• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کی باتیں کافی غور طلب ہیں انہوں نے کہا کہ کسی کے کہنے پر وزیراعظم نوازشریف کو نااہل کرنا ہٹانے کا طریقہ ہوسکتا ہے احتساب نہیں، انہیں سزا نہیں ہوسکے گی اور وہ مظلوم بن جائیں گے، سپریم کورٹ کو کس نے حق دیا ہے کہ کسی کو گارڈ فادر اور سسلین مافیا کہے،متنازع جے آئی ٹی سے انتقام ہو جائے گا احتساب نہیں۔بہت سے لوگ ان کے اس بیان سے متفق ہیں اور اکثر وبیشتر اس طرح کے نکات کو ہائی لائٹ کر رہے ہیں۔ مختلف طریقوں سے ایک کمپین بھی چلائی جارہی ہے جس میں اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ نوازشریف کو عیدالفطر کے لگ بھگ ڈس کوالیفائی کر دیا جائے گا۔ یا تو ان لوگوں کی خواہش ہے یا ان کے پاس کوئی اطلاع ہے مگر لگتا یہ ہے کہ یہ صرف خواہش ہی ہے کوئی اطلاع نہیں کیونکہ جو فیصلہ عدالت عظمیٰ نے ابھی کرنا ہے اس کا علم ان حضرات کو وقت سے پہلے کیسے ہوگیا۔ اس طرح کی کمپین چلا نے اور بیانات دینے کا مقصد سپریم کورٹ پر دبائو ڈالنا اور اثرانداز ہونا ہے۔ یقیناً جج صاحبان اس طرح کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے اور وہی فیصلے کرتے ہیں جو قانون اور آئین کہتا ہے۔ اس طرح کا ماحول کہ فیصلہ ہر صورت وزیراعظم کے خلاف آرہا ہے بنانے کا سہرا پی ٹی آئی کے سر پر ہے جس کے رہنما ہر روز بڑے پراعتماد اور یقین سے کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف ہر صورت عید سے قبل یا اس کے فوراً بعد نااہل قرار دے دئیے جائیں گے۔ تاہم اگر پی ٹی آئی کی مجموعی پالیسی جو اس نے پچھلے چار سال سے اپنائی ہوئی ہے پر ایک نظر ڈالیں تو یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلے پر ضرورت سے بہت زیادہ پراعتماد ہوتی ہے اور یقین کر لیتی ہے کہ فیصلہ اس کی خواہش کے مطابق آئے گا۔ اس طرح سے وہ اپنے کارکنان اور حمایتیوں کو یقین دلا دیتی ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہونے والی ہے مگر جب ایسا نہیں ہوتا تو ان کی ساری خواہشات اور خواب دھڑام سے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا جب عدالت عظمیٰ کے ایک تین رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی کے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر اپنی رپورٹ دی تھی۔ اب بھی اس کے اہم رہنمائوں نے کچھ ایسی ہی فضا پیدا کر دی ہے۔
5 مئی سے لے کر آج تک تین رکنی اسپیشل امپلی منٹیشن بنچ جس کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان ہیں، نے جو بھی کارروائی کی ہے، سے بہت مضبوط تاثر یہی ابھرا ہے کہ فیصلہ حکمران خاندان کے خلاف آسکتا ہے۔ جے آئی ٹی کی کمپوزیشن نے بھی شریف فیملی میں کافی شک و شبہات پیدا کئے کہ ان کے لئے حالات قطعی طور پر سازگار نہیں بلکہ اس کے خلاف محاذ بنا لیا گیا ہے۔ خاص طور پر جے آئی ٹی میں بلال رسول اور عامر عزیز جن پر وزیراعظم اور حسین نواز کو سخت اعتراضات ہیںکی شمولیت سے بھی تاثر ابھرا کہ نوازشریف کو ہر صورت میں احتساب کے شکنجے میں کس کر سیاست کے میدان سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ خفیہ اداروں کے دو افسران کی جے آئی ٹی میں شمولیت نے بھی شریف فیملی کو کوئی مثبت پیغام نہیں دیا کیونکہ یہ وہی حضرات ہیں جو کہ ڈان لیکس پر بننے والے کمیشن میں بھی شامل تھے جس کی رپورٹ کی وجہ سے ہی وزیراعظم کو اپنے دو بہت ہی قابل اعتماد ساتھیوں سینیٹر پرویز رشید اور سید طارق فاطمی سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ جج صاحبان کے ریمارکس اور آبزرویشنز پر غور کیا جائے تو بھی صاف نظر آرہا ہے کہ شریف فیملی کیلئے حالات بہت ہی کٹھن ہیں اور انہیں عدالت عظمیٰ سے کافی بری خبریں مل سکتی ہیں۔ اگر ججوں کی ان باتوں کے مطابق ہی فیصلہ آنا ہے تو پھر تو نوازشریف یقیناً نااہل قرار پائیں گے مگر ریمارکس،ریمارکس ہوتے ہیں فیصلہ نہیں ہوتا اور فیصلہ وہی ہوتا ہے جو سماعت کے اختتام پر جاری کیا جاتا ہے تاہم ریمارکس اور آبزرویشنز سے کسی حد تک ججز کے مائنڈ کے بارے میں علم ہو جاتا ہے۔ تیسرا فیکٹ جس سے وزیراعظم کے خلاف کمپین چلانے والوں کو بہت حوصلہ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک اسپیشل بنچ سے شریف فیملی کو بالکل کوئی ریلیف نہیں ملا اور جو بھی اس نے التجا کی ہے اس کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ نہ صرف اس کے بلکہ دوسرے اور بھی بہت سارے حضرات جو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں کوکافی شکایات ہیں کہ یہ تفتیش کار تعصب کا شکار ہیں مگر عدالت ان کے اعتراضات کو یکسر مسترد کرتی رہی ہے اور جے آئی ٹی کو حکم جاری کرتی رہی کہ وہ اپنا کام زور شور سے جاری رکھے اور ساتھ ساتھ جج صاحبان اس کے کام پر اطمینان کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ چاہے حسین نواز کی تفتیشی کمرے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے لی گئی تصویر کی لیک کا مسئلہ ہو، چاہے میاں طارق شفیع کو جے آئی ٹی کے کچھ مبینہ ممبران کی دھمکیاں کہ وہ اپنا بیان حلفی جو انہوں نے سپریم کورٹ میں دیا تھا واپس لیں ورنہ انہیں ایک لمبی سزا ہوگی، جاوید کیانی کا یہ دعویٰ کہ جے آئی ٹی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں یا صدر نیشنل بینک سعید احمد کی چیخ وپکار کہ انہیں لمبا انتظار کرایا گیا اور وہ پیشی کے دوران اس طرح محسوس کرتے رہے جیسے کہ وہ سزائے موت کے قیدی ہیں، عدالت عظمیٰ نے اس پر بالکل توجہ نہیں دی۔ جے آئی ٹی نے جو مختلف اداروں بشمول پرائم منسٹر ہائوس، ایس ای سی پی، وزارت قانون و انصاف، نیب اور انٹیلی جنس بیورو پر جو سخت الزامات لگائے ان پر کوئی ایسی کارروائی نہیں کی گئی جس سے اسے کہا گیا ہو کہ وہ اپنے دعوئوں کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس ثبوت سامنے لائے۔
حکومتی جماعت کے مختلف لیڈر عدالت عظمیٰ میں ہونے والی کارروائی کے بارے میں لگاتار سوالات اٹھا رہے ہیں اور جے آئی ٹی پر اپنے سخت اعتراضات رجسٹر کروا رہے ہیں۔ان کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح کا رویہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے ساتھ رکھا جارہا ہے کی وجہ سے انصاف ناممکن ہے اور ایک محسوس انداز میں انہیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ اس کا جواب سپریم کورٹ نے بڑے بھرپور انداز میں دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومتی جماعت کے 8 افراد روزانہ ٹی وی چینلوں پر اس کمپین میں حصہ لے رہے ہیں اور عدالت اس پر مناسب وقت پر مناسب حکم جاری کرے گی۔ سپریم کورٹ کے پاس بہت پاورز ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق اپنا دفاع کرسکتی ہے اور تمام حکومتی ادارے اس کا حکم ماننے کے پابند ہیں۔ اس وجہ سے اسے اپنے دفاع کیلئے کسی سیاسی جماعت کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہے مگر پی ٹی آئی نے خود ہی یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ اور جے آئی ٹی کا دفاع کرے گی اور اس مشن میں اسے اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنا پسندیدہ مشغلہ یعنی احتجاج بھی اپنائے گی۔ حیرت ہوتی ہے اس کے لیڈروں کی عقل پر جنہوں نے ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس یعنی جنگ گروپ کا بائیکاٹ صرف یہ الزام لگا کرکیا ہوا ہے کہ اس کی رپورٹنگ عدالت اور جے آئی ٹی کے خلاف ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسا بائیکاٹ اپنے خلاف کوریج پر احتجاج کیلئے کرتی ہیں مگر پی ٹی آئی کی ہر بات ہی نرالی ہے۔ اسے جنگ گروپ میں اپنے بارے میں کوریج کے متعلق اعتراض نہیں ہے۔ یقیناً بائیکاٹ سے نقصان پی ٹی آئی کو ہی ہوگا کیونکہ اس نے ایک ایسا فورم گنوا دیا ہے جہاں وہ اپنا نقطۂ نظر اور ان اداروں (جے آئی ٹی اور عدالت) کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بھرپور انداز میں کرسکتی تھی اور اس میڈیا آئوٹ لٹ پر دبائو بھی جاری رکھ سکتی تھی۔ تاہم بائیکاٹ کے باوجود جنگ گروپ پی ٹی آئی کو اتنی ہی کوریج دے رہا ہے جتنی وہ اسے پہلے دے رہا تھا اور جو اس کا حق ہے اس کی پالیسی نہیں بدلی جبکہ پی ٹی آئی کی پالیسی بدلنا اچھنبے کی بات نہیں ہے۔

 

.

تازہ ترین