• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ہاتھوں کرکٹ میں بھارت کی شکست کے بعد وہاں کے ذرائع ابلاغ اور حکومت کا رویہ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں، خاص طور پر ہمارے اپنے ذرائع ابلاغ اور بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی فتح کا جشن بھارتی فوج کی گولیوں کی بارش میں منایا گیا۔ اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے، بھارتی اسے تسلیم کریں یا نہیں۔ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا، اور وہاں کے لوگ اس ناجائز قبضے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی ساری جدوجہد کشمیر کی آزادی اور اس کی پاکستان سے الحاق کے لئے ہے۔ آج جب بھارتی فوج وہاں کے لوگوں پر ظلم ڈھارہی ہے، ان پر تواتر کے ساتھ اندھا کردینے والی گولیاں برسا رہی ہے، انہیں پاکستان کی جیت میں بھارت کی شکست، اور اس سے کہیں زیادہ اس کی ذلت نظرآرہی تھی۔ ان کا جشن منانا ان کے دل کی آواز تھی۔ سو انہوں نے جشن منایا بھارت کے ظلم کو اپنی جرات سے شکست دی۔
اور یہ بھی ہوا کہ بھارت کی کچھ ریاستوں میں لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے حق میں نعرے لگائے۔ کیا یہ کوئی انوکھی بات تھی؟ کیا پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ہارنے والے ملک کے عوام نے جیتنے والے کے حق میں نعرے لگائے ہوں؟ ہمیشہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ لوگ کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں۔ جو ٹیم جیت گئی اسے سراہا، جو ہار گئی اسے نظرانداز کر دیا۔ یا اس کے خلاف بولے۔ تو ایسی کیا آفت ٹوٹ پڑی، اگر کچھ لوگوں نے پاکستانی ٹیم کے حق میں نعرے لگا دئیے؟ اس ملک میں تو لوگ کھلم کھلا بھارت کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ بھارتی ریاستوں نے تو ان بے چاروں پر بغاوت کے مقدمات بنا ڈالے۔ اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی، یا اگر ہوئی بھی تو بھارت کے کسی اخبار یا ٹی وی پر نظر نہیں آئی۔ وہ تو ان بے چاروں کو جب عدالتوں میں پیش کیا گیا تو خبر باہر نکلی، اور وہ بھی غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے۔ اور تب پتہ چلا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں، مگر ہیں بھارتی شہری۔ یہ حال ہے اس ملک کا جو خود کو سیکولر کہلاتا ہے اور جہاں آزادیٔ رائے کے اظہار کا ڈھنڈورا ہمارے یہاں کہ طبلچی بھی پیٹتے ہیں۔
پہلی بار 1991میں بھارت جانا ہوا۔ چتوڑ میں رشتے کے ایک چچا رہتے ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی اس وقت ساتویں، آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ پیار میں سب اسے گڈی کہتے تھے، اب بھی کہتے ہیں، حالانکہ اب تو وہ ماشاء اللہ خود کئی بچوں کی ماں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تم لوگ کرکٹ میںپاکستان کی جیت پر خوشی کیوں مناتے ہو؟ کہنے لگی بھائی جان، مجھے تو کرکٹ ورکٹ کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ نہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی ہے کہ پاکستان جیتا یا بھارت۔ مگر یہ ہماری ٹیچر ہمیں بہت تنگ کرتی ہیں۔ انہی دنوں پاکستان کسی میچ میں جیتا تھا۔ گڈی نے کہا، دوسرے دن جب ہم اسکول گئے تو ایک ٹیچر نے ہم سے کہا کہ آج تو تم لوگ بہت خوش ہوگے۔اس نے پوچھا، کیوں مس؟ جواب ملا کہ تمہارا پاکستان جیتا جو ہے۔ یہ بچی بھارت میں تقسیم کے بہت بعد پیدا ہوئی، بھارتی شہری ہے، اور اسے کرکٹ میں جیت ہار سے کوئی دلچسپی بھی نہیں۔ کہنے لگی، ٹیچر نے مجھے اور میری دوست کو اتنا تنگ کیا، اتنا تنگ کیا کہ میں بازار گئی، مٹھائی لائی اور ساری کلاس کو بانٹی۔ یہ صورتِ حال ہے ایک دوردراز علاقہ کی۔ وہاں گھر میں گوشت پکا ہو، بکرے کا، تو اسے بھی ترکاری کہتے ہیں۔
