• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک میں ایسی قیامت کبھی ٹوٹ پڑتی دیکھی۔ پارا چنار میں پھر خون کی ہولی کھیلی گئی، کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کو پھر شہید کیا گیا اور کراچی میں سپاہیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اب تو گنتی بھی ختم ہو چلی ہے، کتنوں کا شمار کریں اور کتنوں کی تعزیت۔ اور یہ سب جمعۃ الوداع کو ہوا۔ قبل از اسلام اور ظہورِ اسلام کے وقت بھی رمضان کے دوران جنگ و جدل اور قتل و مقاتلے بند کر دیئے جاتے تھے۔ مسلم ہوں یا غیرمسلم سبھی امن کی مالا جپتے۔ اب زمانے اور ہیں اور مسجد الحرام پہ بھی حملہ کرنے کی کوشش میں کچھ دہشت گرد مارے گئے۔ جی ہاں! جمعۃ الوداع کے دن ہی۔ مارنے والے ’مسلمان‘۔ مرنے والے معصوم اللہ لوگ!! کسی کو کوئی کیا دوش دے جب وحشیانہ گمراہی ’’کارِ خیر‘‘ ٹھہرے۔ صبح شام ہم ’’قتال‘‘ کے وظیفے سنتے ہیں اور اپنی صفوں سے ایسے غضبناک ’’مجاہد‘‘ اُبھرتے دیکھتے ہیں۔ اور پھر بھی بکل کے چوروں کی تلاش میں جانے کیوں نقشِ پا کی تلاش میں گم ہو کے رہ جاتے ہیں۔ سوچا تھا کہ ضربِ عضب اور ردّ الفساد نسخہ ہائے تیر بہ ہدف ثابت ہوں گے اور قتل و غارت گری کی فیکٹریاں دہشت گرد پیدا کرنا بند کر دیں گی۔ لیکن دیوانگی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ اور چین ہے کہ نصیب میں نہیں!!
ذرا سوچئے کہ دُنیا میں دہشت گرد ی کا الزام مسلمان پر ہی کیوں اور پوری مسلم دُنیا اپنوں ہی کے ہاتھوں خون میں لت پت۔ گھر میں آگ لگی ہو تو غیر جلتی پہ تیل تو ڈالیں گے ہی اور ایسے غیر جو ہمارے حکمرانوں کے پالن ہار ہیں۔ بجائے اس کے کہ حکمرانوں (جن میں اُمرا، شیوخ، شہزادے، فوجی آمر، مذہبی پیشوا اور اُن کے بعض لے پالک میڈیا شامل ہیں) کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ بھانت بھانت کے بھجکڑ لوگوں کو سازشی نظریوں کی گمراہیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس شیطانی کھیل میں کون ہے جو ملوث نہیں ہے۔ مسجد ہو یا منبر، مکتب ہو یا جامعہ، فرقہ وارانہ رسائل ہوں یا قتال کا بیان، مذہب کی تکفیری، تحقیری اور تفریقی تشریحات ہوں یا علم و تحقیق، سائنسی و سماجی علوم، ندرت و جدت، رواداری و سلامتی سے بیزاری، سب صبح شام ایسی تخریبی ذہن سازی میں ہمہ وقت مصروف کہ نسلوں کی نسلیں گمراہ ہو رہی ہیں۔ دس کو مارتے ہیں تو سو اور مرنے کو تیار۔ آخر اس مارا ماری سے دین و دُنیا کو کیا حاصل، سوائے تباہیوں اور بربادیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے۔ ذرا نظر ڈالیں! سعودی عرب اور یمن کے مابین کیا ہو رہا ہے، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں اور قطر کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے۔ شمالی افریقہ کے مسلم ممالک اور لیبیا میں خون آشام جنگ کیوں ختم ہونے کو نہیں۔ شام میں انسانی المیہ ہے کہ سالوں سے چلا جا رہا ہے، عراق میں فرقہ واریت کی آگ بجھنے کو نہیں۔ عربی عجمی، شیعہ سنی، تکفیری، سلفی، دیوبندی، بریلوی اور جانے کون کون سے قبائلی و گروہی جھگڑے ہیں جو مسلم اُمہ کو ہڑپ کرنے میں ہمہ تن مصروف۔ یہ سب کچھ ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، مختلف رنگوں کے عماموں، نوع بنوع حلیوں، مسلکوں، فرقوں در فرقوں اور قتل و غارت گری کی پھیلتی فیکٹریوں کی صورت میں، ایک خوفناک جنگل ہمارے گرد پھیلتا جا رہا ہے اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی (اور بہت سے لوگ پوری چاہتوں کے ساتھ) اس میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ ہو یا روس، بھارت ہو یا افغانستان، ایران ہو یا سعودی عرب سب اپنے اپنے مقاصد کے لئے اپنے اپنے کھیل میں مصروف۔ پھر ہم کہاں پیچھے ہٹنے والے ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، ہم نے بھی کیا کیا کھیل ہیں جو نہیں رچائے۔ افغانستان کی جس آگ میں ہم کودے اُس میں ڈیورنڈ لائن کیسے حائل ہوتی (بھلے اب کتنی ہی باڑیں لگایا کریں)۔ اور جو ماضی میںکُمک ہم نے لائن آف کنٹرول کے اُس پار پہنچائی تو ریڈ کلف لائن کے آر پار دہشت کی آگ سے ہمارے گھر کب بچے رہنے تھے۔
