• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی سب سے بڑی چارٹرڈ اکائونٹینٹ کمپنی ’’پرائز واٹر ہائوس کوپر ‘‘ (PWC)نے اپنی حالیہ رپورٹ میں 2030ء تک دنیا کے 32 بڑے ممالک کی معیشتوں کی جی ڈی پی، قوت خرید اور لوگوں کے معیار زندگی کی بنیاد پر پیش گوئیاں کی ہیں جس کے مطابق 38 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ پہلے نمبر پر چین، دوسرے نمبر پر امریکہ (23.5 کھرب ڈالر)، تیسرے نمبر پر بھارت (19.5 کھرب ڈالر)، چوتھے نمبر پر جاپان (5.6 کھرب ڈالر)، پانچویں نمبر پر انڈونیشیا (5.4 کھرب ڈالر)، چھٹے نمبر پر روس (4.7 کھرب ڈالر)، ساتویں نمبر پر جرمنی (4.7 کھرب ڈالر)، آٹھویں نمبر پر برازیل (4.4 کھرب ڈالر)، نویں نمبر پر میکسیکو (3.6 کھرب ڈالر)، دسویں نمبر پر برطانیہ (3.6 کھرب ڈالر)، گیارہویں نمبر پر فرانس (3.4 کھرب ڈالر)، بارہویں نمبر پر ترکی (3 کھرب ڈالر)، تیرہویں نمبر پر سعودی عرب (2.7 کھرب ڈالر)، چودھویں نمبر پر جنوبی کوریا (2.6 کھرب ڈالر)، پندرہویں نمبر پر اٹلی (2.5 کھرب ڈالر)، سولہویں نمبر پر ایران (2.4 کھرب ڈالر)، سترہویں نمبر پر اسپین (2.2 کھرب ڈالر)، اٹھارہویں نمبر پر کینیڈا (2.1 کھرب ڈالر)، انیسویں نمبر پر مصر (2 کھرب ڈالر) اور بیسویں نمبر پر پاکستان (1.86 کھرب ڈالر) آتا ہے۔ فہرسست میں ستائیسویں نمبر پر بنگلہ دیش (1.3 کھرب ڈالر) جبکہ نیدر لینڈ کی معیشت ایک کھرب ڈالر کے ساتھ آخری یعنی 32 ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کی پہلی 4 بڑی معیشتیں بڑی آبادی والے ممالک ہیں۔ 2016ء میں دنیا کی مجموعی آبادی 7.4 ارب ہے جس میں چین 1.4 ارب کے ساتھ سرفہرست ہے، بھارت 1.3 ارب کے ساتھ دوسرے، امریکہ 32 کروڑ کے ساتھ تیسرے اور انڈونیشیا 25 کروڑ کے ساتھ چوتھے نمبر پر آتا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اب زیادہ آبادی ہونا ملک کی معیشتوں پر بوجھ نہیں بلکہ لوگوں کو ہنرمند بناکر اُن سے ملکی پیداوار اور جی ڈی پی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی آبادی چین اور بھارت کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے لیکن امریکیوں کی مہارت اور پیداوار کی صلاحیت چین اور بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے لہٰذا چین اور بھارت کو مستقبل میں اپنے افراد کی مہارت اور پیداواریت بڑھانے کیلئے سخت محنت کرنا ہوگی۔ چین اور بھارت میں قوت خرید میں اضافے کا سہرا چین میں مائوزے تنگ اور بھارت میں 1991ء کی اصلاحات ہیں جس میں مقامی مارکیٹ کو بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے کھولا گیا اور بیرونی سرمایہ کاری سے ان ممالک میں صنعتی انقلاب آیا، ملکی ایکسپورٹس میں حیرت انگیز اضافہ اور ان کی معیشتوں میں متاثر کن گروتھ دیکھنے میں آئی۔
میں یہاں بنگلہ دیش کی اہم اصلاحات کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا جس کی بدولت بنگلہ دیش کو 2016ء میں دنیا کا دوسرا بڑا تیز گروتھ حاصل کرنے والا ملک قرار دیا گیا۔ 2016ء میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 7.05 فیصد رہی جبکہ 2017ء میں 7.2 فیصد متوقع ہے لیکن پاکستان میں اصلاحات کے عمل کو پالیسیوں کے عدم تسلسل اور سیاسی عدم استحکام کی بدولت موثر طریقے سے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا، اس کے علاوہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور توانائی کے بحران کی وجہ سے بھی ہماری صنعتی ترقی جمود کا شکار اور ملازمتوں کے مواقع محدود رہے جس کی وجہ سے پاکستان خطے کے دیگر ممالک کی طرح مطلوبہ معاشی گروتھ حاصل نہیں کرسکا۔ 2006ء میں پاکستان کی جی ڈی پی 5.5 فیصد تھی جو 2009ء میں گرکر 0.36 فیصد رہ گئی لیکن 2014ء اور 2015ء میں یہ گروتھ اوسطاً 4 فیصد اور 2016ء میں 4.7 فیصد رہی۔ حکومت پاکستان کا 2017ء میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 5.7 فیصد ہے لیکن ملک میں اب امن و امان، توانائی کی بہتر صورتحال اور سی پیک منصوبوں کی وجہ سے آنے والے وقت میں پاکستان میں تیز جی ڈی پی گروتھ کی توقع کی جارہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے متعدد بار کہا ہے کہ ’’حکومت نے پہلے 3 سالوں میں ٹیکس، توانائی کے شعبوں کے علاوہ دیگر اصلاحات کیں اور آخری دو سالوں میں حکومت کا ہدف تیز ملکی گروتھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ بدقسمتی سے ملکی بجٹ صنعتی اور ایکسپورٹ گروتھ کے بجائے زیادہ سے زیادہ ریونیو وصولی پر بنایا جاتا رہا ہے جو میرے خیال میں غلط حکمت عملی ہے۔ میرے خیال میں حکومتی پالیسیاں زیادہ ریونیو وصولی کے بجائے زیادہ ریونیو پیدا کرنے والی حکمت عملی پر بننا چاہئیں جس سے نہ صرف ملک میں نئی سرمایہ کاری سے صنعتکاری کا عمل فروغ پائے گا بلکہ نجی شعبے میں نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ملکی معیشت کے تینوں شعبوں صنعت، زراعت اور سروس سیکٹرز کی گروتھ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2015-16ء میں ملکی جی ڈی پی میں زرعی سیکٹر کا حصہ 19 فیصد، صنعتی سیکٹر 21 فیصد اور سروس سیکٹر کا حصہ تقریباً 60فیصد رہا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کی معیشت میں زرعی اور صنعتی سیکٹر کی گروتھ میں کمی اور سروس سیکٹر کی گروتھ میں اضافہ ہورہا ہے جو پاکستان کو ٹریڈنگ اسٹیٹ کی جانب لے جارہا ہے۔
میں اپنے گزشتہ کالموں میں متعدد بار یہ لکھ چکا ہوں کہ ہماری صنعت پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں غیر مقابلاتی ہوتی جارہی ہے جبکہ زراعت کا شعبہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے۔ پاکستان کی کاٹن پیداوار 14 ملین بیلز سالانہ کی پیداوار سے کم ہوکر 11 سے 12 ملین بیلز تک آگئی ہے جبکہ بھارت میں گزشتہ دہائی میں کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سے بڑھ کر 36 ملین بیلز سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کو توانائی سیکٹر میں 480ارب روپے کے گردشی قرضوں اور ایکسپورٹرز کے 300 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی ادائیگی بڑے چیلنجز ہیں۔ اس کے علاوہ خسارے میں چلنے والے قومی ادارے پی آئی اے، واپڈا، اسٹیل ملز اور ریلوے قومی خزانے پر بوجھ ہیں جنہیں چلانے کیلئے سالانہ عوام کے 500ارب روپے جھونکے جارہے ہیں۔ وزیر خزانہ ہر سال بجٹ میں ان اداروں کی نجکاری کا وعدہ کرتے ہیں لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے ان اداروں کو چلانے کیلئے عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں سے خطیر رقم ادا کی جارہی ہے۔ ایکسپورٹس میں کمی اور امپورٹ میں اضافے سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر پر دبائو ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جو 73 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس کے علاوہ (ن) لیگ کی حکومت نے مقامی بینکوں سے 3.1 کھرب (30 ارب ڈالر) کے مقامی قرضے بھی لئے اور اس طرح حکومت نے گزشتہ 3 سالوں میں مجموعی 55 ارب ڈالر کے قرضے لئے۔ قرضوں میں تیزی سے اضافے کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ 2017ء میں ہمارے بیرونی قرضے بڑھ کر 75.54 ارب ڈالر (7.9 کھرب روپے) تک پہنچ سکتے ہیں جو ہمارے قرضوں کے زیادہ سے زیادہ حد کے قوانین یعنی جی ڈی پی کے 60فیصد سے تجاوز کرجائینگے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے درخواست ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ریونیو کی وصولی کے علاوہ صنعت اور ایکسپورٹ کی گروتھ پر بھی توجہ دیں۔

 

.

تازہ ترین