاہور کا نیورو سرجری کا شعبہ ہے۔
1966ء میں پاکستان کے عظیم نیورو سرجن پروفیسر شبیر احمد مرحوم نے اس وقت کے لاہور شہر جو کہ اچھرہ پر ختم ہو جاتا تھا، سے کافی دور جنرل اسپتال لاہور میں نیورو سرجری کے شعبے کی بنیاد رکھی۔ اِس کام میں نیک نیتی اور خدمت خلق کا عنصر شامل تھا اس لیے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے دنیا میں اپنا خاص مقام متعارف کروایا۔ 50 سال بعد یہ چھوٹا سا ادارہ اب ایک قد آور پودے کی طرح ایشیا کا نمبر 1 ادارہ بن چکا ہے اور پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ کوئی کم اعزاز نہیں ہے کہ اتنے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں خدمت کے حوالے سے پاکستان کا نام پہلے نمبروں پر ہے۔ یہ ادارہ پیچیدہ دماغی امراض کے علاج کے حوالے سے بے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیور سائنسز کے مکمل ہونے کے ساتھ 500 بیڈز پر مشتمل جدید مشنری اور سہولتوں سے آراستہ عظیم بلڈنگ مکمل ہو چکی ہے جبکہ اس کے 8 آپریشن تھیٹر اور ICU مکمل ہونا ابھی باقی ہیں۔ 500 بیڈز ہونے کی وجہ سے یہ ایشیا کا نمبر 1 اور دنیا کا تیسرے نمبر پر عظیم ادارہ بن کر پاکستان کا اعزاز بن چکا ہے۔ اس عظیم منصوبے کی منظوری 1985-1986ء میں میاں نواز شریف صاحب نے دی جبکہ موجودہ بلڈنگ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی توجہ سے ریکارڈ ٹائم میں مکمل ہوئی۔ اِس ادارے کو دنیا کا نمبر 1 نیورو انسٹیٹیوٹ بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔ 1985-86ء کے ماسٹر پلان کے تحت 32 کنال پر مشتمل اس انسٹیٹیوٹ کو خود مختیار بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر عمل در آمد کی فوری ضرورت ہے۔ اگر اس ادارے کا سر براہ نیورو سرجن کو بنایا جائے جبکہ ریٹائرڈ سینٹر نیورو سرجنز جو کہ بطور پرنسپل بھی خدمات سر انجام دے چکے ہوں ان میں سے کسی ایک کو اس کے بورڈ آف مینجمنٹ کا سر براہ بنایا جائے اور دیگر کو اس کے انتظامی بورڈ کا ممبر بنادیا جائے تو ادارہ صحیح معنوں میں اپنے مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ نیورو انسٹیٹیوٹ کی 32 کنال جگہ اسی ادارے کے زیر استعمال رہنے کو یقینی بنایا جائے۔ دیگر شعبوں کے لیے کسی اور جگہ انتظام ہو سکتا ہے لیکن نیورو سرجری کے مریضوں کو دور دراز منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ نیورو سرجی کی بلڈنگ تعمیر ہو چکی ہے صرف تھیٹر کا کام باقی ہے لہٰذا اِسے اب مکمل طور پر خود مختار بنا دینا وقت ضرورت ہے۔ نیورو انسٹیٹیوٹ کے 9 مختلف ڈیپارٹمنٹس میں سب شعبوں کیلئے ایک علیحدہ آئوٹ ڈور (OPD) بلاک، پرائیویٹ کمرے بنانے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ کمروں سے اس نیورو انسٹیٹیوٹ کیلئے کروڑوں روپے کا ریونیو جمع ہو سکتا ہے۔ پورے ملک میں دماغی امراض کیلئے بے حد اہم گیما نائف یونٹ Gamme Knifeسرکاری سیکٹر میں نہیں ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر میں کراچی میں ایک یونٹ لگا ہوا ہے جہاں ایک مریض سے تقریباً 5 لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ غریب مریض کیسے 5 لاکھ روپے ادا کر سکتے ہیں تاہم حکومت پاکستان بیت المال سے کچھ غریب مریضوں کو 5 لاکھ کی ادائیگی کر دیتی ہے لیکن اس کی منظوری حاصل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ اگر گیما نائف یونٹ بھی اس پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں لگادیا جائے تو غریبوں کو یہ سہولت فری میسر ہو سگے گی۔ آئندہ 100 سال کی ضروریات پورے کرنے اور اس کی مزید توسیع کے لیے اس 32 کنال جگہ کو PINS کے لیے مخصوص کرنا پڑے گا۔ جب یہ ادارہ ہر طرح سے آزادانہ حیثیت سے کام کرے گا تو بقیہ اسپتال کا پرنسپل علیحدہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس ادارے کو دنیا کا نمبر 1 ادارہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خادم اعلیٰ پنجاب اس ادارے میں کام کرنے والے پروفیسرز کو سنیں اور متعلقہ حکام کو محکمہ جاری کریں کہ اس ادارے کو آزادانہ حیثیت دے کر دنیا کا نمبر 1 نیورو انسٹیٹیوٹ بنائیں تاکہ پاکستان فخر کر سکے کہ پاکستان ہر شعبے میں دنیا سے کم نہیں ہے۔
پاکستانی ڈاکٹر دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ دنیا میں اِس وقت Crash Three کے حوالے سے تحقیق ہو رہی ہے اُس میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے اور انفرادی طور پر بھی اسی اسپتال سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر انور چوہدری کا نام سر فہرست ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے پروفیسرز کا تعلق بھی جنرل اسپتال کے شعبہ نیورو سرجری ہی سے ہے۔ Crash Three اسٹڈی کے مطابق سر پر چوٹ لگنے والے مریضوں کو پہلے تین گھنٹوں کے اندر ٹیکا لگایا جاتا جس کہ بعد وہ برین ہیمرج سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر انور چوہدری تقریباً ایک ہزار مریضوں کو یہ ٹیکا لگا چکے ہیں۔ پنجاب گنجان آباد صوبہ ہے یہاں ہونے والے حادثات، لڑائی جھگڑوں کے نتیجے میں سر پر چوٹ لگنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مریضوں کو آپریشن کے بعد ڈسچارج کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے 30 فیصد سے زیادہ مریض کامیاب آپریشن کے باوجود جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ 32 کنال کی مخصوص جگہ کو صرف نیورو سرجری کے لیے استعمال کرتے ہوئے کچھ اور کمرے تعمیر کیے جائیں تاکہ مکمل صحت یاب ہونے تک مریضوں کی دیکھ بھال ممکن ہو سکے۔ میرا اِس اسپتال سے قلبی تعلق ہے جب میری والدہ کو برین ہیمرج ہوا تو اِسی اسپتال میں ڈاکٹر انور چوہدری کی کاوشوں اور لگن سے اُن کی زندگی بحال ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے شعبے سے جس طرح جنون کی حد تک مخلص ہیں اُس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اُنہی کی کاوشوں سے 2018ء کی نیورو سرجن کی سارک کانفرنس لاہور میں منعقد ہو رہی ہے۔ شعبہ نیورو سرجری کے پاس یہ اعزاز بھی ہے کہ وہ پاکستان کے تمام صوبوں کے علاوہ افغانستان، ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک کے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹریننگ کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

 

.

تازہ ترین