• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئےہیں، جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، جس نے انسان کو ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کر کے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں اپنے بندوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں دراصل وہ زندگی گزارنے کا ایسا منشور ہے جس پر عمل کرتے ہوئے دنیا و آخرت کی زندگی کامیاب و کامران ہو جاتی ہے۔ اس ماہ رمضان میں تفہیم القرآن کے مطالعے کے دوران خصوصی طور پر سورۃ مومنون کی پہلی گیارہ آیات اور سورۃ الفرقان کی آخری پندرہ وہ آیات ہیں جو کثرت کیساتھ میرے مطالعہ میں رہیںیہ ایک مسلمان کو اپنی کامیاب دنیاوی زندگی کیساتھ ساتھ آخرت کی زندگی کی تیاری کیلئے رہنمائی فراہم کرتی ہیں ۔ ان سب آیات کا ترجمہ اور مختصر سی تشریح اپنے قارئین کیساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم یہ سوچ سکیں کہ اس آفاقی منشور کی روشنی میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور اپنے اندر کس طرح کی بہتری لاسکتے ہیں کہ ہمارا شمار فلاح پانیوالے اللہ کے بندوں میں ہو جائے۔
٭…’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانیوالوں نے‘‘۔ فلاح کے معنی کامیابی و خوشحالی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور ؐ کی دعوت کو قبول کیا اور اس طریق پیروی پر راضی ہوگئے جسے آپ ؐ نے پیش کیا ۔ جو ایمان لاتے ہیں ،اُنکی ایسی صفات کا اگلی آیات میں ذکر ہے جن کو اختیار کر لیں تو کبھی نامراد نہیں ہو سکتے۔
٭…’’ جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘۔ خشوع کے معنی کسی کے آگے جھکنے اور عجز و انکساری اختیار کرنے کے ہیں ۔ اس کیفیت کا تعلق دل اور جسم کی ظاہر حالت سے بھی ہے ۔ یہی نماز کی اصل روح ہے۔
٭…’’ لغو بات سے دُور رہتے ہیں‘‘۔ لغو ہر اُس بات یا کام کو کہتے ہیں جو فضول اور بے نتیجہ ہو۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کو ہر وقت اپنی ذمہ داریوں کا احساس رہتا ہے اور جہاں لغو بات ہو تو وہ جانے سے پرہیز کرتا ہے یا پھر وہاں سے مہذب طریقے سے گزر جاتا ہے ۔
٭…’’ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں‘‘۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ تزکیہ کا کام کرنیوالے لوگ ہیں، یعنی اپنے آپ کو پاک کرنے کیساتھ ساتھ دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بجالاتے ہیں۔
٭…’’ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنی عفت و عصمت کو محفوظ رکھتے ہیں۔
٭…’’سوائے اپنی بیویوں اور ان عورتوں کے جو ان کے مِلک میں ہو کہ ان پر وہ قابل ملامت نہیں۔
٭…’’ البتہ جو اُسکے علاوہ کچھ اور چاہیں وہ زیادتی کرنیوالے ہیں‘‘۔ ان دو آیات کا مفہوم یہ ہے کہ جائز مقام پر اپنی خواہش نفس پوری کرنا کوئی قابل ملامت نہیں البتہ گناہ یہ ہے کہ ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے۔ ایسے تمام طریقوں کو حرام کیا گیا ہے خواہ زنا ہو یا عمل قوم لوط ۔
٭…’’ اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے اور اپنے قو ل وقرار سے نہ پھرے۔حضوراکرم ؐ کی حدیث ہے کہ جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایما ن نہیں رکھتا اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا۔
٭…’’ اور اپنی نمازوں کی مخافظت کرتے ہیں‘‘۔ نمازوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ اوقات نماز، ارکان و اجزائے نماز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔
٭…’’یہی لوگ وارث ہیں ، جو میراث میں فردوس پائینگے اور اسمیں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ فردوس جنت کیلئے معروف ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو ایسی جنت میں ہمیشہ رہیں گے جن کا تصور دنیا کی بلند ترین عمارت بھی اُس کے مقابلے میں ایک بھونڈی ہے۔
اب تھوڑا سا خلاصہ اور مفہوم سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 63سے لیکر 76تک ،جن میںرحمٰن کے بندے کی خصوصیات کا تفصیلی ذکر ہے۔
