• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب تک یہ کائنات باقی ہے، انسان کا لفظ اور روح سے رابطہ ہے، آنکھ میں بصیرت کی قوت ہے ، خیال میں ماورائی اشیا کو جذب کرنے اور قلم کو اظہار میں لانے کی جرات ہے، رومی تمام محبت کرنے والے دلوں اور دانش سے سرفراز دماغوں کی ترجیحات میں شامل رہے گا۔ عشق کی ابتداء اور انتہا کے درمیان زندگی کے پُل صراط پر خوشبو کی طرح سانسوں میں سرایت کرتا ادراک کے نئے در وا کرتا مسلسل لا محدود کی طرف رواں دواں ہے۔ رومی ایک معجزہ ہے،روحانی اور مادی سرحد پر تعینات اِک خبر رساں ہے ، جو روح سے مکالمہ کرنے کا فن جان چکا ہے۔اصل نکتہ اس کی فہم و فراست میں سما چکا ہے کہ کائنات کا سچ عشق ہے، اور وہ اپنے اور باطنی واردات کو احساس میں رچا کر مستقل کرنے کے لئے شاعری کو وسیلہ کرتا ہے۔عشق کے مجازی اور حقیقی رنگوں کی کہکشاں سے سے سجی ، جیون کی دانش میں پروئی، الہامی رازو ں کی تفہیم کرتی ،وجدانی آنکھوں سے دیکھے خوابوں کی تعبیروں سے بھری حیات کے مقصد سے جوڑتی مثنوی ہر موضوعِ زندگی کا احاطہ کرتی اور مابعد الطبعیاتی دنیا سے رابطے استوار کرتی فرد کے وجود میں پنہاں عشق کے جذبے کو بیدار کر کے کائنات کو نئے زاویے سے دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ مثنوی ایسی لکھت نہیں کہ ناول افسانے یا شاعری کی کتاب کی طرح ایک نشست یا کچھ نشستوں میں پڑھی جا سکے۔
پاکستان ، ایران اور ترکی کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی اُن کی فکر، معاشرت اور فنونِ لطیفہ کے تمام شعبوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ادب کی تمام اصناف میں اِک گہری ہم خیالی اور جذباتی وابستگی کا احساس موجود ہے۔ مذہبی حوالے سے عربی زبان و ادب اور وہاں کی شاعری کے تصورات اور موضوعات کی بجائے ہمارے ادب پر فارسی زبان اور تصورات کا گہرا اثر ہے۔ حافظ ،سعدی اور رومی میں ہمیں اپنا مافی الضمیر دکھائی دیتا ہے۔ ان کی شاعری ہمارے مزاج سے ، ہماری روح اور تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ اس لئےہمیں اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے ۔ پاکستان کی تمام زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب خصوصاً شاعری پر فارسی شاعری کی گہری چھاپ نمایاں ہے۔
رومی کو پڑھنے کے لئےوجود کی تمام حسیات کو بیدار کرنا پڑتا ہے ۔ لفظوں کی روح سے دوستی کر کے اصل حقیقت تک رسائی کرنا ہوتی ہے۔ مثنوی میں درج ہر حکایت ایک کہانی ہے۔ ایک اسرار ہے ایک کائنات ہے اسلئے اُسے پوری طرح جاننے کے لئے ٹھہرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ جسم کو زندہ رکھنے کے لئے کھائی جانے والی خوراک کی طرح روح کی خوراک کا بھی تناسب مقرر ہوتا ہے۔ خوراک کی طرح دانش کو بھی ہضم کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے جب رومی کو پڑھنا شروع کیا تو ایک دو صفحوں کے بعد کتاب بند کر کے حیرت کے قلعے میں گم صُم بیٹھی رہتی تھی۔لفظوں سے جھانکتی دانش کی لہروں کو خود میں جذب کرنے کے لئے جتن کرناپڑتا تھااور جب حرف حرف خوشبو بکھرتی تو عجب سرشاری وجود پر طاری ہو جاتی ۔ رومی کو ایک بار نہیں بار بار پڑھا اور ہر بار لکیروں کے درمیان سے کچھ نیا وارد ہوا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں رومی کے تراجم ہو چکے ہیں اورہر مترجم نے اپنی جمالیاتی استعدادوعطا کی گئی دانش کے مطابق حُسن اور عشق کشید کر کے ابلاغ کو خوبصورت بنایا ہے۔
