• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ اقبال نے " بے یقینی" کو غلامی سے بھی بد تر قرار دیا تھا۔بے یقینی انسان اور قوم کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے اسکی صلاحیتوں اور قوتوں کو کھا جاتی ہے۔ بے یقینی کی فضا اسلئے بھی نہایت مہلک ہوتی ہے کہ ہر شے اپنی جگہ رک جاتی ہے اور حکومتیں مفلوج ہو کے رہ جاتی ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے بد قسمت ملک ہے کہ اسکی پوری تاریخ اکثر و بیشتر بے یقینی کی دھند میں لپٹی رہی۔ تقسیم ہند کے نتیجے میںپاکستان اور بھارت اگست 1947 میں دو آزاد ممالک کی حیثیت سے وجود میں آئے۔ بھارت نے تو دو سال کے اندر اندر اپنا آئین تیار کر لیاجو 26 جنوری 1950 کو نافذ العمل ہو گیا۔لیکن ہم سیاسی جھمیلوں میں الجھے رہے۔ خدا خدا کر کے قیام پاکستان کے 9 برس بعد 1956 میں ایک آئین تیار ہوا۔ اس آئین کے تحت پہلے انتخابات کی مہم جاری تھی کہ1958 میں ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یوں دستوری اور جمہوری حکمرانی کا جو تصور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دیا تھا، اسکا غنچہ بن کھلے مر جھا گیا۔ بعد کی کہانی پوری قوم کے سامنے ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی عدم استحکام ، بے یقینی اور غیر جمہوری حکمرانی کی بھاری قیمت سقوط ڈھاکہ کی شکل میں دینا پڑی۔ اتنی بڑی قیمت کے بعد بچھے کچھے پاکستان کی سیاسی قیادت مل بیٹھی اور 1973 میں( یعنی قیام پاکستان کے 26 سال بعد) ایک آئین تیار کر لیا گیا۔ جمہوری پارلیمانی نظام پر مبنی اس آئین نے دستور شکنی کو غداری قرار دیا اور اسکی سزا موت مقرر کی۔مطمح نظر یہ تھا کہ آئندہ کیلئے آمریت کا راستہ بند کر دیا جائے اور وطن عزیزدستور کے مطابق جمہوری راستے پر چلتا رہے۔
لیکن ہوا کیا؟آرٹیکل 6 کے باوجود آمریت کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ دو فوجی ڈکٹیٹر تقریبا بیس سال تک ملک پر قابض رہے۔ آئین، جمہوریت ، پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتیں، جمہوری روایات کا ارتقا، سب کچھ آمریت کے طوفان کی نذر ہو گیا۔ 2008 کے بعد ایک بار پھر جمہوری سفر شروع ہوا۔ پہلی بار ایک پارٹی کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے۔ پہلی بار سب سے بڑی اپوزیشن جماعت، مسلم لیگ (ن) نے غیر جمہوری قوتوں کیخلاف ، حکومت کا ساتھ دیا۔ 2013میں نئے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو وفاق اور پنجاب میں کامیابی ملی۔ خیبر پختونخوامیں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا اور سندھ میں حسب روایت پیپلز پارٹی نے حکومت قائم کر لی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اندر اچھی سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتیںاور فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہوئے2018 کے انتخابی اکھاڑے میں اترتیں ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ عمران خان کی ایک طوفانی مہم ، دھرنوں، مظاہروں اور احتجاجی جلسوں کی نذر ہو گیا۔ انکی ضد تھی کہ2013 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے انکی انتخابی فتح کو شکست میں بدل دیا گیاہے۔ بالآخر معاملہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی قیادت میں قائم ایک تین رکنی کمیشن کے پاس گیا ، جس نے تمام شواہد کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ انتخابات میں قواعد و ضوابط کی معمولی کوتاہیوں سے قطع نظر کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور انتخابات رائے عامہ کی درست ترجمانی کرتے ہیں۔ لیکن طوفان پھر بھی نہ تھما۔ بیچ میں ایک اخباری خبر کا معاملہ "ڈان لیکس" کے نام پر ایک نئے سیاسی بحران کا سبب بن گیا۔ ایک بار پھر بے یقینی اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہو گئی۔ ساتھ ساتھ اپریل 2016 سے پانامہ لیکس کا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ہر وقت کی بھونچال کی تلاش میں رہنے والی تحریک انصاف کو ایک اور بہانہ مل گیا۔ وزیر اعظم نے فوری طور پر عدالتی کمیشن کی پیشکش کی۔ لیکن اپوزیشن بضدرہی۔ بالآخر عمران خان ، سراج الحق، اور شیخ رشید عدالت پہنچ گئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ آج کل ہر طرف اس جے آئی ٹی کا تذکرہ ہے اور پورا ملک ایک بار پھر بے یقینی اور عدم استحکام کی آندھیوں کی زد میں ہے۔
پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ سعودی عرب اور قطر تنازع ہمارے لئے تشویش کا باعث ہے۔ ایران کا معاملہ بھی تشویشناک ہے۔ افغانستان کا رویہ جارحانہ ہو چکا ہے۔ اس سب کچھ سے قطع نظر امریکہ ہمیں سنگین نتائج ، براہ راست حملے اور ہر طرح کی امداد روک دینے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ صورت حال قومی سلامتی کیلئے شدید خطرات کی حامل ہے۔ ہمارا روایتی دشمن بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے پوری طرح متحرک ہے۔ لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ یہ صورتحال ہمارے میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ آپ کو اخبارات ، یا ٹی وی چینلوں میں انکا کوئی تذکرہ نہیں ملے گا۔ سارا دن پانامہ اور جے آئی ٹی کا ڈھول پیٹا جاتا رہتا ہے۔ شام کو چینلوں پر ایک تماشا شروع ہوتا اور رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ صبح اخبارات پر نظر ڈالیں تو خبروں، تجزیوں ، اداریوں، کالموں میں پانامہ اور جے آئی ٹی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں آج صرف میڈیا کا سکہ چل رہا ہے ۔ جے آئی ٹی نے پانامہ رپورٹ کے بارے میں تو پتہ نہیں کتنا کام کیا ہے لیکن اس نے میڈیا مانیٹرنگ کے بارے میں 110 صفحات پر مشتمل مواد اکھٹا کر لیا ہے۔ عدالتی بنچ کے ریمارکس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جج صاحبان میڈیا پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین بھی میڈیا پر اپنا اپنا زور بازو صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور اس سب کچھ کے ساتھ پاکستان بے یقینی کے جھٹکے کھا رہا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج بلند ترین سطح کو چھونے کے بعد مسلسل نیچے گر رہی ہے۔ سرمایہ کار سہم گئے ہیں۔ دنیا سوچ رہی ہے کہ پتہ نہیں حکومت اور وزیر اعظم کا کیا بننا ہے۔ لیکن میڈیا کا میلہ بد ستور عروج پر ہے اور لوگ سوچ رہے ہیں کہ پانامہ لیکس میں تو ایک سو کے لگ بھگ ممالک کا ذکر تھا۔ کیا کہیں اور بھی ایسا تماشا لگا ہے ؟ سوچنے سمجھنے والے پاکستانی حیران ہیں کہ اس ملک اور قوم کیساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر مقصد بد عنوانی کا احتساب ہے تو کیا یہ نیک کام اس طرح ہوتا ہے کہ پورے ملک کی اکانومی ، جمہوریت حتیٰ کہ سلامتی تک کو دائو پر لگا دیا جائے؟

 

.

تازہ ترین