٭…رحمٰن کے اصل بندے وہ ہیں جو زمین پرنرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُنکے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام‘‘۔ قرآن پاک میںاللہ کے بندوں کی خصوصیات بتاتے ہوئے سب سے پہلے اس خصوصیت کا ذکر کیا کہ وہ تکبر کیساتھ اٹھتے بیٹھتے نہیں بلکہ حلیم طبع اور نفیس بھلے مانس لوگوں کی طرح زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور اگر کوئی جاہل شخص ان سے بدتمیزی کرتا ہے تو اس کا جواب بیہودگی سے نہیں دیتے بلکہ سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں۔ ’’ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں‘‘ ۔ جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب جہنم کے عذاب سے ہم کو بچالے اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے ، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے ۔ ان دو آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اُنکی عبادت غرور پیدا نہیں کرتی بلکہ اپنی تمام نیکیوں کے باوجود اس خوف سے کانپتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے عمل کی کوتاہیاں ہم کو عذاب میں مبتلا نہ کر دیں۔ ’’ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ اُنکا خرچ دونوں انتہائوں کے اعتدال پر قائم رہتا ہے ‘‘۔
جو اللہ کے سوا نہ تو کسی کو پکارتے ہیں ، نہ کسی کو نا حق قتل کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر ایک کی سزا ہے اور عذاب کا سلسلہ ٹوٹے گا نہیں اور مجرم انسان کو صرف معافی کی امید ہی جرم سے نکال سکتی ہے چونکہ جو شخص توبہ کرتا ہے اور اس سے پہلے کی زندگی میں جو گناہ کئے ہوتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا ۔ رحمٰن کے یہ بندے جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے ، ایسے لوگ ہی اپنے صبر کا پھل بلند منزل کی شکل میں پائیں گے ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
قرآن پاک کی ان آیات کو ایک رہنما پیما نے کے طور پر سامنے رکھتے ہوئے ہمیں سوچنا اور اپناجائزہ لینا چاہئے کہ ہم میں کتنی یہ صفات پائی جاتی ہیں ۔ کیا ہم اپنی نمازوں میں خشو اختیار کرتے ہیں، لغوسے دُور رہتے ہیں ، زکوٰۃکے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، کیا ہم کسی سے زیادتی تو نہیں کرتے، ہم امانتوں اور عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں ۔ زمین پر نرم چال چلتے ہیں ، راتوں کو سجدہ کرتے ہیں، جو کچھ باری تعالیٰ نے ہمیں دے رکھا ہے اُسکی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، بخل تو نہیں کرتے ، کسی کو اللہ کا شریک تو نہیں ٹھہراتے ، کیا ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرنیوالے ہیں اور اصل مرجع کی طرف پلٹتے ہیں، ہم جھوٹ کے گواہ تو نہیں بنتے اور جب ہمیں آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو اسے قبول کرتے ہیں۔گر تو یہ سب کچھ ہم کر رہے ہیں تو ہمیںاطمینان ہونا چاہئے کہ ہم صحیح اللہ کے بندے ہیں اور ایسے لوگ ہی فلاح پانیوالے ہیں ۔ مجھے تو سورۃ النساء کی آیت نمبر 147بار بار یاد آرہی ہے کہ’’ اللہ تمہیںعذاب دے کر کیا کریگا اگر تم شکر گزار بن جائو اور ایمان لے آئو ، اور اللہ ہر حق کا قدر شناس ہے، ہرعمل کا خوب جاننے والا ہے‘‘۔ یہاں ہمارے ذہنوں میں یہ بات بھی رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا راستہ ہم اختیار کرتے ہیں تو اسکا فائدہ ہمیں ہی ہے ، اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے اُسے تو ان چیزوں کی ضرورت نہیں جیسا کہ سورۃ الفرقان کی آیت نمبر77میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ اے محمد (ﷺ)، لوگوں سے کہو میرے رب کو تمہاری کیاحاجت پڑی ہے اگر تم اُس کو نہ پکارو‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا بندہ بننے کی ہدایت اور توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

 

.

تازہ ترین