کرۂ ارض پر وہ تباہی مچی ہے کہ اب سائنسدان نظامِ شمسی سے آگے کے سیاروں پہ بسنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ اور ہم ہیں اپنی گور کھودنے میں ہمہ تن مصروف۔ فائر بریگیڈ کی ضرورت اپنی جگہ کہ آگ تو بجھانی ہی پڑتی ہے۔ لیکن وہ فکری بریگیڈ کہاں ہے جو آگ لگانے والے نظریوں کو بجھا سکے۔ ہر کوئی دوسرے کی ملامت میں لگا ہے، اپنی ملامت کے لئے بھی کچھ وقت نکالیں تو شاید دوسروں کی گردن زنی کی رغبت میں کچھ کمی آئے۔ لیکن جب یہ دھندہ بن جائے، میڈیا پر، مکتب میں، عبادت گاہوں میں، سیاست میں اور طاقت کے کھیل میں تو ایسے کاروبار کو ختم کرنے کے لئے بڑا ہی ہمہ طرفہ لائحۂ عمل اور عظیم تر منصوبہ چاہیے۔ اور اس کے لئے کسی کو فرصت کہاں؟ وزیراعظم اور اُن کی حکومت کو پانامہ لیکس سے فرصت نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو نواز شریف کو فارغ کروانے کی مہموں سے وقت بچے تو کچھ اور سوجھے، سلامتی کے ادارے اپنی حربی مشقوں میں مصروف، سرکاری محکمے بچے کھچے بجٹ کو ہڑپ کرنے میں مگن، کاروباری لوگ روزے داروں کی جیبوں کو کھنگالنے میں سرگرم۔ اور میڈیا کے پاس ہا ہا ہو کار کے سوا باقی کیا رہ گیا ہے۔ ایسے میں لوگ اللہ کی پناہ نہ مانگیں تو کیا کریں۔
ذرا تدبیریں سوچیں! کیوں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے سے ہٹ کر تدبیریں سوچیں۔ مسلم دُنیا جس خوفناک راہ پہ چل نکلی ہے، اُسے کیسے موت کے کنویں سے نکالا جائے۔ پاکستان میں جو انتہا پسندانہ و فرقہ وارانہ کھیل چلایا جاتا رہا ہے اُس کا مکمل تدارک کیسے ہو۔ سرحد آر پار دہشت گردی اور پراکسی جنگیں جو اَب ہر طرف سے ہماری جانب پلٹ آئی ہیں، اُن کا دو طرفہ، سہ طرفہ خاتمہ کرنے کا کہاں سے اور کیسے آغاز ہو۔ درسگاہوں اور تعلیمی اداروں میں علم و آگہی، تفتیش و تحقیق اور کشادہ ذہنی کے فروغ کے لئے کیسے آگے بڑھا جائے، پوری قوم تعلیم و صحت کے زیور سے آراستہ ہو۔ نوجوانوں کو کارآمد شہری بنانے کے لئے ہمہ نو پروگرام ترتیب دیئے جائیں۔ فرقے، مذہب، نسل اور جنس کی بنیاد پر معاشرتی، قانونی اور سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کے کیا جتن کیے جائیں۔ شدت پسندی، متشدد رجحانات اور فرقہ واریت کی ہر سطح پہ حوصلہ شکنی ہو۔ حقوق العباد کی تعلیم اور مساواتِ محمدی کا فروغ ہو۔ عدالتیں، انصاف کرتی دکھائی دیں، انتظامیہ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں غیرجانبدار ہو، افواج سیاست اور خارجہ امور سے دور رہیں۔ مقننہ جماعتی سربراہوں کی ربڑ اسٹیمپ نہ بنے۔ استاد قابل ہو اور تعلیم پہ توجہ دے۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرے اور دوسرے کے کاموں میں ٹانگ نہ اڑائے۔ ہمسایوں سے لڑائی بازی بند اور اشتراکِ عمل فروغ پائے۔ جنگ بازی کا کھیل بند ہو اور معاشی تعاون کو فروغ ملے۔ اپنے اپنے عوام پر جبر و ستم کا سلسلہ ختم ہو اور اُن کی بات سنی اور سمجھی جائے۔ ہر کوئی زندگی جیسے گزارنا چاہے، گزارے۔ کوئی کیوں اس میں مداخلت کرے۔ غریبوں، مسکینوں کو خیرات پہ لگائے رکھنے کی بجائے، اُنہیں زندگی میں شرکت کے بھرپور مواقع میسر ہوں۔ اور کیا کیا خیال اور تدبیریں ہیں جو اپنے اپنے مسیحا کے خون میں رنگی آپ کی توجہ کی طالب۔ کیا ’’دھاندلی دھاندلی‘‘، ’’پانامہ پانامہ‘‘ کے شور میں، سوچنے کے لئے کسی کے پاس کوئی وقت ہے؟ نواز شریف جائے، کوئی اور آئے، اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟ جمعۃ الوداع پہ بہنے والے خون سے کیا کوئی فرق پڑسکے گا۔

تازہ ترین