• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھیک ہے۔ چائے طشتری میں ملی کیونکہ کپ بابا جان لے گئے۔ بھارت کے حصّے میں ٹشو کے ڈبے آئے اور پاکستان میں کامیاب کھلاڑیوں کو لاکھوں نہیں، کروڑوں روپے مل گئے، وہی روپے جو میرے ٹیکس سے کاٹے گئے تھے۔ وہی ٹیکس جو میں یہ آس باندھے دئیے جارہا ہوں کہ ناداروں اور لاچاروں پر خرچ ہو گا۔ جشن اور خوشی منانے کا یہ ڈھنگ نرالا دیکھا۔ غنیمت ہے کہ کھلاڑیوں کو سونے چاندی میں نہیں تولا گیا۔ اس جملے کی اشاعت کے بعد ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال کوندے کہ کیوں نہیں؟سچ تو یہ ہے کہ ہر پاکستانی کی طرح میں بھی جھوما، ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا جشن میں نے بھی منایا مگرمیں نے یہ بھی چاہا کہ میری طرح سبھی اس شادمانی میں اعلیٰ ظرفی کا، خوش ذوقی کا اور وضع داری کا مظاہرہ کرتے۔حوصلے بلند ہوئے تھے، وقار بھی بلند ہوتا۔یہ سچ ہے کہ میدان میں اترنے سے پہلے بھارت والوںنے کون سی بد تہذیبی نہیں دکھائی۔ مشہور کھلاڑیوں اور اداکاروں نے پاکستانی کرکٹ کی بات کرتے ہوئے اپنی زبان کو آلود ہ کیا۔ اس میں ان کا اتنا قصور بھی نہ تھا۔ گزرے برسوں نے بار بار یہ منظر دکھایا کہ بھارت کے مقابلے پاکستانی ٹیم جب بھی میدان میں اتری، کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ اتری اور ہانپتی ہوئی شکست خوردہ جماعت کی طرح سر جھکائے واپس آئی۔ دنیا نے پہلے ہی قیاس کر لیا تھا کہ ہارنا ہمارے مقدر میں لکھا ہے۔ لیکن کھلاڑیوں کے وجود کے اندر سے حوصلہ مندی کے ایسے چشمے پھوٹے کہ خود کھلاڑیوں کو پتہ ہو تو ہو، ہمیں معلوم نہ تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ہندوستان میں جو لوگ بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے انہوں نے چپ سادھ لی۔ دو ایک نے تو بڑے پن کا اظہار بھی کیا ا ور پاکستان کے کھلاڑیوں کو داد بھی دی۔ اس کے برعکس پاکستان میں بعض لوگوں نے تہذیب کا دامن چھوڑا اور مخالف ٹیم کو کیا کیا نہ کہا۔ بہتر ہے اسے دہرایا نہ جائے۔ ہندوستان کے اخباروں میں مضحکہ خیز کارٹون بھی بنائے گئے اور آخر بنانے والے اپنا سامنہ لے کر رہ گئے ہوںگے۔پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے وطن واپس آنے کے منظر اور عوام کے خراج تحسین کے نظارے بہت عرصے یاد رہیں گے لیکن جو منظر ہم نے برطانیہ کے کتنے ہی شہروں میں دیکھے وہ ہمیں حیران کر گئے۔ برطانیہ میں آباد نئی نسل کے کم عمر لڑکوں او ر لڑکیوں نے، جن کے باپ نے تو شاید دیکھی ہو، جنہوں نے کبھی پاکستان کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوگی، وہ ایسے جھوم کے اٹھے اور ایسی سرشاری کے عالم میں ا ن کے پاؤں کچھ یوں بے ساختہ تھرکے کہ جیت کا اگر کوئی مزا ہوتا ہے تو وہ آیا اور ٹوٹ کے آیا۔
