• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک جگہ بیٹھک تھی، سوال کیا گیا کہ افغانستان میں مسلمانوں کے مختلف فرقے برسوں سے آباد ہیں، لیکن وہاں کبھی فرقہ وارانہ تصادم نہیں ہوا۔ دوسرے صاحب نے کہا کہ ہندوستان میں شیعہ سنی یا دیو بندی بریلوی مسئلہ کیوں کبھی عداوت پذیر نہیں ہوا، ایک اور صاحب کا کہنا یہ تھا کہ ایک دو ممالک نہیں ، پوری دنیا میں  شیعہ سنی یا کوئی مسلکی تنازع اس طرح موجود ہی نہیں، جس طرح پاکستان میں ہے۔بات 21رمضان المبارک کے جلوس کی سیکورٹی کے حوالے سے ہورہی تھی۔ احمد فراز نے کہا تھا۔
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
آمروں کی ضرورتوں کے لئے اتحاد بنانے میں یکتا بعض مذہبی عناصر شاید بلبلا اٹھیں کہ نہیں، اسلام کے قلعے میں ایسی نفرتوں کا تصور بھی محال ہے۔ لیکن ایسا کہنا سچ کو قالین کے نیچے چھپانے کے مترادف ہے۔یہ امر واضح ہے کہ اگر مرض ظاہر ہوجائے تو اس کے علاج کے لئے چار ونا چار سوچنا ہی پڑتا ہے، مرض کومگر مرض تسلیم ہی نہ کیا جائے تو پھر علاج کا مرحلہ کیوں کر آسکتا ہے۔ بنا بریں یہاں عرض یہ ہے کہ حقائق سے چشم پوشی کرکے خود کو سب سے بڑا محب وطن ظاہر کرنا اصل میں حب الوطنی نہیں بلکہ حبِ وطن کا تقاضا یہ ہے کہ مسائل کے حل کی تدبیر نکالی جائے۔ چنانچہ جب تک فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم نہیں ہو جاتی یہ سوال موجود رہیگاکہ باقی دنیا کے مقابلے میں صرف پاکستان میں ہی فرقہ وارانہ تضادات کیوں شدت اختیار کرتے ہیں۔
پاکستانی متلون مزاج ہیں۔ ہمارے ہاں حب الوطنی کے مختلف رنگ و آہنگ ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم جو بات بات پر جوش میں آجاتے ہیں اس کا وطن عزیز اور اس کے شہریوں کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم محض’عشق‘ کرکے ترقی و تعمیر کےباقی سارے کام اس خاطر چھوڑ جاتے ہیں کہ اصل تو عشق ہے یعنی بقول شاعر۔
تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے
جہاں کے کام تھے جتنے تمام بھول گئے
ابھی کل ہی کی بات ہے جب بھارتی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان دہشت گرد اور بھارت سافٹ وئیر (کمپیوٹر) ایکسپورٹ کرتا ہے۔ ہمارا فوری رد عمل جذباتی تھا، جو بالکل درست اور بروقت تھا۔ ہم نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، یہ بھی بتادیا کہ دہشت گردوں کی بات کی دروغ گوئی سے زیادہ کوئی وقعت نہیں۔ تاہم یہاں ہمارا جواب اُس وقت مکمل ہوتا جب ہم اس پوزیشن میں ہوتے کہ ہم کہہ سکتے کہ ہم سافٹ وئیر سے بھی زیادہ اپنی فلاں فلاں  پروڈکٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ناراضی کی بات نہیں، ذرا حالیہ بجٹ میں اس حوالے سے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں تو رونا آتا ہے کہ اس ملک کے اختیار مندوں نے وسائل سے مالا مال اس ملک کو چھوٹی سی چھوٹی چیز کے لئے بھی غیروں کا دست نگر بنادیا ہے۔ برا نہ منائیں تو عرض کریں کہ ہمارے رہنما ہمیں صرف خواب دکھاتے رہتے ہیں جب کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ میرزا یاس یگانہ نے کہا تھا۔
امید و پیہم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
کیا یہ مقام عبرت نہیں کہ جہاں پاکستان کی 60فیصد آبادی یومیہ صرف دو سو روپے کما پاتی ہے اور ہر تیسرے پاکستانی کو غربت نے زندہ درگور کردیا ہے وہاں ہر تیسرا پاکستانی بچہ بھی اپنی روزی آپ کمانے کی خاطر در بدر ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2کروڑ 30لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ گئی ہے اور یومیہ 410افراد اس مرض سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان اس حوالے سے دوسرےنمبر پر ہے۔لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان غربت ، بیماری اور جہالت میں پوری دنیا میں سرفہرست ہے۔