• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان اور اصغرخان دونوں سیاستدانوں میں بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔دونوں سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے مگر سیاسی میدان میں دونوں ہی جلد باز اور سیاسی قلا بازیاں کھانے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔اصغرخان نے شروع ہی سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سیاسی محاذآرائی کا میدان گرم رکھا اور بہت نام کمایا ۔اُس زمانے میں بھٹو مرحوم کیخلاف آواز بلند کرنا تقریباً ناممکن تھا مگر وہ جلد ہی جلسے جلوس کرکے عوام کو بہت حدتک بھٹو کی سیاست کے خلاف سڑکوں پر لے آئے اور پھر جب بھٹو نے انتخابات کا اعلان کیا تو پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس )بناکر بھٹو صاحب کو ناکوں چنے چبوادیئے ۔پھر انتخابات میں دھاندلیاں ہوئیں عوام سڑکوں پر نکل آئے ،گفت وشنید ناکام ہوئی تو مرحوم ضیا الحق نے اس سے فائدہ اُٹھایا اور ملک میں مارشل لا لگاکر جمہوریت کا بستر گول کردیا ۔مگر اصغرخان کو کچھ حاصل نہ ہوا اور ضیاء الحق آرام سے 10سال تک حکومت کرتے رہے۔ آخری دم تک اصغرخان کو اقتدار نہیں مل سکااور وہ اب گوشہ نشینی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔عمران خان نے بھی کرپشن کے خلاف آواز اُٹھائی مگر اُس وقت پی پی پی کی حکومت تھی ۔اُن کی آواز گونجتی رہی عوام سے پذیرائی ملی نیا نیا سیاسی خون تھا ،ورلڈکپ کی جیت اور شوکت خانم اسپتال اُن کے کارناموں میں شمار ہوتے تھے۔نئے نئے لوگ جوق درجوق اصغرخان کی نئی پارٹی کی طرح سیاسی میدان میں ان کے ساتھ شامل ہوئے ،انتخابی نشان بلا تھا جوکرکٹ کی کامیابی کانشان تھا۔ ہر جگہ سے ووٹ سمیٹے مگر دھاندلیوں نے ایک مرتبہ پھر قوم کو مایوس کردیا۔ عمران خان اقتدار میں آتے آتے رہ گئے ۔ پرُانے سیاسی جغادریوں نے ہر صوبے میں خفیہ ہاتھ دکھاکر اُن کو صرف خیبرپختون خوا تک محدود کردیا۔ اگر چہ وہ پنکچروں کا واویلا کرتے رہے پھر دھرنے کا سہارا لیا ،شروع شروع میں دھرنا قوم کو جگانے کاذریعہ بنا اورجب انکے ساتھ علامہ طاہر ا لقا د ر ی نے دھرنے میں شرکت کی تو اسلام آباد پہلی مرتبہ سیاسی اکھاڑہ بنا مگر مسلم لیگ ن کے نواز شریف صاحب کی قسمت ساتھ دے گئی اور کئی مرتبہ کشتی اُلٹتی دکھائی دی مگر پھر وہ اس بھنور سے نکل گئے۔ اُس کی وجہ بھی طاہر القادری صاحب تھے جو خاموشی سے اپنا دھرنا ختم کرکے بقول شخصے وصولیابی کے بعد اپنے ہیڈکوارٹر کینیڈا جہاں سے وہ آئے تھے واپس لوٹ گئے ۔مگر عمران خان نے پھر بھی نواز شریف حکومت کا ناطقہ بند کررکھا ۔ہر طرف سے وار کرتے رہے آگے پیچھے ہوتے گئے۔ پھر اچانک پانامہ لیکس کا معاملہ اُن کے ہاتھ آیا ۔میڈیا نے بھر پور اُن کا ساتھ دیا اور پھر میدان میں نئے ہتھیاروں کے ساتھ اُترے اگر چہ اُن کے بہت سے پرانے ساتھی اُن کی جلد بازی اور سیاسی ناپختگی کی وجہ سے ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ چکے تھے ۔خصوصاًمخدوم جاوید ہاشمی جو ان کے پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے ساتھ ساتھ پارٹی کے صدر بھی تھے، اُن کا جانا پارٹی کیلئے جھٹکے سے کم نہیں تھا ۔