ایک سب سے بڑی بات، جس کی طرف ہر ایک ہی نے اشارہ کیا کہ کرکٹ کی یہ کیسی جادوگری ہے کہ ایسی نظربندی کرتی ہے کہ پھر کوئی نہ سندھی رہتا ہے، نہ پنجابی، نہ بلوچ اور نہ پٹھان۔ ہم نے دیکھا اور جب تک جئیں گے یاد رکھیںگے کہ سرشاری کی لہر قلانچیں بھرتی ہوئی کشمیر کے سبزہ زاروں اور زعفران زاروں میں بھی جا پہنچی۔ خوشی کے ایسے اظہار پر دل سے جو دعائیں نکلتی ہیں ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بس یہ کہ ان کی بھی آرزوئیں پوری ہوں اور ہمارے جیتے جی ہوں۔
لندن کے اوول کے میدان سے تو ہماری کتنی ہی یادیں وابستہ ہیں۔ ہم اپنے خوش شکل او ردل فریب اوول کے ہیرو فضل محمود کو کیسے بھول سکتے ہیںجنہوں نے یہاں اپنی بولنگ کا سکّہ جمایا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی کرکٹ نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا اور یہ سلسلہ دیر تک چلا۔ پھر وہی ہوا جو اکثر ہوتا ہے۔ زوال نے تو گویا گھر ہی دیکھ لیا۔ پھر جو ہم گرے تو خاک نشیںہوکے اٹھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ تجزیہ کرنے والوں نے اس رائے کو اہمیت دی یا نہیں کہ اب کے اوول کے میدان میں یہ کیا ہواکہ پاسا ہی پلٹ گیا۔جواب سادہ اور سہل ہے۔ پاکستان نے میدان میں وہ آزمودہ کھلاڑی نہیں اتارے جن کی چالوں سے مخالف ٹیم اچھی طرح واقف تھی۔ اس بار کئی نوآموز کھلاڑی ٹیم میں شامل کئے گئے جن کے کھیلنے کا انداز عام معمول سے ہٹ کر ہوتا ہے جسے آپ چاہیں تو ’ان آرتھو ڈاکس‘ کہہ لیں۔ یہ چال پہلے ہی اوور سے کام کر گئی اور پھر جو ہوا اسے دہرانا فضول ہے۔ یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے، اور یہ بات بار بار کہی جا چکی ہے کہ پاکستان کے جوانوں میں کرکٹ کی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔ انہیں ایک ذرا سے بڑھاوا دیجئے اورپھر ان کی کمالات دیکھئے۔ میں صاف کیوں نہ کہوں کہ ملک میں کرکٹ کے فروغ اور ترویج کا اب بھی کوئی باضابطہ نظام نہیں ہے۔ یہاں آج تک کچھ لڑکے یہاں سے اٹھائے اور کچھ وہاں سے، اس ڈھب سے کام ہورہا ہے۔ اس میں اس بار یوں ہوا کہ تیر لگ گیا ورنہ تکّے کا خطرہ بھی تھا۔ بااختیار لوگوں سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ کوئی باضابطہ نظام قائم کرو (جو بھارت میں اچھی طرح کر لیا گیا ہے)اور جو باکمال کھلاڑی جہاں سے بھی ملے اسے اپنی آغوش میں لے لو۔کیا ہی اچھا ہو کہ جب ٹیم میدان میں اترے تو اس میں چترال اور بلتستان کے لڑکے بھی ہوں، آزاد کشمیر کے اور وادی کیلاش کے جوان بھی ہوں کہ گیند جن کے ہاتھ سے چھوٹتی ہوئی تو نظر آئے لیکن پھر مخالف بلے باز کو خبر نہ ہو کہ وہی گیند ہوا کو کاٹتی ہوئی کدھر جائے گی۔ یہ بات تو اب پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ نئے لوگوں کو آزمانے میں نہ کوئی نقصان ہے، نہ کوئی خسارہ۔ موقع دیتے ہوئے جو ڈر گیا، وہ مرگیا۔ اور اب آخری بات۔ فتح کا جشن منانے کی خو تو ہم نے سیکھ لی، ضرور ی ہے کہ شکست کو سر جھکا کر تسلیم کرنے کی وضع بھی اختیار کریں۔

 

.

تازہ ترین