ایلف شفق نے ایک نئے ڈھنگ اور زاویے سے رومی کے نظرئیے کی تشریح کر کے ایک لازوال ناول ’’The Forty Rules of Love‘‘ تخلیق کر کے عشاقِ رومی کی محبتیں سمیٹی ہیں ۔ یہ ناول اپنے اندر کئی حقیقتوں کو سمیٹتا عہدِ حاضر کے مسائل کے حل بتاتا آگے بڑھتا ہے۔ فکرِ رومی کو آج کے منظر نامے میں ڈھال کر رہنما اصول بھی اجاگر کئے گئے ہیں۔ موجودہ دور میں تین اہلِ کتاب قوموں مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان غلط فہمیوں کے باعث ایک خلیج حائل ہو چکی ہے۔ ہر چڑھتے سورج کی کرنیں دشمنی کی فضا کو زیادہ مستحکم کرتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں تصوف جسکا بیانیہ عالمگیر سچائی پر مبنی ہے جو انسانیت اور خیر سے وابستہ ہے کو بنیاد بنا کر ان تینوں کو ایک شاہراہ پر لانے اور الجھنیں سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ محبت کے چالیس اصول دراصل وہ چالیس چراغ ہیں ۔ جن کو باطنی رہنمائی سے روشن کر لیا جائے تو زندگی روشنی میں ڈھل جاتی ہے۔ مسلمانوں کو درپیش معاملات اور خاص کر شریعت کے حوالے سے اُٹھنے والے مختلف فرقہ جات کے سوالات کا بصیرت کی سطح پر جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے صوفی کی نظر سے کائنات کو دیکھنے کی ترغیب ملتی ہے ۔ ہر موقعے پر قرآن اور انبیاء کی سیرت کی مثالیں پیش کر کے اپنا موقف اور قبلہ درست سمت رکھا گیا ہے۔
موسیٰ اور خدا کے درمیان جو اُنسیت اور اپنائیت کا معاملہ تھا اُسے انسان کی محبت کی معراج گردان کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ خدا لفظوں اور رسوم کی بجائے دلوں کی سچائی اور گہرائی دیکھتا ہے۔ ظاہر کے اخلاق کے ساتھ باطن کی نرمی ضروری ہے۔ دوسروں کے عقائد میں دخل نہ دے کر ہی روحانی راستے پر آگے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ خدا مذاہب کی عبادت گاہوں تک محدود نہیں بلکہ وہ کائنات کی ہر شے میں اور ہر جگہ موجود ہے۔
اُسے پانے کے لئے سچے عاشق کا دل بننا پڑتا ہے۔ مایوسی سے اجتناب کیا جائے تو ہر مشکل میں بھی نیا در کھل جاتا ہے۔ ہر لمحہ شُکر گزار رہنا اس کے قریب ترین کر دیتا ہے۔ صبر اشیا اور معاملات کا اُجلاپن دیکھنے کے مترادف ہے ۔ حقیقی مرشد اپنی ذات کی تابعداری کی بجائے باطن تک رسائی میں مدد یتا ہے۔ وہ شیشے کی مانند ہوتا ہے ۔ اولیا دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کے ناموں اور شکلوں کے فرق سے ماورا ہوتے ہیں۔ وہ صرف نسلِ انسانی کی بات کرتے ہیں ۔خدا ہر فرد کے ساتھ انفرادی معاملہ رکھتا ہے اور فرد کی ظاہری اور باطنی تکمیل کرتا ہے۔چالیس برس کی عمر میں انسان پر نئی حقیقتیں افشاں ہوتی ہیں۔ چالیس کا ہندسہ بہت اہم ہے۔ انسان کی زندگی میں چالیس سال کی خاص اہمیت ہے ۔ اس عمر تک وہ اپنی ذات کا شعور حاصل کر لیتا ہے اور ایک نئی ڈگر پر سفر کا آغاز کرتا ہے۔ بچے کو زندگی کی طرف بڑھنے میں پہلے چالیس دن خاص کردار ادا کرتے ہیں۔ طوفانِ نوح کی مدت چالیس دن ہے۔ اسلامی تصوف میں خدا اور بندے کے درمیان چالیس درجے یا مرحلے ہوتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ چالیس دن رات جنگلوں میں ریاضت کرتے رہے۔ گوتم بدھ نے چالیس دن مراقبہ کیا اور نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺپر چالیس برس کی عمر میں وحی نازل ہوئی۔
دوسروں سے عزت اور محبت حاصل کرنے کے لئے پہلے اپنے آپ سے محبت اور عزت کرنا ضروری ہے۔ انسان ہر کوئی منفرد ہے ۔ ہر دل الگ لے پر دھڑکتا ہے۔ اس لئے اختلاف کا احترام لازم ہے۔ دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنا رب کی رضا اور حکمت کی عدم عدولی ہے۔ ظاہری حلئے کی بجائے نیت معاملات میں فرق کرتی ہے۔ دنیا ایک عارضی ٹھکانہ ہے۔ جس میں انتہا پسندی اندرونی توانائی کو برباد کر دیتی ہے۔ صوفی انتہا کی بجائے اعتدال کا راستہ منتخب کرتا ہے۔ ہر لمحے کے اندر جنت اور دوزخ موجود ہے۔ محبت کے لمحوں میں جنت اور نفرت کے عالم میں دوزخ ہمارا مقدر بنتی ہے۔ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں تبصرہ بھی گناہ ہے کیونکہ زبان سے نکلے ہوئے لفظ ذخیرہ ہو جاتے ہیں اور کسی وقت لوٹ کر ہمیں تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ تقدیر مکمل جبر کا نام نہیں ہے۔ انسان اپنا ساز تبدیل نہیں کر سکتا مگر اسے اپنے ڈھنگ سے بجانا اس کے ہاتھ میں ہے۔

 

.

تازہ ترین