• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشان ال جبوری عراق کا معروف سیاست دان ہے ، صدام حسین کے صوبے تکریت اور موصل کے پاس ال جبوری قبیلہ آباد ہے۔ مشان الجبوری اپنے قبیلے کا سربراہ اور عراق کی پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔ اپنی جوانی کے ایام میں صدام حسین کے بیٹے اودے حسین کا جگری یار تھا کاروباری شراکت دونوں میں قائم رہی۔ آل جبری قبیلے کے تقریباًپچاس ہزار افراد کو صدام حسین نے اسپیشل ریپلیکن گارڈز اور ری پبلکن گارڈز میں بھرتی کیا اور اس ساری بھرتی کے لئے صدام حسین کو حمایت مشان الجبوری کی درکار رہی۔ مگر 1980ء کی دہائی میں اس کا بیٹا انتقال کر گیا۔ اس کے خیال میں بیٹے کی موت اسپتال انتظامیہ کی نا اہلی کی بنا پر ہوئی۔ الجبوری یہی بات ایک ٹی وی پروگرام میں کر گیا۔ صدام حسین کو تنقید کسی صورت گوارہ نہیں تھی۔ عتاب شاہی کا شکار ہو گیا۔ پابند سلاسل کر دیا گیا۔ آدمی اہم تھا۔ اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ ہاتھ پائوں مارے اور کسی نہ کسی طرح پنجرے سے آزاد ہو گیا۔ اور خاموش زندگی گزارنے لگا کہ جس خاموشی سے پہلو بہ پہلو طوفان چلا آ رہا تھا۔ باہر آیا اور کاروبار میں لگ گیا۔ اخوان المسلمین کے نظریات سے متاثر ہو چکا تھا۔ صدام حسین کے خلاف 1989 سے بغاوت کا منصوبہ تیار کرنے لگا۔ اور بغاوت کے لئے 1990ء میں عراق کے آرمی ڈے کا انتخاب کر لیا گیا۔ مگر بغاوت کی منصوبہ بندی راز نہ رہ سکی اور صدام حسین کی انٹیلی جنس کے علم میں آ گئی۔ آرمی ڈے سے قبل ہی صدام باغیوں پر چڑھ دوڑا مشان الجبوری بغاوت کی منصوبہ بندی کرنیوالوں میں واحد شخص تھا جو جان بچانے میں کامیاب ہو گیا اور شام فرار ہو گیا۔ باقی سب مارے گئے۔ الجبوری کے سو قریبی عزیز جن میں اس کا بھائی اور بہنوئی بھی شامل تھے راہی ملک عدم کر دیئے گئے۔ الجبوری نے شام پہنچ کر ایک سیاسی جماعت بھی قائم کی اور ایک اخبار کا اجرا کیا عراقی سیاست میں اپنا کردار شام میں بیٹھ کر تلاش کرتا رہا۔ جب امریکہ نے صدام حسین کا دھڑن تختہ کیا تو موصل اور اس کے گردونواح میں کامیابی میں مشان الجبوری ایک اہم کردار تھا۔ موصل پر اقتدارپر بھی قابض کرنا چاہا مگر ہونے نہیں دیا گیا۔ شام سے لیبیا کے معمر قذافی کی حمایت میں ٹیلی وژن چینل بھی چلاتا رہا جس کے ذریعے ان گنت پیغامات نشر کئے گئے آج کل اتلاف العریبیہ کا اہم رکن ہے جو اخوان المسلمین کی عراق میں پروردہ سمجھی جاتی ہے اور حال ہے میں مشان الجبوری نے قطر کی حفاظت کی غرض سے 1000 جنگجو تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عرب میں وقوع پذیر ہونے والے کسی تنائو کو سمجھنے کے لئے الجبوری کی داستان قابل مطالعہ ہے۔ وہ عراق کا شہری ہے۔ مگر عراق کے علاوہ شام لیبیا مصر قطر وغیرہ کی سیاست سے بھی روابط رکھتا ہے۔ شہری کسی ایک ملک کا اور روابط اتنے ملکوں کی سیاست سے حیرت ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں حیرت اس لئے ہوتی ہے کہ ہم ملک کا ایک ایسا تصور رکھتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں سرحد کے دوسرے پارکی سیاست ،ثقافت سب کچھ بدل جاتی ہے مگر عرب میں یہ تصور موجود نہیں ہے۔ عرب ممالک میں ریاستوں کی موجودگی کے باوجود سب کے عرب ہونے اور مسلمان ہونے کی مشترکہ شناخت پائی جاتی ہے وہاں کی سیاست ان مشترکہ عوامل سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لئے کسی ایک جگہ پر کسی کی کامیابی یا ناکامی کے اثرات لا محالہ دوسرے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اخوان المسلمین کی جڑیں پورے عرب میں بہت گہری ہیں۔ بلکہ درحقیقت سعودی عرب کے قیام کے بعد وہاں سے ہی نکلی ہوئی ایک نظریاتی تحریک کی موجودہ شکل ہے کہ جس کی تفصیل پھر کسی کالم میں صحیح ، اخوان المسلمین کا بہائو بہت زیادہ محسوس ہو رہا تھا اور جب وہ مصر میں کامیاب ہو گئے تو دیگر جگہوں پر بھی ان کی کامیابی کے امکانات بڑھتے چلے گئے۔ قطر نے اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی بجائے مفاہمت کا راستہ تلاش کرنا شروع کیا جب کہ دیگر کچھ عرب ممالک یہ محسوس کرنے لگے کہ یہ مفاہمت ان کو کمزور کر سکتی ہے۔ لہٰذا قابل برداشت نہیں حماس فلسطین میں اخوان المسلمین کے نظریات کے قریب ہے غزہ کم و بیش محاصرے کی حالت میں ہے، قطر نے اس صورت حال میں اپنے تعلقات حماس سے بہتر کرنے کی کوشش کی اور حماس کے زیر قبضہ علاقے میں وسائل جھونک دیئے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ حماس میں قطر کی حمایت ہی حمایت رہ گئی۔ ان دونوں تنظیموں کی کامیابی سے عرب کی سیاسی بساط پر غیر معمولی تبدیلی آ سکتی ہے۔ اسلامی تشخص اور اسرائیل کی مخالفت کے سبب امریکہ کے لئے بھی یہ تنظیمیں قابل برداشت نہیں اور پھر یہ عرب میں کم قیمت پر مفادات بھی حاصل کرسکتی ہیں۔ لہٰذا بڑھا چڑھا کر خطرہ پیش کرنا امریکہ کے بھی مفاد میں ہیں۔ اور قطر سعودی عرب کشیدگی سے امریکا یہ مفاد خوب حاصل کر رہا ہے۔دوسری طرف قطر سے ایران کے معاملات ہیں۔ قطر سے ایران کے معاملات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ قطر کی معیشت کی جانب نگاہ ڈالی جائے۔ قطر کی معیشت میں گیس ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور انتہائی دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا کے زیر آب، پانی کے نیچے گیس پائپ لائن فیلڈ ایران اور قطر کی مشترکہ ملکیت ہے۔ دونوں اس میں شراکت دار ہیں۔ اس لئے قطر ایران کو اور ایران قطر کو ناراض نہیں کر سکتے۔ اس لئے جب حوثیوں کے حوالے سے معاملات خراب ہوئے تو قطر سعودی عرب کے ساتھ تھا مگر جب سعودی عرب نے حوثیوں سے معاملات کو اپنی طے کردہ طریقہ کار کے تحت کرنے کی کوشش کی تو دونوں کے درمیان اختلافات ہو گئے جو اب اپنے بام عروج پر نظر آ رہے ہیں۔ عرب دنیا اس بے چینی سے نکلنا چاہتی ہے۔ یا کم از کم اس میں شریک نہیں ہونا چاہتی۔ امیر کویت کی
سرگرمیاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ عراق کی موجودہ حکومت نے معاملے سے لا تعلق رہنے کا اعلان کیا ہے مگر 7 جون کو اپنی پارلیمنٹ کے اسپیکر کو قطر بھیج کر واضح پیغام بھی دے دیا ہی کہ وہ درحقیقت کس کے ساتھ ہے۔ عراق کے سابق وزیر اعظم نوری المالکی نے تو مطالبہ کیا ہے کہ عراق کو قطر کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دینا چاہئے۔ اومان اور مراکش بھی اپنے معاملات قطر سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی کے اقدامات بھی سب کے سامنے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم نواز شریف اور امیر کویت کی کوششیں قبل تعریف ہیں۔ مگر یہ اقدامات جب نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب فریقین بھی صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں جب تک سعودی عرب اور قطر کے دہشت گردی اور عرب میں سیاسی استحکام کے حوالے سے سوچ میں جوہری تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوتی پائیدار حل ممکن نہیں، کیونکہ سعودی عرب جن تنظیموں کو دہشت گرد گردانتا ہے وہ قطر کے نزدیک قانونی جواز رکھنے والی تنظیمیں ہیں۔ جب تک یہ نظریاتی خلیج نہیں پاٹی جاتی خلیج میں خلیج کم نہیں کی جاسکتی۔ کاش عقل سے کام لیا جائے۔

 

.

تازہ ترین