مگر انہوں نے نئے آنے والوں کا سیاہ ماضی برداشت کرکے اپنی پارٹی میں جگہ دینی شروع کردی ۔آج کل وہ پانامہ لیکس کے مرکزی مخالفین میں شمارہوتے ہیں ۔شیخ رشید کے ساتھ مل کر نواز شریف کی حکومت کو ہر صورت میں ختم کروانے میں سب سے آگے ہیں ۔جگہ جگہ جلسے کرکے عوام کو مسلم لیگ ن کے خلاف جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اگرچہ درپردہ تو پی پی پی والے مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں مگر جب سے پی پی پی کی باگ ڈور بلاول بھٹو کے ہاتھ آئی ہے اُن کے تیور بھی بدلے بدلے لگتے ہیں ۔خاص طور پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بھی پانامہ لیکس کے معاملے کو اعتزازاحسن سے خوب بلوارہے ہیں ۔
پانامہ لیکس کا حاصل کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر عمران خان نے پی پی پی کے وہ کرپٹ وزرا ،پرانے جیالے جو بی بی مرحوم کے بعد صدر آصف علی زرداری کے بہی خواہ تھے بلاول بھٹو سے خائف ہیں اور سمجھتے ہیںکہ اب کی بار بلاول بھٹو سیاسی میدان میں نوجوان جیالوں کواُتاریں گے ۔تویہ انکل اور آنٹیاں باہر ہوجائیں گے ،ادھر اُدھر جانے کے بجائے پی ٹی آئی ایک ایک کرکے پنجاب اور سندھ میں آنکھ بند کرکے انہیںگلے لگانے کیلئے تیار ہے تو خاموشی سے تحریک انصاف میں شامل ہوکر نئے سرے سے سیاسی میدان میں اُتریں اور عوام اُن کو عمران خان کی چھتری میں سمو لیں گے۔اُن کے پاپ پر پردہ بھی پڑ جائیگا اور کھویا ہوا مقام بھی دوبارہ ہاتھ آجائیگا۔ جس تیزی کے ساتھ یہ پی ٹی آئی کی واشنگ مشین سے دھلے لوگ اس پارٹی میں آرہے ہیں ۔لگتا ہے دوسرے دروازے سے پرانے کارکن آہستہ آہستہ پی ٹی آئی سے نکل کر عمران خان سے بدظن ہوکر کنارہ کش ہوجا ئیں گے ۔اور جب انتخابات کا اعلان ہوگا تو لامحالہ ٹکٹیں انہی لوگوں کو ملیں گی۔کیا ان میلے کچیلوں کو عوام ووٹ دیں گے جواپنی پارٹی کے نہیں ہوئے اور پی پی پی کے برُے وقت پر اُس کا ساتھ چھوڑ گئے بھلا وہ کیسے پی ٹی آئی کے ہمدرد ہونگے ۔اس وقت عمران خان جس جوش وخروش سے اُن کو ساتھ لے کر تصویریں کھنچوارہے ہیں۔عوام ان کی شمولیت کو ناراضی سے دیکھ رہے ہیں ۔جس طرح وہ مسلم لیگ ن کے نواز شریف کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں اتنا ہی نواز شریف مظلوم بن کر ابھریں گے ۔کیونکہ پنجاب کے عوام اب بھی نوازشریف اور شہباز شریف کو دیگر سیاستدانوں سے بہتر سمجھتے ہیں ۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب دیگر صوبوں کی بہ نسبت بہت ترقی کرکے آگے جاچکا ہے۔ سندھ ، بلوچستان اور صوبہ پختونخواابھی تک پسماندہ ہیں۔ رہا کراچی والوں کا سوال توانہیںخود سندھ کے حکمرانوں سے گلہ ہے ۔وہ کراچی کو کھنڈر بناچکے ہیں۔ نہ عمران خان نے کراچی سے چند سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود کراچی کیلئے کچھ نہیں کیا اور مسلم لیگ ن تو کبھی کراچی میں کوئی سیاسی کردار ہی ادا نہ کرسکی ،خود پی پی پی کی ظالمانہ پالیسیاں کراچی والوں کو بھٹو صاحب کے دور سے ہی بدظن کرتی آئی ہیں ۔اب دیکھتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور مصطفی کمال کی پارٹی پی ایس پی کیا کردار ادا کرے گی؟

تازہ ترین