• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ 2017ء میں کہا تھا کہ پینٹاگون اُن کو کام کرنے نہیں دے رہا، وہ روس سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں مگر پینٹاگون نے پولینڈ کی سرحد پر ٹینکوں کو قطار درقطار کھڑا کردیا ہے، اسی طرح اس نے شام میں آرمرڈ گاڑیاں بھیج دی ہیں جو اُن کی پالیسی کے خلاف ہے۔ جنرل حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ شام اور روس کے ہاتھوں داعش کو شکست نہیں ہونے دیں گے، وہ ایران کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک ہونے نہیں دے رہے، وہ روس سے امن اس لئے چاہتے ہیں کہ چین کو تنہا کریں مگر پینٹاگون ایسا ہونے نہیں دے رہا ہے، روس میں مسلم جہادیوں کو روس کے خلاف متحد ہونے کی راہ میں ایران حائل ہے، نئے قدامت پسند ملٹری کمپلیکس کے ساتھ مل کر اُن کی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے سے روک رہے ہیں، افغانستان کے معاملے میں جو رپورٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون سے مانگی تھی اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے کو صلح و صفائی سے نمٹائیں، امریکہ افغانستان میں جیت نہیں سکتا، افغان حکومت کافی کمزور ہے وہ طالبان کا دبائو برداشت نہیں کرسکتی۔ پچھلے دو مہینوں میں بہت خودکش حملے ہوئے ہیں جس میں امریکی و افغان فوجی مارے گئے، ایک آدھ ہفتے میں خود افغان فوجی امریکی فوجیوں کو مار دیتے ہیں، اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح افغان طالبان سے مذاکرات کے ذریعے اُن کو حکومت میں شامل کیا جائے اور پاکستان پر بھی دبائو بڑھائے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی معاشی بدحالی عروج پر پہنچ گئی ہے، پاکستان افغانستان کے تعلقات خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں، اگرچہ یہ تعلقات خود امریکہ نے خراب کرائے اور بھارت کو افغانستان کے قریب لے کر آیا اور اب بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت فضائی راستے سے ہونا شروع ہوگئی ہے، اور امریکی کہہ رہے ہیں کہ خطہ میں بھارت کا افغانستان سب سے بااعتماد اتحادی ہے، پاکستان پر ڈومور کا مطالبہ بڑھنا شروع ہوگیا ہے، پہلے تو امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستان کو سرے سے کوئی امداد دی ہی کیوں جائے، اب انہوں نے 21 جون 2017ء کو اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی امداد کم کرکے ڈرون حملے بڑھا دیئے جائیں۔ پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ اب ڈومور کی گنجائش نہیں ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ دہشت گردوں کے نام پر پاکستان میں ڈرون حملے بڑھانا چاہتی ہے تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو متاثر کیا جاسکے۔ بھارت، افغانستان اور کچھ ملکوں نے اپنی سی کرکے دیکھ لی، پاکستان نے انتہائی مستعدی اور کمال ہوشیاری سے سی پیک کے خلاف دہشت گردی کو روکے رکھا ہوا ہے، ایک آدھ واقعہ ہوجاتا ہے، اِس کے برعکس پاکستان نے جنگجوئوں کے خلاف اپنی طاقت سے زیادہ کام کیا ہے، پاکستان نے جب طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا تو امریکہ نے دھوکہ دہی کی اور اُن طالبان کو نشان زدہ کردیا کہ اُن کو ڈرون یا کسی میزائل سے مارا جاسکے، کیونکہ سیٹلائٹ کے ذریعے مکمل کنٹرول میں آچکے تھے۔ اسی وجہ سے طالبان کمانڈر کو ایران کی سرحد سے واپس آنے پر ڈرون سے نشانہ بنایا۔ پاکستان نے اس پر کافی زبردست کارروائی کی اور جنہوں نے طالبان کمانڈر کو پاکستان کا شناختی کارڈ جاری کیا تھا اُن سب کو سزا کے مرحلے سے گزارا۔ امریکہ اُس کے بعد کئی طالبان لیڈروں کو نشانہ بنا چکا ہے، جنہوں نے مری میں افغان حکومت سے مذاکرات کئے تھے، امریکہ طالبان کو ختم کرکے یا بتدریج کمزور کرکے دراصل اپنے 9 زمین دوز اڈوں کو افغانستان میں محفوظ بنانا چاہتا ہے، امریکہ کو شکست یا جیت کی پرواہ نہیں، اس نے افغانستان میں اپنے بہت مضبوط اڈے قائم کر لئے ہیں تاکہ وہ تمام خطے پر اپنی بالادستی قائم کرسکے، خطہ کو عدم استحکام کا شکار کرے، ان ممالک میں پاکستان صف ِاول پر ہے کہ وہ ایٹمی طاقت ہے اور اس کے ایٹمی اثاثہ جات کو امریکہ اپنی دسترس میں نہیں لے سکا ہے۔ اُس کو وہ مذہبی بنیادوں پر خطرہ سمجھتا ہے۔ دوسرے نمبر پر ایران ہے، ان دونوں ممالک کی سرحدوں کو امریکہ سکیڑنا چاہتا ہے، اُس کے اسباب جب روایتی طریقوں سے پیدا نہیں کئے جاسکے تو وہ اب ڈرون کے ذریعے پاکستان کو غیر استحکام کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان میں اس نے چومکھی جنگ شروع کر رکھی ہے اور اسی طرح روس میں بھی ہائیبرڈ جنگ شروع کی ہوئی ہے، روس اور چین میں امریکہ مسلمانوں کو اِن ممالک کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، ایک امریکی اخبار نے لکھا تھا کہ وہ چین کی معیشت کو پانی کے بلبلے کی طرح پھوڑ دیں گے اور جو دھماکہ گوادر میں ہوگا اُس کا اثر سنکیانگ میں محسوس کیا جاسکے گا، اس سلسلے میں وہ دونوں طرف تیاری کررہے ہیں، پہلے بحری حدود میں گڑبڑ نہیں ہوئی تھی اب وہاں بھی شروع کردی گئی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اِس کے انداز، اِس کے طور طریقے بڑھیں گے، پاکستان، ایران اور چین میں بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ تینوں ممالک کس طرح ایسے حملوں کا دفاع کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں امریکہ ڈرون حملے بڑھا دے تو کیا پاکستان ڈرون کو گرا دے گا اور کیا وہ پاکستان کے اندر سے اٹھنے والے طوفان کو روک سکے گا جو امریکہ مسلکی اور لسانی بنیادوں پر اٹھانے کے انتظامات کر سکتا ہے، ملک میں بے چینی ہے، بے یقینی ہے، ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کررہے ہیں۔
اب اِن میں کون امریکی ایجنڈا پر کام کررہا ہے معلوم نہیں،مگر وہ کسی دوسرے طریقے سے بھی پاکستان کے فیبرک کو توڑنے کی کوشش کریں گے جیسے ہمارے ملک میں سارے مسلک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، شاید دُنیا میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ یہاں ترقی، تنزلی یا ملازمت میں مسلک بیچ میں نہیں آتا اور اسی کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان نے دہشت گردی کو شکست دی، امریکیوں کی یہی کوشش ہے اس فیبرک کو توڑ دیں، اس ربط کو ختم کردیں جس سے پاکستانی ایک ہوجاتا ہے، اب کرکٹ کی فتح کو ہی دیکھ لیں کہ وہ پاکستان نے متحد ہو کر ایک عرصے بعد ایک بڑی کامیابی حاصل کی اور بھارت کے جادوئی نظام کے سحر کو توڑا، بھارت اپنی فوج تک میں جادو کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے، جس پر ایک کالم لکھ چکا ہوں۔ بہرحال اس وقت امریکہ کو افغانستان میں فوجی اڈوں کے علاوہ نہ کسی افغان حکومت کی ضرورت ہے اور نہ کوئی فرد اُن کیلئے اہم ہے، اُن کیلئے افغانستان میں کوئی ذی روح نہ بھی ہو تو اُن کو غرض نہیں، وہ صرف اڈے قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر وہ مطمئن ہے اور اُن اڈوں کو قائم رکھنے کیلئے وہ کس حد تک جاسکتا ہے اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔

 

.

تازہ ترین