لیکن پھر بھی ہم نان ایشوز میں مست ہیں۔ ہمارے پاس اس حوالے سے وقت ہی نہیں ہے کہ ہم سوچیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امراض قلب کے سینکڑوں بچے پاکستان میں علاج نہ ہونے یا مہنگا ہونے کے سبب بھارت جانے پر مجبور ہیں؟ دیکھئے صاحب، بھارت نے ہم سے بنگال لے لیا، سیاچن و کارگل پر اپنے خونخوار پنجے گاڑ دئیے، اس لئے بھارت کے خلاف ہماری تیاریاں ناگزیر ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسی تیاریاں بھارت نہیں کررہا؟ کیا وہ اتنا احمق ہے کہ وہ ہم سے غافل اور صرف ترقی کے’ دھندوں‘ میں لگ گیا ہے۔ نہیں صاحب نہیں! وہ دفاعی تیاریاں بھی کررہا ہے لیکن اس نے معیشت کو بھی بھگوان کے حوالے نہیں کررکھا، مسلسل محنت و اخلاص ہی ہے کہ آج بھارتی معیشت تین چار بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔دوسری طرف ہمارا مصمم ارادہ یہ ہے کہ جب تک کشمیر پر حساب بے باق نہیں کرلیا جاتا، ہم نہ ترقی کریں گے اور نہ ہی بھوک ،بیماری و جہالت کے خلاف جہاد! کیا بھارت کا طرز عمل بھی یہی ہے کہ وہ محض جذبات لبریز کرنے والی فیکٹریاں چلا رہا ہے اور بس! دیگر لبرل دوستوں کے قطعی برعکس راقم الحروف کی یہ قطعی رائے ہے کہ کشمیر پر بھارت سے دو دو ہاتھ کئے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن جب تک وقفہ ہے تو کیا ہمیں ملک و عوام کی ترقی کے لئے کارگر نہیں ہونا چاہئے!ہم لاکھ انکار کریں مگر سچ یہ ہے کہ ملک کے اختیار مند قیام پاکستان تا امروز جعلی سودا ہی بیچ رہے ہیں اور ہم بظاہر اس کا خوبصورت برانڈ دیکھ کر جیسا سودا گر چاہتے ہیں یہ مال خرید رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ملک کے حقیقی مسائل حل کرنے کے بجائے ہمارے اختیار مندوں نے ہمیں نان ایشوز میں ایسے الجھا دیا ہے کہ ہمیں نہ اپنا ہوش ہے اور نہ ہی وطن کا! بلا شبہ کرکٹ کی جیت باعث فخر و خوشی ہے، کہنا مگر یہاں یہ ہے کہ جو قوتیں ہیجانی سوچ کی آبیاری کرتے ہوئےکسی بھی شعبے میں قوم کی نظروں کے سامنے سے دشمن کو ایک لمحے کیلئے بھی اوجھل نہیں دیکھنا چاہتیں ، کیا وہ ملک و ملت کو آگے بڑھانے میں بھی   اسی تندہی و اخلاص سے سرگرم ہیں؟ اس بات پربھی غور کیا جائے کہ اس ملک میںسات عشروں میں بھی آخر وہ جمہوریت کیوں بامِ مراد پر نہیں آئی ، جوپوری دنیا میں عوام کے دکھوں کا مداوا ہے!آج ملک پھر بے یقینی سے دو چار ہے۔ ایسے عالم میں جب ملک کے عوام و خواص کی نظریں جے آئی ٹی پر لگی ہوں، ترقی کا پہیہ کون رواں رکھے گا؟ یہ محض آج کا واقعہ نہیں ہے، کل اسی طرح کا خراج یوسف رضا گیلانی کو دینا پڑا تھا۔ پھر پچھلے پہر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، اس سے قبل میاں نواز شریف کی معزولی و جلا وطنی۔ یوں آپ یہ کڑیاں لیاقت علی خان کی شہادت تک ملائیں۔ عدم استحکام کی روایتوں کی ایک طویل داستان ہے۔ آخر ایک گول میز کانفرنس اس پر کیوں نہیں بلائی جاتی کہ یہ سب کچھ حب الوطنی کی کس ضرورت کے تحت ہوتا رہتا ہے؟ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اگر منبر سے آواز بلند ہوجاتی ہے تو برسوں کا کامل و پارسا مومن پل بھر میں ملحد بن جاتاہے اور میڈیا سے جب اسی نوع کی’ جےآئی ٹی‘ شروع ہوجاتی ہے تو حاکمِ وقت سیکورٹی رسک بن جاتا ہے۔ عوام کو ایسے فوبیا میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی شکست پر اتنا نہال نہال ہوجاتے ہیں جیسے 1971کی اپنی شکست کا بدلہ لے لیا ہو! جذبات ساز کرنے والی ایسی ہی فیکٹریوں کی فراوانی کی وجہ سے عوام کی توجہ اصل مسائل کی طرح  جاتی ہی نہیں!
یہی وجہ ہے کہ ۔
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پائوں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے

تازہ ترین