دوسری طرف وہاںکے ذرائع ابلاغ ہیں۔ بھارت کے سب سے بڑے اخبار ٹائمز آف انڈیا کے پہلے صفحے پر کرکٹ کی کوئی خبر نہیں تھی، ہاکی کی تھی کیونکہ اس میچ میں، جس پر شاید ہی کسی نے کوئی توجہ دی ہو، بھارت نے پاکستان کو ہرا دیا تھا۔ یہی معاملہ دوسرے اخبارات کا تھا۔ حالانکہ اگر صحافتی نُقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس دن سب سے بڑی خبر ہی کرکٹ کی تھی۔ اس بات کو اگر ایک سوال کی شکل میں رکھیں تو کیا بھارت چیمپئنز ٹرافی جیت جاتا تو بھارتی اخبارات پھر بھی یہ خبراپنے پہلے صفحے پر شائع نہیں کرتے؟ یقیناً اس خبر کی جگہ صفحہ اول ہی تھی۔ اور جن اخبارات نے خبر کے ساتھ صحیح برتائو نہیں کیا انہوں نے اپنے قارئین کے ساتھ بد دیانتی کی ہے۔
ابھی آپ نے دیکھا؟ مگر آپ نے کہاں دیکھا ہوگا۔ اس ملک، پاکستان کا بھی عجب حال ہے، یہاں بھارت کے ڈراموں اور فلموں کے ذریعہ سرحد پار کی ہندو ثقافت اور زبان خوب پھیلائی جارہی ہے۔ بچے خاندان کو ’پریوار‘ کہنے لگے ہیں، اور شادی کے وقت یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ پھیرے تو ہوئے نہیں۔ اصل بھارت کا چہرہ وہاں کے ٹی وی کے پروگراموں میں نظر آتا ہے، وہاں کی خبروں میں نظر آتا ہے۔ ان کے دیکھنے پر یہاں پابندی ہے۔ سو آپ نے وہاں کے ٹی وی کی خبریں کیسے دیکھی ہونگی۔ اس لئے آپ کوپتہ ہی نہیں چلا ہوگا کہ انہوں نے کیا دکھایا، اور کیا نہیں دکھایا، اور جو کچھ دکھایا اس میں زہر کتنا تھا، اور خبر کتنی۔ اور اکثر وہ کیا دکھاتے ہیں، اس سے آپ بے خبر رہتے ہیں یا جان بوجھ کر بے خبررکھے جا رہے ہیں کہ کہیں آپ بھارت کا اصلی چہرہ نہ دیکھ لیں۔ ہم نے انٹرنیٹ پر تلاش کرکے کئی بھارتی چینل دیکھے۔ وہاںکرکٹ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ ایک ٹی وی پر کسی اڑن طشتری کی خبر تھی، ایک دوسرے چینل پر کسی اسپتال میں مریض کو دکھایا جا رہا تھا، اور باقی جن چینل کو ہم دیکھ پائے، ان سب کایہی حال تھا۔ اگلے دن ایک چینل پردیکھا کہ بھارت کی ہاکی ٹیم کی تعریف ہورہی تھی۔ اس بات پر نہیں کہ اس نے پاکستان کو ہرا دیا تھا، بلکہ اس بات پر کہ بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں نے مقبوضہ کشمیر میں مرنے والے کسی بھارتی فوجی کے غم میں بازو پر سیاہ پٹی باندھی تھی۔ کسی نام نہاد دانشور کا کہنا تھا کرکٹ ٹیم کو بھی یہی کرنا چاہئے تھا، یعنی اسے کھیل سے زیادہ سوگ پر توجہ دینی چاہئے تھی۔ تو کیا اس طرح بھارتی ٹیم جیت جاتی؟ یہ تو شاید ممکن نہ تھا۔ کھیل تو کھیل ہے۔ اس میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ مگر بھارت کے باسیوں کو شاید یہ پسند نہیں آتا اور وہ ہارتے ہیں تو ہر سطح سے نیچے گر جاتے ہیں۔
اور وہ تو آپ سب نے دیکھا ہی ہوگا کہ ایک بھارتی اداکار نے کس طرح کی زبان استعمال کی اور کہا کہ کون کس کا باپ ہے۔ خیر پاکستانیوں نے جواب بھی خوب دیئے۔ اس اداکار کی فلمیں پاکستان میں حکومت کی مرضی سے چلتی ہیں۔ ہمارا غیر ملکی زرِمبادلہ اس ذریعہ سے بھارت جاتا ہے۔ اور ہم ہیں کہ عقل کے ناخن ہی نہیں لیتے۔ میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، اور کئی با اختیار لوگوں سے درخواست بھی کر چکا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم بھارت کا اصل چہرہ دیکھے تو وہاں کی خبریں اور ٹاک شوز لوگوں کو دیکھنے دیں اور یہ ڈرامے اور فلمیں بند کریں۔ مگر اس بات پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا، اور یوں بھارت کا اصل چہرہ پاکستانی عوام سے چھپا ہی رہتا ہے، اسے دکھانا چاہئے۔

 

.

تازہ ترین